Friday, March 9, 2012

hazrat iesa alaihisslaam ki zubani hazrat muhammad ki basharat حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی زبانی حضرت محمدﷺ کی بشارت

سارہ الیاسی
by sarailliyasi

ایسے دور میں جبکہ پورے عالم میں مسلمانوں کے خلاف عیسائی غلبہ کے تحت اہل مغرب کا رویہ ان کے مذہب، تہذیب اور تاریخ کے متعلق غیرہمدردانہ ہی نہیںبلکہ ایجاباً مخاصمانہ ہوچکا ہے‘ترکی میں قدیم آرامی زبان میں مکتوب انجیل مقدس کا ایک نایاب نسخہ (مخطوطہ) دریافت ہوا ہے جس میں حضرت مسیح علیہ السلام کی زبانی ان کے بعد حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور کی بشارت دی گئی ہے۔ مذکورہ نادر و نایاب نسخہ 1500 قبل مسیح کا بتایا جاتا ہے۔ برطانوی اخبار ’ڈیلی میل‘ کے مطابق انجیل کا یہ نسخہ آج سے بارہ سال قبل دریافت کیا گیا تھا جو ابھی تک عیسائیوں کے مذہبی مرکز وٹیکن میں موضوع بحث رہا تاہم اسے منظر عام پر نہیں لانے دیا گیا۔ اب اسے عیسائیوں کے مذہبی پیشوا پوپ بینیڈکٹ شانزدہم نے معائنے کیلئے منگوا لیا ہے۔اہل علم کے نزدیک اسلام سے پہلے کے تمام مذاہب کی تعلیمات چونکہ ایک خاص دور، خاص علاقے اور خاص قوموں تک محدود ہوتی تھیں ،اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان پرنازل کی جانے والی کتابوں اور صحائف کی حفاظت کا خصوصی اہتمام نہیں کیا۔ آخری ، مکمل اور ہمیشہ رہنے والے مذہب کے باعث اسلام کو یہ سعادت حاصل ہوئی کہ اللہ نے اس کی کتاب اور اس کے رسول کی سنت کو قیامت تک کیلئے محفوظ کر دیا۔ دیگر مذاہب کی کتب میں وقت کے ساتھ ساتھ اور ان کے پیروکاروں کی خواہشات نفس کے باعث بے شمار تبدیلیاں ہوتی رہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ کے ذریعے بعض ایسی نشانیاں ان میں بھی باقی رہنے دیں جو حضرت محمد ﷺ کی رسالت کے بارے میں تھیں۔
واضح رہے کہ مسلمان حضرت موسیٰ و ہارون علیہم السلام اور تمام انبیاے بنی اسرائیل اور حضرت عیسٰی اور یحییٰ علیہم السلام کو خدا کا پیغمبر مانتے ہیں، اور ان پر ایمان لانا ویسا ہی ضروری سمجھتے ہیں جیسا حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانا۔ وہ تورات اور زبور و انجیل کو بھی خدا کی کتاب مانتے ہیں اور قرآن کے ساتھ تمام آسمانی کتابوں پر ایمان لانا ان کا بنیادی عقیدہ ہے۔ وہ حضرت مریم علیہا السلام کو اتنا ہی مقدس و محترم مانتے ہیں، جتنا اپنی امہات المومنین کو۔ ان کی طرف سے یہودیوں اور عیسائیوں کے بزرگوں کی توہین کی کوئی مثال نہیں ملتی لیکن یہودیوں اور عیسائیوں کے معاملے میں صورتحال اس کے برعکس ہے۔ وہ حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے اصحاب اور ازواج کو نہ صرف یہ کہ بزرگ نہیں مانتے بلکہ وہ ان کی صداقت پر، ان کی سیرت و کردار پر، اور ان کے اخلاق پر حملے کرنے سے باز نہیں رہتے۔حتی کہ رشدی اور تسلیمہ جیسی شخصیتوں کی حوصلہ افزائی کا کوئی موقع نہیں گنواتے‘ ان کی طرف سے مسلمانوں کے جذبات پر مسلسل دست درازیاں ہوتی رہی ہیں۔ایسے پرفتن ماحول میں ’العربیہ ڈاٹ نیٹ‘کے مطابق ترک وزیر ثقافت و سیاحت ارط گل غونائے کا کہنا ہے کہ اس نادر و نایاب مقدس نسخے کی قیمت 22 ملین ڈالر بتائی گئی ہے۔ اس میں بہت سی بشارتیں شامل ہیں۔ جن میں اہم ترین یہ ہے کہ اس میں حضرت عیسٰی مسیح کی زبانی اپنے بعد حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور مسعود کی پیشن گوئی کی گئی ہے لیکن عیسائی چرچ اور پادریوں نے اسے اسلئے پوشیدہ رکھا کیونکہ اس میں بیان کردہ پیش گوئیاں قرآن کریم میں بیان کردہ حقائق سے کافی حد تک مماثلت رکھتی ہیں۔ رپورٹ کے مطابق قدیم ترین انجیلی نسخے کی عبارات اور اس کی پیش گوئیاں اسلام کے عقیدہ نبوت کے عین مطابق ہیں۔ اس نسخے میں حضرت مسیح کو خدا کی بجائے بشر قرار دیا گیا۔ عقیدہ تثلیث کی نفی کئی ہے اور حضرت عیسیٰ کے بعد حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی خوشخبری سنائی گئی ہے۔ آرامی زبان میں تحریر کردہ اس انجیلی نخسے میں لکھا ہے کہ ایک دفعہ ایک کاھن نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے اپنے بعد آنے والے نبی کے بارے میں دریافت کیا توعیسیٰ علیہ السلام نے جواب میں فرمایا کہ ’اس کا نام محمد ہو گا اور وہ برکت والا نام ہو گا۔‘ ترک وزیر غونائے کا کہنا ہے کہ انجیل کے اس نایاب نسخے کو 2000میں عیسائیوں نے بحر متوسط کے قریب ایک علاقے میں چھپا دیا تھا۔ تاہم ابھی یہ نسخہ ترک حکومت ہی کے قبضے میں ہے۔ بارہ سال پیشتر جب یہ نسخہ دریافت ہوا تو اس کے کچھ ہی عرصے بعد وہ گم ہو گیا تھا۔ اس کی گمشدگی کے بارے میں یہ کہا گیا تھا کہ اسے آثار قدیمہ کے اسمگلروں نے چوری کر لیا ۔ ترکی میں ایک عیسائی مذہبی رہنماءاحسان ازبک نے ترک اخبار ’زمان‘کو بتایا کہ انجیل مقدس کا یہ نایاب نسخہ حضرت مسیح علیہ السلام کے ان بارہ ساتھیوں، جنہیں "قدیس برنابا" کے نام سے جانا جاتا ہے، کے پیروکاروں کے دور میں پانچویں یا چھٹی صدی عیسویٰ میں لکھا گیا کیونکہ قدیس برنابا پہلی صدی عیسوی میں موجود تھے۔ انقرہ میں علم لاھوت کے ماہر پروفیسر عمرفاروق ہرمان کے بقول مخطوطے کی علمی جانچ پرکھ ہمیں اس کی صحیح عمر کے تعین میں مدد دے گی۔ ہمیں یہ معلوم ہو سکے گا کہ آیا کہ قدیس برنابا نے لکھا یا ان کے کسی پیروکار نے رقم کیا تھا۔ خیال رہے کہ یہ نادر نسخہ جلد پر سنہری حروف میں لکھا گیا ہے جس کی قیمت 2.4 ملین ڈالر بتائی جاتی ہے۔
دراصل اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت محمد ﷺتک ہر علاقے اور ہر زمانے میں ، انسانوں کی راہ نمائی کے لیے اپنے انبیاءبھیجے۔ان عظیم المرتبت ہستیوں نے انسانوں تک خدا کا پیغام پہنچایا اور انھیں شیطانی نافرمانیوں سے بچاکر اللہ کا مطیع وفرمانبردا ربنانے کی کوشش کی۔جب تک انسانیت عالم بلوغ تک نہیں پہنچی اللہ تعالیٰ ، اپنے انبیاءکے ذریعے سے ، ایک بچے کی مانند انگلی پکڑ پکڑ کر اس کی راہ نمائی کرتے رہے۔جب دنیا ذہنی و مادی ترقی کے ایک خاص مقام پر پہنچ گئی تو اللہ نے حضرت محمد ﷺ کو خاتم النبیین بنا کر بھیجا اور آسمانی ہدایت کی تکمیل کر کے انبیاءو رسل کا سلسلہ ہمیشہ کیلئے ختم کر دیا۔اللہ نے ہر نبی کو نبی آخر الزمان کی حقیقت سے آگاہ کیا اور تمام آسمانی کتب میں واضح طور پر آپ ﷺ کی آمد کی اطلاع دی گئی۔ان انبیاءٓنے اپنے مخاطبین کو حضورﷺ کا زمانہ پانے کی صورت میں آپ پر ایمان لانے کی ہدایت دی۔جبکہ دیگرمذاہب کی مقدس کتب میں ملنے والی ان نشانیوں اورپیش گوئیوں کا ذکر کیا ہے جن کا تعلق نبی آخرالزمان سے جوڑ ا جا سکتا ہے اور جواللہ تعالیٰ نے ان مذاہب کے پیروکاروں کی تحریف سے محفوظ رکھی ہیں۔دور حاضر کے چار اہم مذاہب، یہودیت، نصرانیت، ہندوازم، سکھ مذہب اور بدھ مت کی کتب میں مذکوران مقامات کا جائزہ لیا ہے ، جن کا تعلق حضورﷺ سے جوڑ ا جا سکتا ہے۔اللہ تعالیٰ کے عظیم الشان پیغمبر او ر اطاعت و فرمانبرداری میں اپنی مثال آپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جب اللہ تعالیٰ نے مختلف باتوں میں آزمایا اور انھوں نے تسلیم ورضا اور اطاعت و فرمانبرداری کے ہر امتحان میں کامیابی حاصل کی تو اللہ نے ان کو اپنا خلیل قرار دیا اور خلیل کے ہر عمل کی تقلید قیامت تک کے انسانوں پر فرض کر دی۔چنانچہ خلیل اللہ اور ذبیح اللہ نے کعبہ کی تعمیر کرتے وقت اللہ تعالیٰ سے دعا کی جس کی قبولیت کا عندیہ بھی اللہ تعالیٰ نے دے دیا۔حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پیروکاروں کا نام یہودہے۔ان کی مذہبی کتاب، جسے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے منسوب کیا جاتا ہے وہ تورات یا عہد نامہ قدیم ہے۔موجودہ عبرانی تورات انتالیس کتابوں پر مشتمل ہے۔ان میں سے پانچ کتب حضرت موسیٰ علیہ السلام کی شریعت پر مشتمل ہیں۔ یہ پیدائش ، خروج ، احبار، گنتی اور استثنا ءہیں۔باقی چونتیس کتب بھی مختلف انبیاءاور شخصیات سے منسوب ہیں۔ تورات کا یونانی نسخہ مزید سات کتب کے اضافے کے ساتھ چھیالیس کتابوں پر مشتمل ہے۔ تورات میں متعدد مقامات پر نہایت واضح الفاظ میں ایک آنے والے نبی کا ذکر موجود ہے ۔
 غور طلب ہے کہ سابقہ تمام مذاہب کی کتابوں میں تاریخ میں وقوع پزیر ہونے والے معمولی واقعات کی پیش گوئیاں بھی موجود ہیں اور وہ نہایت واضح الفاظ میں نام و مقامات کی تعیین کے ساتھ موجود ہیں۔حضرت محمد ﷺکی بعثت کوئی معمولی واقعہ نہیں ہے۔ آپ کی آمد نے تاریخ کا نقشہ ہی بدل دیا تھا۔ کروڑ وں لوگوں نے آپ کے پیغام پر لبیک کہا اور دنیا کے بہت بڑ ے حصے پر آپ ﷺ اور آپ کے پیروکاروں کی حکومت قائم ہوئی۔یہ کیسے ممکن ہے کہ اس عظیم الشان واقعے کا ذکر سابقہ انبیا نے نہ کیا ہو۔صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ان کتب میں بیان کردہ ایسی پیش گوئیوں کو عمدا غائب کیا گیا ہے۔کتاب پیدائش میں حضرت اسماعیل علیہ السلام کے بارے میں ہے کہ ’اور اسماعیل کے حق میں بھی میں نے تیری دعا سنی۔میں یقینا اسے برکت دوں گا۔میں اسے برومند کروں گا اور اسے بہت بڑ ھاوں گا۔اس سے بار ہ سردار پیدا ہوں گے اور میں اسے بڑ ی قوم بناوں گا۔‘عربی زبان کے بعض پرانے تراجم میں ان الفاظ کا اضافہ بھی موجود ہے :’اور اسے برومند کروں گا اور ”ماد ماد ‘کے ذریعے اسے بڑ ا بناوں گا۔‘قاضی عیاض نے ’مادماد‘ کوعبرانی زبان میں نبی کریم کے ناموں میں سے ایک نام کے طورپر ذکر کیا ہے۔ہندو مذہب اگرچہ، مختلف النوع بتوں ، دیویوں اور دیوتاو?ں پر مشتمل بت پرستی کے عقائد باطلہ سے بھر پور ہے ، لیکن اس کی مذہبی کتب ویدوں میں کئی مقامات پر ایسی حکیمانہ باتیں اور آخری زمانے میں آنے والی ایک ایسی شخصیت کا ذکر موجود ہے ، جس کی علامتیں حضرت محمد کے علاوہ کسی پر پوری نہیں اترتیں مولانا شمس نوید عثمانی کی معروف کتاب ’اگراب بھی نہ جاگے تو‘ ترجمہ عبداللہ طارق میں کافی تفصیل پائی جاتی جسے جسیم بک ڈپو، دہلی نے 1989کے دوران شائع کیا تھا۔نیزبدھ مت کی تعلیمات میں حضرت محمد ﷺکا ذکر:جس طرح باقی مذاہب میں ایک آنے والی عظیم الشان ہستی کے بارے میں پیش گوئیاں موجود ہیں جو آخری زمانے میں آئے گی ، اسی طرح بدھ مت کی تعلیمات میں بھی ایسی شخصیت کے بارے میں بتایا گیا ہے جس کی علامات حضرت محمد ﷺکے علاوہ کسی اور پر پوری نہیں اترتیں۔بدھ مت کی زبان میں رسول کو بدھ کہا جاتا ہے۔لفظ بدھ ، بدھی سے ہے جس کا معنیٰ عقل و دانش ہے۔گوتم بدھ نے اپنے شاگرد نندا کو تلقین کرتے ہوئے فرمایا تھا:’نندا ! اس دنیا میں ، میں نہ تو پہلا بدھ ہوں اور نہ آخری۔اس دنیا میں حق وصداقت اور فلاح و بہبود کی تعلیم دینے کیلئے ، اپنے وقت پر ایک اور بدھ آئے گا۔وہ پاک باطن ہو گا۔اس کادل مصفی ہو گا۔علم و دانش سے بہرہ ور اور سرور عالم ہو گا۔جس طرح میں نے دنیا کو حق کی تعلیم دی ہے ، اسی طرح وہ بھی دنیا کو حق کی تعلیم دے گا۔ اور وہ دنیا کو ایسی شاہراہ حیات دکھائے گا جو صاف اور سیدھی ہو گی۔نندا ، اس کا نام’ میترئے ‘ ہو گا۔‘اگر کوئی چاہے تو نر اشنسا اور آخری رسول، پنڈت وید پرکاش اپادھیائے ‘ترجمہ وصی اقبال کا ص53 دیکھ سکتا ہے جسے مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز، نئی دہلی نے دسمبر1999 میں شائع کیا۔قدیم ترین ایرانی مذہب مجوسیت، جس کے بانی زرتشت(یا زردشت) ہیں اور ان کی مقدس کتا ب کا نام ’اوستا‘ ہے۔ اس کتاب میں بھی ایک آنے والی ہستی کی پیش گوئیاں موجود ہیں۔اوستا میں لکھا ہے کہ ایک مرد سرزمین نازیان سے جو ہاشم کی ذریت سے ہو گا، خروج کرے گا۔اپنے جد کے دین اور فراوان لشکر کے ہمراہ ایران کی طرف آئے گا، زمین کو آباد کرے گا اور اس کو عدل سے بھر دے گا۔‘حوالے کیلئے منجی عالم بشریت دین یہود اور زردشت کی روشنی میں ، میرزا ظہیرکا رقم کردہ مقالہ دیکھا جاسکتا ہے۔
sarailliyasi@gmail.com+919811254615
010312 hazrat iesa alaihisslaam ki zubani hazrat muhammad ki basharat by sarailliyasi

kese ruke gi taqreebaat me khane ki badhti hui barbadi? کیسے رکے گی تقریبات میں کھانے کی بڑھتی ہوئی بربادی؟

سارہ الیاسی
 by sara iliiyasi

دین سے دوری کے سبب تقریبات میں کھانے کی بربادی بڑھتی جا رہی ہے۔ دہلی اےن سی آر اس معاملے میں بھی کافی آگے ہیں۔ یہاں شادی، پارٹی، سیمینار جیسی معاشرتی تقریبات میں 25 فیصد کھانا برباد ہو جاتا ہے۔ کھانے کی بربادی روکنے کیلئے حکومت بھی سنجیدہ ہے۔ رواں سال سے اسکولوں میں بچوں کو پڑھایا جائے گا کہ کھانا ضائع نہیں کرنا چاہئے۔ایک آر ٹی آئی کے جواب میںوزارت امور صارفین نے بتایا کہ کھانے کی بربادی کیسے روکی جائے، اس کیلئے بنائی گئی کمیٹی تمام لوگوں سے رائے لے کر رہنما: خطوط تیار کر رہی ہے۔ آرٹی آئی کارکن سبھاش چندر اگروال نے آر ٹی آئی کے تحت مذکورہ موضوع پر معلومات طلب کی تھیں۔ جواب میں بتایاگیا ہے کہ رواں برس سے اسکولوں میں بھی بچوں کو اس سلسلے میں تعلیم دی جائے گی۔ اےن سی ای آرٹی اور سی بی اےس ای سے اس سلسلے میں بات کی گئی تھی۔ تیسری اور پانچویں جماعت تک علم ماحولیات ای وی ایس کے نصاب میں اور چھٹی سے دسویں جماعت تک کے سائنس مضامین کے کامن تھیم میں ’فوڈ‘ کو بھی شامل کر دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ11 ویں اور 12 ویں جماعت میں ہیلتھ اینڈفزیکل ایجوکیشن میں کھانے کی بربادی کے بارے میں بھی پڑھایا جائے گا۔ اس کے ساتھ ہی تمام ریاستوں کی حکومتوں نے بھی اسے سلےبس میں شامل کرنے کی حامی بھری ہے۔ حالانکہ میزورم، دمن دیو اور ناگر حویلی انتظامیہ نے کہا ہے کہ بچوں کو اس سلسلے میں بیدار کیا جائے گا لیکن اس مرتبہ سلےبس میں اسے شامل کرنا مشکل ہے لہذا آئندہ سال سے اسے شامل کیا جائے گا۔
اس سلسلے میںحال ہی میںانڈین انسٹی ٹیوٹ آف پبلک ایڈمنسٹریشن نے کھانے کی بربادی پر دہلی، غازی آباد، فرید آباد اور گڑگاوں میں سروے کیا تھاجس کی رپورٹ میں کہا گیاہے کہ کھانے کی بربادی ایک شہری عادت ہے جوشہروں میں جاری دیگر طرز زندگی کی طرح بتدریج دیہی علاقوں میں بھی پھیلتی جا رہی ہے۔ شادی میں نمائش اور تصنع کو فرغ ملاہے، اس وجہ سے کھانے کی بربادی بھی اضافہ ہوا ہے۔ سروے میں 93.4 فیصد لوگوں نے کہا کہ سوشل گےدرنگ میں کھانا برباد ہوتا ہے۔ 72.6 فیصد لوگوں نے کہا کہ سب سے زیادہ کھانااور وقت برباد ہوتا ہے ‘ خصوصا اس صورت میں جب ڈشیںزیادہ ہوتی ہیں۔لوگ انواع و اقسام کے کھانوں کی بھڑ میں سمجھ نہیں پاتے کہ کیا کھائیں اور کیا چھوڑیں۔ سروے میں67.9 فیصد شرکاءنے اعتراف کیا کہ لوگ زیادہ کھانا اپنی پلیٹوں میںلے تو لیتے ہیں لیکن اتنا کھا نہیں پاتے جب کہ پلیٹ کا بچا ہوا کھانے کا رواج نہیں ہے اور اسے توہین سمجھا جاتا ہے جس وجہ سے غذا کی بربادی ہوتی ہے۔ 67.3 فیصد نے کہا کہ لوگ اس کے تئیں لاپروا ہوجاتے ہیں ‘ اس لئے انہیں فرق نہیں پڑتا کہ کھانا برباد ہو رہا ہے۔ 83.2 فیصد لوگوں کا خیال ہے کہ تصنع اور فیشن کے چکر میں زیادہ کھانا برباد ہو رہا ہے۔ رپورٹ کے مطابق جس طرح کھانا پیش کیا جاتا ہے وہ بھی بربادی کی وجہ ہے جبکہ 75 فیصد لوگوں نے کہا کہ بفے سسٹم کی وجہ سے کھانازیادہ برباد ہوتا ہے۔ 44.1 فیصد لوگوں نے کہا کہ جہاں کنبہ کے اراکین کھانا بناتے ہیں اور پیش کرتے ہیںتو وہاں کھانا برباد نہیں ہوتا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ درمیانی زمرے کی تقریبات میں کھانے کے دوران 10سے12 ڈشیں ہوتی ہیں جبکہ اعلی طبقہ کے مینو میں 100سے150تک اشیاءکھانے کیلئے پیش کی جاتی ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ قانون بنا کر اسے نہیں روکا جا سکتا کیونکہ اس سے بدعنوانی بڑھے گی بلکہ لوگوں کو بیدار کرکے اور مذہب کی بنیاد پر کنٹرول کر کے ہی کھانے کی بربادی روکی جا سکتی ہے۔ کھانے کی بربادی کیسے روکی جائے اس کیلئے وزارت نے مئی 2011 میں ایک کمیٹی بنائی تھی۔ پہلے یہ دو ماہ کیلئے ہی بنی تھی لیکن اب اس کی مدت بڑھا دی گئی ہے۔ فی الحال اس کی مدت میں رواں مہینے کے آخر تک توسیع کی گئی ہے۔واضح رہے کہ مسلم شریف میں سیدنا جابر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ جب تم میںسے کسی کا لقمہ گر جائے تو چاہئے کہ وہ اسے اٹھاکر گندگی دور کرکے کھالے اور شیطان کیلئے اسے نہ چھوڑے اور اپنا ہاتھ رومال سے نہیں پونچھے یہاں تک کہ اپنی انگلیاں چاٹ لے کیونکہ وہ نہیں جانتا کہ برکت کھانے کے کس حصہ میں ہے۔لہٰذا سمجھنا چاہئے کہ اسباب خوردونوش اور کھانے پینے کے سامان قدرت کے بیش بہا عطایا ہیں، ان کی قیمت واہمیت ان سے پوچھ لیجیے‘ جو محروم ہیں۔ اگر کسی کے پاس نعمتیں میسر ہیں تو وہ اس کی تنگی سے ناواقف ہے جس سے وہ بے خبر ہے۔ سب کی بات بھی چھوڑ دیجیے ، زندگی میں کبھی کبھار ایک دانہ اور ایک قطرہ آب بھی اپنی اہمیت جتاتا ہے۔ سامان خورد ونوش کی اہمیت تو ایک عام انسان کو بھی معلوم ہے چہ جائیکہ بات خاص مسلمان کی ہو۔ جو اللہ و رسول کا فرمانبردار ہوتا ہے اور جس کی ہر ادا اسلامی سانچے میں ڈھلی ہوتی ہے۔ وہ اپنے مالک ورازق کی دی ہوئی نعمت کا قدرداں ہوتا ہے اور شکرگزاربھی۔ آخر کیوںنہیں؟ جبکہ’ لئن شکرتم لازیدنکم‘ اگر تم شکرگذاری کروگے تو ہم مزید کریںگے۔پھر دانہ تو اسی کو ملتا ہے جو اس کی قدر کرتا ہے۔گھر میں ڈھیرسارے غلے اور اناج ہوں یاپھر دسترخوان پر لگے نوع بہ نوع ماکولات ومشروبات یاپھر کوئی محدود ومقررغذا۔ قدر تو ہونی ہی چاہئے۔ زیادہ ہونے کا یہ مطلب قطعاً نہیں کہ اس کو برباد کیا جائے اور شیطان کو موقع دیاجائے۔ جو انسان کا ازلی دشمن اسی کی تلاش میں رہتا ہے جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سکھایا ہے کہ کھانا کھاتے وقت اگر کوئی لقمہ کسی کے ہاتھ سے گر جائے توگندہ اورخراب سمجھ کر اسے چھوڑ نہیں دے بلکہ اٹھاکر صاف کرے اور پھر کھاجائے مگر شیطان کیلئے نہیں چھوڑے جس کیلئے انسان ہرآن خود پریشان ہے۔ آخر شیطان لعین کیلئے اس کو کیوں چھوڑ دے وہ تو ہرجگہ برباد کرنے اور کرانے کیلئے ہی پہنچتا ہے۔ پھر موقع پاتے ہی یہ کرگزرتا ہے۔مسلم شریف میں حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ سے ہی مروی ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ شیطان تم میں سے ہر کسی کے ہرکام کے وقت یہاں تک کہ کھانے کے وقت بھی پہنچ جاتا ہے ۔ اس لئے وہ کھانا کھاتے وقت کچھ نہ کچھ تو برباد کرے گا ہی۔ وہ چاہے گا ہی کہ دانہ اور کھانا برباد ہو ، جو گرے وہ نہ اٹھے اور انسان اسے چھوڑ دے۔ مگر اسلامی ادب یہ ہے کہ اٹھاکر اسے صاف کرنے کے بعد کھا لینا ہے۔ اس سے شیطان کو منہ کی کھانی پڑتی ہے ، دوسری جانب اسے کھانے والے کے مزاج میں انکساراور تواضع بھی آتی ہے ، ہوسکتا ہے کہ برکت اسی لقمے میں ہو ، جو نیچے گرگیا۔ اسی لئے آپ نے تعلیم دی کہ کھانا کھانے کے بعد کوئی شخص فوری طور پر اپنا ہاتھ رومال وغیرہ سے نہیں پونچھے بلکہ اپنی انگلیاں اچھی طرح چاٹ لے کیونکہ وہ نہیں جانتا کہ برکت کھانے کے کس حصے میں ہے۔ بخاری ومسلم میںحضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا ہے کہ جب کوئی کھانا کھائے تو اپنی انگلیاں نہیں پونچھے ، یہاں تک کہ ان کو چاٹ لے یا چٹادے۔اسلام کا بتلایا ہوا یہ ادب بھی کتنا لطیف ہے۔ اس کی پیروی سنت پر عمل ہے اور سچ پوچھئے تو کھانا کھانے کے بعد اس کا اپنا ایک الگ لطف اور مزہ ہوتا ہے۔
sarailliyasi@gmail.com+919811254615
+919654778803
120312 kese ruke gi taqreebaat me khane ki badhti hui barbadi by sara iliiyasi

Monday, January 23, 2012

rango ki ahmiyat aur zaroorat ko kiyo nahi samajhe ham?رنگوں کی اہمیت اور ضرورت کو کیوں نہیں سمجھتے ہم؟



سارہ الیاسی
by sara illiyasi

قدرت نے کائنات کی ذرے ذرے کو رنگوں سے سجایا ہے۔ رنگ میں ذائقہ کو پنہاں رکھا۔ ظاہرکا باطن اپنی حکمت سے عیا ں رکھا۔ اخلاق کو الفاظ کے سنگ سے نوازا۔ سیرت کو صورت کے ڈھنگ میں رکھا۔ حکمت سے سب کھلا رکھا۔ مرد کا قول،عورت کا انتخاب ہی حسن سیرت میںچھپاہی نہیںرکھاہے بلکہ کائنات میں رنگ رنگ کے لوگوں سے رنگینی فرمائی۔کائنات قدرت میں رنگوں کا حسین امتزاج،ہر شے کو بامعنی بناتا ہے۔علم کا زاویہ حکمت کھول کردانائی بخشتا ہے۔ اس نے رنگوںمیں پہچان عطاءکی۔دنیاکی ہرشے شمار رنگوں سے مزین ہے۔ ہر رنگ میں مزید کئی رنگ ، زندگی کے بکھیڑوںمیںرنگ ، حسن ترتیب سے بکھر کر بکھرے خیالات کو مسلسل اِک ترتیب عطا ءکر رہے ہیں۔ان رنگوں کو دیکھنا جمال ہے تو ان کا سمجھنا بھی کمال ہے۔رنگوں کے انتخاب کے معاملے میں دنیا بھر میں لڑکیاں زیادہ تر گلابی اور لڑکے نیلے رنگ کو ترجیح دیتے ہیں اوریہ رنگ ان دونوں جنسوں کی پہحان سمجھے جاتے ہیںلیکن دوسری جنگ عظیم تک پسند اور شناخت کا میعار بالکل الٹ تھا اور گلابی رنگ لڑکوں اور نیلا لڑکیوں سے منسوب کیا جاتا تھا۔ رنگ رنگ کی مخلوقات کو زندگی بخشی۔ فطرت انسانی یک رنگی سے بیزار رہی۔قوم اسرائیل من و سلوی سے آزار ہوئی۔ رب نے کائنات میں حسین چہرے تخلیق فرمائے۔ خیالات کورنگین مناظرسے فرح بخش نظارنصیب بنائے۔ بیش بہاءذائقوں کے پھل، سبزیاںاورمشروبات ،موسم کی مناسبت سے ملائے۔ پہاڑ، میدان، صحرا ،جزائراور سمندر ان کی حد میں پھیلائے۔ حسن کوحسن کے رنگ ہی میں گرمائے۔ہر موسم کو رنگ دئے۔ موسم کی مناسبت سے ذائقے بخشے۔ جو مزاج کی فرحت بنے۔انسان کی صحت ٹھہرے۔خالق نے پرندوں میں پہچان پرواز، آوازاور رنگ میں فرمائی۔آواز کے سر کی طرح لباس کی رنگینی بھی بخشی۔ماتھے پہ رنگت کے فرق سے جنس کی پہچان رکھی۔انداز پرواز سے حکمت کی گرہ کھلی۔مزاج ان خالص رنگوں کی مانند ہے جو اپنی تاثیر اِک مخصوص حلقہ تک رکھتے ہیں۔ ہر فرد کا مزاج جدا ہے، قوم کا مزاج، خاندان کا مزاج، قبیلہ کا مزاج ، نسل کا مزاج رفتہ رفتہ چند قدرے مختلف ہوتے ہوئے بھی مشترک رکھتے ہیں۔ مزاج پہ ماحول، موسم، حالات، لب ولہجہ اثر انداز ہوتے ہوئے ایک رنگ بخشتے ہیں۔
گلابی رنگ شاید تمام لڑکیوں کا پسندیدہ نہ ہو اوردوسرے رنگ بھی ان کیلئے کشش رکھتے ہوں مگر دنیا بھر عموماً گلابی رنگ کوخواتین بالخصوص لڑکیوں سے منسوب کیا جاتا ہے اوران کے ملبوسات اور عام استعمال کی اکثر اشیاءمیں گلابی رنگ کی جھلک نمایاں ہوتی ہے۔کپڑوں کی دکانوں پر آپ کو لڑکیوں کے ملبوسات میں گلابی رنگ واضح طورپر دکھائی دے گا۔ نوزائیدہ اور شیر خوار بچیوں کے زیادہ تر ملبوسات تو ہوتے ہی گلابی رنگ کے ہیں۔ اسی طرح لڑکیوں کے استعمال کی دوسری چیزیں، مثلاً ان کے اسکول بیگ، کاپیوں کے کور، پنسلیں ، قلم اور اسٹیشنری کی اکثر چیزوں میں گلابی رنگ زیاد ہ نظر آئے گا۔اسی پر بس نہیں بلکہ مغربی ممالک میںتو لڑکیوں کے کمروں میں گلابی پینٹ کیا جاتا ہے اور اس کمرے کا فرنیچر اور روزمرہ ضرورت کی دوسری اشیاءبھی گلابی یا اس کے ملتے جلتے رنگوں کی ہوتی ہیں۔
ایسے والدین بھی ایک بڑی تعداد میں موجود ہیں جو اپنی بچیوں کو پیار سے پنکی یا روزی یا گلابو کہہ کر پکارتے ہیں۔رنگ کی شناخت صرف لڑکیوں اور خواتین تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ اس دائرے میں لڑکے اور مرد بھی آتے ہیں اور نیلے رنگ کو ان سے منسوب کیا جاتا ہے۔کپڑے کی دکانوں میں مردوں کے زیادہ تر لباس نیلے یا اس سے ملتے جلتے رنگوں میں ہوتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ اچھے گرم مردانہ سوٹ زیادہ تر گہرے سے ہلکے اور سیاہی مائل نیلے رنگوں میں ہی میسر ہوتے ہیں۔ برانڈ کمپنیاں مردوں کی شیونگ کریمیں ،جل ، شیمپو اور روزہ مرہ استعمال کی دوسری اشیاءزیادہ تر نیلی پیکنگ میں ہی فروخت کیلئے پیش کرتی ہیں۔
اکثر گھروں میں لڑکوں کے کمروں میں نیلا رنگ کیا جاتا ہے۔ ان کی اسٹیشنری کی زیادہ تر اشیاءبھی اسی رنگ کی ہوتی ہیں۔
کیا جنس کے اعتبار سے رنگوں کی پسند انسان کے جین میں شامل ہے؟ اس کی وجہ نفسیاتی ہے یا اس کا تعلق ثقافتی روایات اور تاریخ سے ہے؟دلچسپ بات یہ ہے کہ ان سب باتوں کاجواب نفی میں ہے۔ زیادہ دور پرے کی بات نہیں ہے رنگوں کی یہ تخصیص بالکل الٹ تھی۔ آج سے صرف چھ دہائی پہلے تک یہ سمجھاجاتاتھا کہ گلابی اور سرخ رنگ لڑکوں اور مردوں کیلئے ہوتے ہیں جبکہ لڑکیوں کو نیلا رنگ پہننا چاہئے۔اس سوچ میں تبدیلی کا آغاز غالباً پچھلی صدی کے ابتدائی برسوں میں ہواجس کی بڑے پیمانے پر مخالفت کی گئی۔ خاص طور پر لڑکیوں کو گلابی رنگ کے کپڑے پہنانے کے خلاف اخبارات نے مہم چلائی۔ ایک امریکی اخبار’ سنڈے سینٹی نل‘مارچ 1914 کی اشاعت میں لکھا کہ اگر آپ اپنے چھوٹے بچوں کو رنگوں کی شناخت دینا چاہتے ہیں تو لڑکوں کیلئے گلابی اور لڑکیوں کیلئے نیلے رنگ کاانتخاب کریں۔اسی طرح ایک اور جریدے’ لیڈیز ہوم جرنل‘ نے جون 1918کے دوران اپنے ایک مضمون میں لکھا کہ اگرچہ رنگوں کے چناو کے مسئلے پر کافی تنوع پایا جاتا ہے مگر ایک تسلیم شدہ اصول یہ ہے کہ گلابی رنگ لڑکوں کیلئے ہے جبکہ نیلا لڑکیوں کیلئے ہے۔اس دور کے کئی ناولوں اور کہانیوں میں بھی جہاں کرداروں کے لباس کا ذکر کیا گیا ہے، وہاں زیادہ تر لڑکیاں نیلے اور لڑکے گلابی رنگوں میں ملبوس دکھائی دیتے ہیں۔گلابی اور نیلے رنگ کی یہ بحث قریب چار دہائی تک جاری رہی لیکن 1950 کے دوان رنگوں کی مروجہ ترتیب الٹ گئی جس کے بعد یہ تسلیم کرلیا گیا کہ گلابی لڑکیوں اور نیلا لڑکوں کا رنگ ہے۔اس تبدیلی میں دو چیزوں نے اہم کردار ادا کیا۔ پہلا ہٹلر کی نازی حکومت اور دوسرا ریڈی میڈ گارمنٹس بنانے والی برانڈ کمپنیوں نے لیکن اس سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ کئی سوسال تک نیلے کو لڑکیوں اور گلابی کو لڑکوں کا رنگ کیوں سمجھا جاتا رہا۔ مغربی معاشرے میں اس کی کڑیاں قبل از مسیح کے دور سے ملتی ہیں۔ روایات کے مطابق حضرت مریم نیلالباس پہنتی تھیں۔ ان سے عقیدت کے اظہار کیلئے عیسائی معاشرے میں لڑکیوں کو نیلالباس پہنایا جاتاتھا۔ ماضی میں یہ تصور بھی عام تھا کہ چونکہ آسمان نیلا ہوتا ہے اس لئے یہ رنگ تقدس اور پاکیزگی کی علامت ہے۔چنانچہ لوگ اپنی بچیوں کو نیلے لباس میں دیکھنا پسند کرتے تھے۔جبکہ لڑکیوں کے اکثر اسکولوں کا یونیفارم آج بھی نیلاہوتا ہے نیزدنیا کے اکثر ملکوں میں گرل کائیڈ ز نیلا لباس پہنتی ہیں جس کی بنا پر ہمارے ہاں انہیں نیلی چڑیا بھی کہاجاتا ہے۔تاریخ گواہ ہے کہ ماضی میں گلابی رنگ کی کوئی اپنی علیحدہ حیثیت نہیں تھی اور اسے سرخ رنگ کے طورپر دیکھا جاتاتھا۔ چونکہ جنگوں میں مرد حصہ لیتے تھے اور اپنا خون بہاتے تھے جس کا اظہار وہ سرخ لباس پہن کرکرتے تھے۔ ماضی کی پینٹنگوںمیں اعلیٰ سرکاری عہدے داروں ، فوجیوں اور معززین کے ملبوسات میں سرخ رنگ کی جھلک نمایاں طورپر دکھائی دیتی ہے لیکن چین کا ماضی ایک مختلف تصویر پیش کرتا ہے۔ قدیم چین میں لڑکوں کو نیلے اور لڑکیوں کو سرخ کپڑے پہنائے جاتے تھے جس کی وجہ خالصتاً معاشی تھی۔ ماضی میں کپڑے کو نیلا رنگ دینا خاصا مہنگا تھا جبکہ اس کے مقابلے میں سرخ رنگ پر سب سے کم خرچ آتاتھا۔اکثر مشرقی معاشروں کی طرح چین میں بھی لڑکوں کو لڑکیوں پر فوقیت دی جاتی تھی اسلئے لڑکوں کو نیلے اور لڑکی کو سرخ کپڑے پہنائے جاتے تھے۔اس قدیم روایت کو ماوزئے تنگ نے توڑ کر پوری قوم کو نیلی یونیفارم پہنا دی۔اس تبدیلی میں جرمن نازیوں نے غیر دانستہ طورپر اہم کردار ادا کیا۔ نازیوں نے اپنی جیلوں میں قیدیوں کے لیے مختلف رنگوں کے لباس مقرر کررکھے تھے تاکہ دور سے ہی پہچان لیا جائے کہ وہ کس جرم کی سزا کاٹ رہے ہیں۔ مثلاً وہ یہودیوں کو نیلا اور ہم جنس پرستوں کو گلابی یونیفارم پہناتے تھے۔ چنانچہ رفتہ رفتہ گلابی رنگ نسوانیت کی علامت بن گیا اور یورپ اورمغربی ممالک کے ہم جنس پرستوں نے اس رنگ کو اپنی شناخت کے طورپر تسلیم کرلیا۔اب ان کی تقریبات میں یہ رنگ نمایاں دکھائی دیتا ہے اور ان کی معاشی سرگرمیوں کو پنک برنسpink business یعنی گلابی کاروبار کہاجاتا ہے۔غالباً 1950کے قریب ریڈی میڈ ملبوسات کی کمپنیوں نے لڑکیوں کے لباس ڈیزائن کرتے ہوئے گلابی رنگ کو ترجیح دینی شروع کردی، پھر گڑیاں ، کھلونے اور بچیوں کے استعمال کی چیزیں تیار کرنے والی کمپنیاں بھی اس جانب راغب ہونے لگیں اوراس کے بعد کے برسوں میں گلابی رنگ نے تقربیاً دو ہزار سال سے مروج نیلے رنگ کو نکال کر دنیا بھر میں قبولیت اور مقبولیت کی سند
 حاصل کرلی۔
لیکن ذرا سوچئے کہ آخر خوشی کے مواقع پر سرخ و شوخ رنگ پہنانے کی رسم کیوں ہے؟ غمی کے سانحہ پرسیاہ و ماتمی رنگ پہننے کی روایت کیوںہے؟سادھو،فقرا ور درویش کو سبز اور گیروا رنگ کیوں پسندہیں؟سن رسیدہ بزرگوںکو سفید رنگ کیوںآنند ہے؟بچے سرخ رنگ کی طرف کیوں لپکتے ہیں؟انسان نے وسیع پیمانہ پر رنگ استعمال کئے ہیں۔اسکے استعمال کی تمام اشیاءمیں پسندیدہ رنگ شامل ہوتے ہیں۔رنگ انسانی طبع پر اثر ڈالتے ہیں۔ رنگ انسانی تہذیب و تمدن کے ساتھ بدلتے ہیں۔آواز کا لہجہ ایسا رنگ ہے جو شخصیت کے تمدن کا آئینہ دار بنتاہے۔ انسان کے رنگوں کا انتخاب ہی اس کے اندرونی خیالات اور ارادوں کی پاسداری کا مظہرٹھہرتا ہے۔انسان کے پسندیدہ،ناپسندیدہ رنگ ہی اسکی ذہنی اور قلبی کیفیات کی عکاسی کرتے ہیں۔ رنگوں کے علوم انسانی افسردگی،فرخندگی ، تفکرات کا گہراپن ،خیالات کا گھنا پن، کمزور اور طاقتور قوت فیصلہ جیسی شخصیت و خیالات کی ترجمانی رکھتے ہیں۔رنگ زندگی کے بیش بہاءپہلووں کے عکاس ہیں۔ زندگی پررنگوں کے تاثرات روشنی کے کردارسے واقفیت کا احساس ہیں۔اسلام میں رنگوں کے استعمال کی سائنسی بنیاد ریاضی اور جیومیٹری کے علوم سے رکھی گئی۔ جن میںجذبات،روح اور مادہ ہر تخلیق کے پس منظر میںسمجھی گئی۔ان میںہوشِ عقل کا ٹھہراو،جوشِ عمل کا بہاو اوراعتدال کابناو۔ان کا بالترتیب سیاہ،سفید اور صندل کے رنگ سے مزین ہے۔سیاہ اور سفید ٹائلوں کے فرش صوفیانہ عمل کا پیغام دیتی ہیں۔سفیدرنگ خالص روشنی ہے ،جو پاکیزگی اوراللہ سے مضبوط تعلق رکھتی تھی، سیاہ حکمت کی پوشیدگی ہے،نقش و نگار میں صندل رنگ زمین کی تزئین کاری تھی۔اسلامی تعمیرات میں یہ رنگوں کا پہلا بنیادی گروہ تھا۔ ثانوی درجہ سرخ،زرد،سبز اور نیلا رنگ کو حاصل ہوا۔ان چاررنگوں سے قدرتی خصوصیات گرم،خشک ،سرد اور گیلا کوتعمیربنایا۔مادی عناصر آگ،پانی ،ہوااور زمین سے بالترتیب تعبیر کیا۔سبزفطرتی رنگ اور امید ٹھہرا۔ نیلا رنگ اسلامی فن تعمیر یعنی مساجد، مقابر،مدارس میں سب سے زیادہ استعمال ہوا۔قدیم لوگوں نے اِسکوآسیب و بلا سے تحفظ کی علامت سمجھا۔یہ آسمان اور سمندر کی عمیق و دقیق وسعت کے ساتھ ساتھ فراق کی ترجمانی ٹھہرا۔نقش و نگار اور بیل بوٹوں میں سبز رنگ کو فوقیت ملی۔ پیلا اور نیلامیں تناسبِ مقدار یکساں رہی۔چونکہ سبزاِن کے یکساں باہمی ملاپ سے وجود میں تھا۔ لہذااِنکا انفراد ی استعمال بھی وزن کو مساوی رکھتا۔سرخ کو نسبتاً کم فوقیت ملی۔ زرد مستقبل،سرخ حال، نیلا ماضی اور سبز فطرتی رنگت ٹھہری۔
فن تعمیر میں رنگوں کا امتزاج اقوام کی معاشرتی نشوونما کا ترجمان بنتا ہے،دیگر اقوام کے اثرات کاادواری غلبہ بھی ظاہر ہوتا ہے۔آسمانی نیلا رنگ اور نیلے رنگ کی چینہ کاری ایرانی اثرات کا غماز ہے تو صندل،زرد اورگہرا بھورا رنگ ہندوستانی مندروں اور گوردواروں کی پہچان ٹھہرے۔ہلکا سبز رنگ کشمیر کی ثقافت کا حصہ بنا۔ وسط ایشیا میں نیلا اور سفید رنگ کا امتزاج شاہی رنگ ہوا۔سفید اور سرخ کے اشتراک کو جنوب مشرقی ایشیائی ممالک نے اپنی پہچان بنا لیا، شمالی ایشیائی اقوام کی تعمیرات، ثقافت میںسرخ رنگ خوشی کا آئینہ دار ٹھہرا تو دنیا کے کسی اور خطہ میں قربانی کا علمبردار بنا۔یہ قومی رنگ نہ صرف قوموں کے مزاج اور ماضی کے عکاس بنتے ہیں بلکہ تاریخی و جغرافیائی تحقیق کیلئے معاون اوراہم ثبوت ثابت ہوتے ہیں۔ جنوب مشرقی ایشیائی اورمڈغاسگر کی اقوام کے مزاج انکے مشترکہ رنگوں، طرز معاشرت سے نہ صرف عیاں ہوتے ہیں بلکہ انکی گمنام تاریخ کو آپس میں ملانے کا ایک ثبوت بھی فراہم کرتے ہیں۔ انکارہن سہن اور تمدن کچھ قدروں میں گہری وابستگی کا ربط رکھتا ہے۔تاریخی حقائق تحقیق کے طلبگار ہے۔انسانی مزاج کی طرح کچھ رنگ مل کر ایک نیا رنگ بناتے ہیں تو کچھ رنگ مل کر اپنا وجو د کھوتے ہیں۔پیلے اور جامن کا ملاپ سفیدی ہے تو پیلے اور سرخ کا سنگ نارنجی ہے۔انسانوں کے سنگ بھی ان رنگوں کی مانند اپنا انگ بدلتے ہیں۔رنگ مزاج تبدیل کرتے ہیں۔رنگ جیسی کیفیت طاری کرتے ہیں ،مزاج ویسے ہی بنتے ہیں۔ہر سیارہ کے مقابل اس کا رنگ مخصوص کیا گیا۔ ہر برج کا رنگ سیارے کے ماتحت رکھا گیا اور اسی سے شخصیت اور مہینے کے رنگ طے ہوئے۔ہفتہ وارہر یوم کے رنگ مقرر کئے۔جواہرات کا پہننا، اس ہی علم کے ماتحت ٹھہرا۔ اس ہی علم کے تحت شخصیت اور لباس نے اہمیت کو اپنایا۔
مذہب کے رنگ، پرچم کے رنگ معنی خیزرہتے ہیں۔سرخ رنگ کہیں انقلاب کی روداد ہے تو کہیں شاندار تاریخ بیان کر رہا ہے۔چند افریقی اور مشرقی وسطیٰ کے ممالک سیاہ رنگ کو افسوسناک ماضی سے تعبیر کرتے ہیں تو کچھ سیاہ کو چھپے خزائن کی دولت بتاتے ہیں۔اگر ایک سلطنت مذہب کے رنگ سے اپنی وابستگی کا اظہار کر رہی ہے تو کوئی ثقافتی رنگ کی علمبردار بنتی ہے۔ کسی بھی جھنڈا میں رنگ کا انتخاب بیش بہاءحکمت رکھتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ممالک کا طرز معاشرت اور رنگوں سے لگاوانکے تاریخی ربط پر تحقیق کا سوالیہ نشان قائم کرتا ہے۔انسان نے رنگوں کے استعمال کو موسم، حالات اور نوعیت کے ساتھ خوب پہچان لیا ہے بلکہ سیکھ لیا ہے مگر رنگوں کی تلاش میں چھپے رازوں کی پہچان سے ابھی مکمل واقف نہیں ہو پایا۔ جہاں خدا نے حکمت و دانائی کو آج بھی چھپا رکھا ہے۔سرخ مٹی میں سبزہ کے خود بخود اگ جانے کے قدرتی فرش میں کچھ پنہاں رکھا، سفید اور سرخ پانی کی تاثیر میں فرق رنگوںہی سے رکھا ہے۔پانی کے رنگ میںتفریق ذائقہ کا فرق ہے۔پودوں میں رنگ کے راز بڑے معنی رکھتے ہیں۔ گلاب کے پتوں کی کناری حد پھول کا رنگ بتاتے ہیں، کانٹے خوشبو کا اظہار ہیں۔سدا بہار پھول سمیت بیشتر پھولدار پودوںکی غالب رنگی ٹہنیاں کچھ بتانے پہ مامورہیں،کینا اور دیگر اس نوع کے نباتات کے پتوں کا بیرونی کنارہ پھول کی رنگت کے عکاس ہوتے ہیں۔تلسی کے پھول کا رنگ، چنبیلی کے پتوں کی
  تعداد میں فرق کا جہان۔اگر پھول کے رنگ کا فرق بتاتا ہے تو کہیں نسل کی پہچان۔
یہ علم نہیں کے پھل کاٹ کر ذائقہ چکھا جائے، یہ بھی علم نہیں کہ پکا کھانا چکھ کر اس کا ذائقہ بتا یا جائے بلکہ نگاہ کو رنگ
 کی پہچان ہونی چاہئے۔ علم اور فن تو نگاہ میں اندر کی پہچان عطا کرتا ہے۔ مسمی، کینو، مالٹا، سنگترہ، مٹھا، کھٹا میں ذائقہ کا فرق رکھا۔ رنگ سے انکی پہچان میں تمیز فرمائی درخت نے انکو شناخت عطاءکی۔ ایک ہی باغ کے درختوں سے اتارے گئے ہر پھل کے ذائقہ کا فرق رنگ میں بھی ظاہر فرمایا۔اللہ نے رسوںمیں میٹھا، کھٹا، کھارا، کڑوا، چیرپرا اور کسیلا پن رکھا تو تاثیر میںگرم،سرد ،خشک اور تر جیسے اثرات کو بخشا۔ایک گاجر کو تین رنگوں میں تخلیق فر ما ئی اور انکے ذائقہ اور افادیت میں ترکیب کی تبدیلی رکھی۔ جانور کے گوشت میں رنگی تفریق ہی پہچان اورلذت میں تسکین کر رہی ہے، انسانی جلد کی رنگت اسکے بارے میں نہ جانے کیا کچھ بیان کر رہی ہے۔پھل کی ایک ہی نوع کے چھلکاکا رنگ ذائقہ کا اختلاف ظاہر کرتے ہیں، ساتھ ہی پھلوں کے رنگ انسانی بیماریوں کے علاج میں معاونت بھی رکھتے ہیں۔ سرخ رنگ دوران خون بڑھاتا ہے تو زرد عصبی نظام اور گردوں کیلئے کارگر ثابت ہوتا ہے ایسے ہی نارنجی پھیپھڑوں اور جسم کو توانائی بخشتاہے تو نیلا رنگ بیماری میں تسکین اور درد کی کمی سمجھا جاتا ہے۔ بنفشی عکس سے جلدی مسائل کا علاج چلتاہے جبکہ انسانی
 فضلات کے رنگ انسان کی بیماری کے اصل نقائص آگاہ کرتے ہیں۔
قوس قزح سات رنگوں سے مزین ہوتی ہے۔ سرخ ، نارنجی، زرد،سبز،آسمانی، نیلگوں اور بنفشی کی رنگین شعاعوں سے ہر چیز کی زندگی مرتب ہوتی ہے۔ سات ہزارسال قبل عراق کے اطباءانہی رنگین شعاعوں سے مریضوں کا علاج کرتے تھے۔آج کلر تھراپی،کلرگرافی کوئی نئی دریافت نہیں۔ قلب کیلئے زرد رنگ ہے جو جسم کے بایاں حصہ پر کارگر ہوتا ہے اور روح کیلئے جسم کے دائیں جانب سرخ رنگ،سفید رنگ سر پر شعور کیلئے، سیاہ رنگ ماتھا پرخیالات کا وارد ہونا پر،چھاتی کے وسط پر سبز رنگ شعور سے گہری وابستگی رکھتے ہیں۔ جن کی تحریکی ترتیب زرد،سرخ،سفید،سیاہ اور سبز سے بنتی ہے۔جس طرح انسان کو خواراک میں تمام وٹامنز،معدنیات و دیگر اجزاءکی ضرورت ہوتی ہے،گلینڈز کا بننا جسمانی نشوونما میں اہم کردار ادا کرتا ہے اور اِنکی کمی جسمانی صحت کو متاثر کرتی ہے۔ اسی طرح انسانی جسم کو بنیادی رنگوں کی ضرورت بھی ہوتی ہے۔ جو دیکھنے سے حاصل ہوتی ہے اور انکے استعمال سے جسم میں انکی ضرورت پوری ہوتی ہے۔ کسی رنگ کی کمی بھی انسان کو جسمانی اور شعوری بیماریوں میں لاحق کرتی ہے۔سبزہ ،پانی اور خوبصورت چہروں کو دیکھنے سے نگاہ میں تیزی پیدا ہوتی ہے۔ان سے ہی انسان کی سوچ اور خیال میں وسعت آتی ہے۔
جسمانی صحت کے ساتھ ساتھ ان رنگوں کا گہرا استعمال نفسیاتی بیماریوں میں ہمیشہ معاون کارہوتا ہے۔ سبز رنگ مشاہدہ کوقوت بخشتا ہے تو نیلا رنگ تخلیقی صلاحیتوں کو مزید نکھارتا ہے۔ نارنجی توجہ مبذول کرواتا ہے تو سرخ جذبات میں جوش عمل لاتا ہے۔ زرد افسردگی و بے چینی پیدا کرتا ہے تو گلابی نئی راہیں کھولتا ہے،سیاہ پردوں کی سیاہی ہٹاتا ہے تو سفیدسرد مہری وبے جاکیفی کا ذریعہ بنتا ہے۔انسان کا جسم ظاہری آنکھ سے کچھ اور دکھا ئی دیتا ہے جبکہ قدرت نے جلد سے باہر بھی اسکو ایک خول عطاءکر رکھا ہے۔ اِک ست رنگے خول نے ہر بدن کو گھیر ہواہوتا ہے جو دکھا ئی تو نہیں دیتا لیکن کائنات میں بکھرے ہوئے رنگوں سے اپنی خوراک حاصل کرتا ہے۔موسیقی میں سر اورآوازمیں ہم آہنگی اِک خوشگواررنگ بخشتے ہیں۔ پر فضا مقام پر ہوا کی سرسراہٹ ایک پر کشش رنگ مزاج پر چھوڑتی ہے۔بلب کی روشنی اور ٹیوب لائٹ کی روشنی ہمارے عصبی نظام پر کیا اثر ڈالتے ہیں۔سورج کی روشنی کا شیشے سے گزر کا آنا اور براہ راست روشنی کو محسوس کرنا مزاج میںکیسی تازگی لاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ چاند کی چاندنی عجب سماں ذہن پر طاری کرتی ہے۔چراغ‘موم بتی‘ لالٹین اور آگ کے رنگوں میں فرق ہے۔ آج انسانی زندگی اِن اندھیروں میں جلتی روشنی کی طرح بےرنگ ہوتی جارہی ہے۔ امید کی شعاع سے محروم مایوسیوں اور محرومیوں کا شکار انسان نفسیاتی امراض کا شکار ہورہا ہے۔ انسان خود کو قدرت کے حسن سے محروم کر رہا ہے۔قدرت انسان کی فطرت میں حقیقت کا رنگ بھرتی ہے۔ جو اسکو پائیدار انسان بناتی ہے۔ اصلی رنگوں کو اپنائیے، بناوٹی رنگ بناوٹ پیدا کرتے ہیں۔ایک چہرہ پہ خاص رنگ جچتا ہے تو کسی دوسرے فرد کے چہرہ پر وہی رنگ بجھتا ہے۔ رنگوں کی دوڑ میں انسان اپنا حقیقی رنگ بھول رہا ہے۔قدرت نے دنیا کی ہر شے بے رنگی،بے مقصد تخلیق نہیں کی۔اس نے کائنات میں ہر شے مربوط انداز سے ربط میں رکھی۔ ہر مخلوق کو اس کے رنگ میں حسن بخشا۔ فطرت کو اِن رنگوں سے ظاہر کیا۔ نگاہ سے دل کو تسکین ملی۔ نگاہ کی توجہ نے حکمت کے راز کھولے ہیں۔ رنگ کی پہچان میں اپنی تلاش کیجئے۔ ہر شے کو اسکے ڈھنگ سے سمجھئے تو زندگی کے معنی بدل جائیں گے۔لہذارنگوں کونظر انداز کرنا درست نہیں۔ آنکھیں بند کر کے رنگ استعمال نہ کیجیے ۔ ہر علاقہ کی اپنی شناخت ہوتی ہے۔ رنگ اسکے مطابق اپنائے گئے ہوتے ہیں۔ ہردوا فائدہ دیتی بھی اور نقصان کہیں اور پہنچا بھی سکتی ہے۔ فطرت کامشاہدہ کرنے پر انسان سب سمجھ لیتاہے‘ضرورت توجہ کی ہوتی ہے۔
sarailliyasi@gmail.com+919811254615

230112 rango ki ahmiyat aur zaroorat ko kiyo nahi samajhe ham by sara illiyasi

Monday, October 31, 2011

qurbani pe shuru qurbani par khatam by sarailliyasi اسلامی سال؛قربانی پر شروع ‘قربانی پر ختم


سارہ الیاسی
اللہ کی عجب شان ہے کہ ہجری سن جس کی ابتداءدین کیلئے وطن چھوڑنے کی قربانی سے ہوئی اس کا پہلا مہینہ محرم الحرام نواسہءرسول کی میدان کربلا میں قربانی کا حامل ہے وہیں سال کا آخری مہینہ ذوالحجہ اطاعت باری تعالی میںجذبات کی قربانی کی ترغیب سمیٹے ہوئے ہے جو قیامت تک کے آنے والے انسانوں کیلئے بہترین رہنمائی ہے۔اسلامی سال کا بارہواں مہینہ ذوالحجہ ہے اس کی وجہ تسمیہ ظاہر ہے کہ اس ماہ میں لوگ حج کرتے ہیں اور اس کے پہلے عشرے کا نام قرآن مجید میں ’ایام معلومات‘ رکھا گیا ہے یہ دن اللہ کریم کو بہت پیارے ہیں۔ اس کی پہلی تاریخ کو سیدہ عالم حضرت خاتونِ جنت فاطمہ زہراءرضی اللہ تعالیٰ عنہا کا نکاح سیدنا حضرت شیر خدا علی مرتضیٰ کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم کے ساتھ ہوا۔اس ماہ کی آٹھویں تاریخ کو یومِ ترویہ کہتے ہیں؛ کہ حجاج اس دن اپنے اونٹوں کو پانی سے خوب سیراب کرتے تھے تاکہ عرفہ کے روز تک ان کو پیاس نہ لگے۔ یا اس لئے اس کو یوم ترویہ یا غوروفکرکہتے ہیں کہ سیدنا حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیٰ نبینا و علیہ الصلوٰة والسلام نے آٹھویں ذی الحجہ کو رات کے وقت خواب میں دیکھا تھا کہ کوئی کہنے والا کہہ رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ تجھے حکم دیتا ہے کہ اپنے بیٹے کو ذبح کر‘ تو آپ نے صبح کے وقت سوچا اور غور کیا کہ آیا یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے یا شیطان کی طرف سے؟ اس لئے اس کو یومِ ترویہ کہتے ہیں جبکہ اس کی نویں تاریخ کو عرفہ کہتے ہیں‘کیوں کہ سیدنا حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰة والسلام نے جب نویں تاریخ کی رات کو وہی خواب دیکھا تو پہچان لیا کہ یہ خواب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے!لہذااسی دن حج کا فریضہ سر انجام دیا جاتا ہے۔دسویں تاریخ کو یوم نحر کہتے ہیں؛ کہ اسی روز سیدنا حضرت اسماعیل علیہ الصلوٰة والسلام کی قربانی کی صورت پیدا ہوئی اس لئے اسی دن عام مسلمان قربانیاں ادا کرتے ہیں۔اس ماہ کی گیارہ تاریخ کو’ یوم القر‘ اوربارہویں، تیرہویں کو ’ یوم النفر’ کہتے ہیں اور اس ماہ کی بارہویں تاریخ کو حضور سراپا نور شافع یوم النشور صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے بھائی چارہ قائم فرمایا تھا جس کی تفصیل فضائل الایام والشہورمیں وارد ہے۔
کیا ہے ماہِ ذو الحجہ کی فضیلت؟ذوالحجہ کا مہینہ چار برکت اور حرمت والے مہینوں میں سے ایک ہے۔ اس مبارک مہینہ میں کثرتِ نوافل، روزے، تلاوت قرآن، تسبیح و تہلیل، تکبیر و تقدیس اور صدقات و خیرات وغیرہ اعمال کا بہت بڑا ثواب ہے۔ اور بالخصوص اس کے پہلے دس دنوں کی اتنی فضیلت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس عشرہ کی دس راتوں کی قسم یاد فرمائی ہے۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:قسم ہے مجھے فجر کی عیدِ قربان کی اور دس راتوں کی جو ذوالحجہ کی پہلی دس راتیں ہیں۔ اور قسم ہے جفت اور طاق کی جو رمضان مبارک کی آخری راتیں ہیں، اور قسم ہے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کے معراج کی رات کی۔اس قسم سے پتہ چلتا ہے کہ عشرہ ذی الحجہ کی بہت بڑی فضیلت ہے۔
ماہِ ذو الحجہ کی فضیلت احادیث مبارکہ کی روشنی میںکیا ہے؟مسلم شریف میںحدیث وارد ہے کہ: سیدہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول خدا حبیب ِ کبریا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس وقت عشرہ ذی الحجہ داخل ہوجائے اور تمہارا کوئی آدمی قربانی کرنے کا ارادہ رکھتا ہو تو چاہئے کہ بال اور جسم سے کسی چیز کو مس نہ کرے۔ایک روایت میں ہے کہ فرمایا کہ بال نہ کترائے اور نہ ناخن اتروائے۔ مشکوٰة شریف کی ایک روایت میں ہے کہ جو شخص ذی الحجہ کا چاند دیکھ لے اور قربانی کا ارادہ ہو تو نہ بال منڈائے اور نہ ناخن ترشوائے۔ سیدنا حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے یوں فرمایا کہ رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کوئی دن ایسا نہیں ہے کہ نیک عمل اس میں ان ایام عشرہ سے اللہ تعالیٰ کے نزدیک زیادہ محبوب ہو۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جہاد فی سبیل اللہ بھی نہیں ؟ فرمایا : جہاد فی سبیل اللہ بھی نہیں ! مگر وہ مرد جو اپنی جان اور مال لے کر نکلا اور ان میں سے کسی چیز کے ساتھ واپس نہیں آیا (یعنی شہادت)۔مشکوة شریف میں وارد ہے کہ:ان دس دنوں سے۔ ان دنوں میں ایک دن کا روزہ سال کے روزوں کے برابر ہے اور اس کی ایک رات کا قیام سال کے قیام کے برابر ہے۔
کیا آپ جانتے ہیں عشرہ ذی الحجہ کی فضیلت؟جو شخص ان دس ایام کی عزت کرتا ہے اللہ تعالیٰ یہ دس چیزیں اس کو مرحمت فرماکر اس کی عزت افزائی کرتا ہے (۱) عمر میں برکت (۲) مال میں افزونی (۳) اہل و عیال کی حفاظت (۴) گناہوں کا کفارہ (۵) نیکیوں میں اضافہ (۶) نزع میں آسانی (۷) ظلمت میں روشنی (۸) میزان میں سنگینی یعنی وزنی بنانا (۹) دوزخ کے طبقات سے نجات (۹) جنت کے درجات پر عروج۔غنیہ الطالبین میں وارد ہے کہ جس نے اس عشرہ میں کسی مسکین کو کچھ خیرات دی اس نے گویا اپنے پیغمبروں علیہم السلام کی سنت پر صدقہ دیا۔ جس نے ان دنوں میں کسی کی عیادت کی اس نے اولیاءاللہ اور ابدال کی عیادت کی ، جو کسی کے جنازے کے ساتھ گیا اس نے گویا شہیدوں کے جنازے میں شرکت کی، جس نے کسی مومن کو اس عشرہ میں لباس پہنایا، اللہ تعالیٰ اس کو اپنی طرف سے خلعت پہنائے گا جو کسی یتیم پر مہربانی کرے گا ، اللہ تعالیٰ اس پر عرش کے نیچے مہربانی فرمائے گا، جو شخص کسی عالم کی مجلس میں اس عشرہ میں شریک ہوا وہ گویا انبیا اور مرسلین علیہم السلام کی مجلس میں شریک ہوا۔
ذوالحجہ کے پہلے نو دنوں کے روزوں کی فضیلت کیا ہے؟ذوالحجہ مبارک کے پہلے عشرہ کے پہلے نو دن روزہ رکھنا بڑا ثواب ہے۔مشکوٰة شریف میں ام المو ¿منین سیدہ حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں:۴ چیزوں کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نہیں چھوڑا کرتے تھے۔ عاشورہ کا روزہ اور ذولحجہ کے دس دن یعنی پہلے نو دن کا رن کا روزہ اور نماز فجر سے قبل دورکعتیں۔
ذو الحجہ شریف میں رونما ہونے والے اہم واقعات: اعلان نبوت کے بارہویں سال اہل مدینہ کی جانب سے تیسری بیعت عقبہ جس میں مرد اور دو عورتیں مشرف بہ اسلام ہوئیں ، اہل مدینہ کیلئے بارہ نقیب مقرر ٭ حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ، کی ولادت بمقام'قباء٭ غزوہ سویق ٭ سیدتنا فاطمہ رضی اللہ عنہا بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شادی ٭ غزوہ بنی قریظہ ٭ وفات حضرت سعد بن معاذ سید الاوس ٭ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ امیر حج بنے٭ حج? الوداع (عرفات اور منیٰ میں عظیم خطبات کے ذریعہ منشور انسانیت کا اعلان)٭ حجة الوداع سے واپسی پر خطبہ غدیر خم میں حضرت علی کو مولائے کائنات کا منصب اور اہلبیت کو قرآن کی عملی تفسیر اور ھادی قرار دیا۔٭ وفات ابو العاص (دامادِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم)۔ ٭ وفات یزید بن ابی سفیان ٭ وفات سعد جمحی ٭ حضرت عمررضی اللہ تعالی عنہ پر قاتلانہ حملہ٭ پہلی بحری جنگ (دور حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ) ٭تعمیر نہر بصرہ ٭شہادتِ حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ تعالی عنہ وخلافت حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ ٭ وفات محمد بن ابی بکر رضی اللہ تعالی عنہ ٭ وفات عثمان جمحی رضی اللہ تعالی عنہ ٭ وفات حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالی عنہ ٭ وفات عاصم بن عدی رضی اللہ تعالی عنہ٭وفات جریر بن عبداللہ البجلی٭ وفات عبداللہ بن انیس رضی اللہ تعالی عنہ ٭فتح سمرقند ٭ یزیدیوں کے ہاتھوں حرمین طیبین کی بے حرمتی (واقعہ حَرہ) ٭ ترمیم کعبة اللہ شریف ٭ کوفہ پر بنو امیہ کا قبضہ ٭ تعمیر نو کعبة اللہ شریف ٭ حجاج امیر کوفہ ہوا وغیرہ شامل ہیں۔
sarailliyasi@gmail.com+919811254615

311011 qurbani pe shuru qurbani par khatam by sarailliyasi

kiya badh rahey hey jaraim by sara illiyasi کیوں بڑھ رہے ہیں جرائم؟


سارہ الیاسی
ہندوستان میںدین سے دوری کے سبب جرائم 2009 کے مقابلے میں 2010 میں پانچ فیصد بڑھ گئے ہیں۔خود نیشنل کرائم ریکارڈس بیورو کے تازہ اعداد و شمارحقائق کا انکشاف کررہے ہیں۔ غور کیجئے کہ جنسی استحصال کے معاملات میں پولیس نے 94.5 فیصد ملزمان کے خلاف چارج شیٹ پیش کی مگر ان میں سے صرف 26.6 فیصد کو ہی وہ سزا دلوا سکی۔ جہیز قتل کے معاملات میں سزا دلوانے کی شرح 33.6 رہا۔دراصل جرم کی کوئی ایسی قسم نہیں ہے جس میں 39 فیصد سے زیادہ ملزموں کو سزا دلانے میں فرد جرم فریق کو کامیابی ملی ہوجبکہ ہماری استغاثہ نظام یا تو کام کے بوجھ سے دبی ہوئی ہے یا پھر وہ اتنی کارگرنہیں ہے کہ مقدمات کو ان کی منطقی نتیجہ تک لے جانے میں کامیاب رہے۔ اگر مجرمانہ انصاف کے نظام اتنی لچر ہو ، تو مجرموں کی بے خوفی پر حیران ہونے کی کیا ضرورت ہے؟اعداد و شماربتاتے ہیں کہ یوں تو 2010 میں سارے ملک میں جرائم بڑھے لیکن خاص طور پر شہروں میں خواتین کے خلاف ہونے والے جرم میں شدید اضافہ ہوا لیکن یہ اعداد و شمار اس معنی میںخوفناک سمجھے جا سکتے ہیں کہ ملک کے جن علاقوں ، خاص طور پر دیہی علاقوں میں ، جہاں خواتین کی سماجی حیثیت بہت کمزور اور عوامی بیداری کم ہے اور جہاں متاثرین کو مدد دینے کے لئے خواتین کی تنظیموں کا فقدان ہے ، وہاں بہت سے سنگین جرم بھی پولیس کے دستاویزات میں درج نہیں ہو پاتے۔ اس لیے اےن سی آرکی رپورٹ بھی ملک میں جرائم کی پوری تصویر نہیںپیش کرسکتی۔بہر حال تازہ رپورٹ سے دو اور انتہائی تشویشناک حقائق سامنے آئے ہیں۔ گزشتہ سال 1لاکھ33ہزار9سو38 افراد کی جان سڑک حادثوں میں چلی گئی۔ یہ اپنے ملک میں سڑکوں اور ٹریفک نظام کی دردناک حالت کی عکاسی کرتی جبکہ دوسری جانب1لاکھ34ہزار5سو 99افرادنے خود کشی کر لی جو سماج میں بڑھتی ہوئی کشیدگی ، علیحدگی اور رشتوں کے انتشار کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ سارے وہ پہلو ہیں جنھیں کوئی بے حس معاشرہ ہی نظر انداز کر سکتا ہے۔ایسے میں ضروری ہوجاتاہے کہ اس کے عوامل کو تلاش کرکے خاطر خواہ تدارک کیا جائے۔
سوال یہ ہے کہ معاشرے میں بڑھتی ہوئی کشیدگی ، علیحدگی اور رشتوںکی ٹوٹ پھوٹ آئی کہاں سے؟دراصل اس کے پیچھے مقصدحیات سے دوری کارفرما ہے۔ا نسان کی تخلیق کا مقصد اللہ تعالی نے اپنی عبادت رکھا ہے‘ اس لئے انسان کو نہ تو رزق کے معاملے میں زیادہ پریشان ہونا چاہئے اور نہ ہی دنیا کے حصول کیلئے اپنے آپ کو کھپا دینا چاہئے بلکہ اللہ تعالی نے اس کے رزق کا ذمہ خود لیا ہے جبکہ انسان کو جرائم سے پاک دین کے مطابق زندگی بسر کرنے کا پابند کیا ہے۔اس لئے اللہ تعالی نے ہر انسان کو شعور بخشا ہے اور اس کو فطرت اسلام پر پیدا فرمایا تاکہ یہ اپنی گمراہی کو بے علمی کے عذر سے پیش نہ کر سکے۔اس لئے اللہ تعالی نے ہر انسان کو مختلف طریقوں سے یہ باور کروا دیا ہے کہ کوئی خالق ومالک اور کوئی ایسی ہستی ہے جو سارا نظام چلا رہی ہے اور اس دنیا کی ہر چیز کو کنٹرول کئے ہوئے ہے۔اس لئے ہر مسلمان کو جن چیزوں معرفت ضروری ہے ان میں سب سے پہلے اللہ تعالی کی ذا ت عالی کی معرفت ہے۔ اللہ تعالی نے زمین وآسمان ،سورج،چاند اور ستاروں،شجر حجر اور پہاڑوں سے اور دنیا کے نظام سے اپنی معرفت کروائی ہے اور حتی کہ فرمان باری تعالی کے مطابق خود انسان کی اپنی جا ن میں بہت ساری نشانیاں موجود ہیں۔اللہ تعالی کے اسماءحسنی میں غور و خوص اور اس کی دعوت معرفت حاصل کرنے کا ذریعہ ہیں۔ یہاں چند باتیں ترتیب وار سمجھنے کی ہیں۔ اول یہ کہ اللہ تبارک وتعالی اور اس کے اسماءحسنی اور صفات کا علم مطلق طور پر سب سے اعلی اور اشرف علم ہے کیونکہ علم کا شرف معلوم یعنی جس کا علم حاصل کیا جارہا ہے اس کے شرف سے ثابت ہوتا ہے اور اس علم میں جس کا علم حاصل کیا جارہا ہے وہ اللہ سبحانہ وتعالی اور اس کے اسماءوصفات کا علم ہے ، تو اس علم کے حصول میں مشغول ہونا اور اس کی فہم حاصل کرنا بندے کیلئے سب سے اعلی اور اشرف کام ہے۔ اسی لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بہت ہی واضح طور پر بیان فرما دیا اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اسے بیان کرنے کے اہتمام کی بنا ءپر ہی صحابہ اکرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے اس میں کوئی اختلاف نہیں کیا جس طرح کہ بعض دوسرے احکام میں اختلاف کیا ہے۔دوسرے یہ کہ اللہ تعالی کی معرفت اس بات کی دعوت دیتی ہے کہ اللہ تعالی کی خشیت اور اس کی محبت اختیار کی جائے اوردل میں اسی کا خوف رکھا جائے اور اسی سے امیدیں وابستہ کی جائے اور اسی اللہ تعالی کیلئے ہی اپنے اعمال کی خالص کیا جائے جو کہ سعادت اور عین عبادت ہے ، اور اللہ تعالی کی معرفت اس وقت ہی حاصل ہو سکتی ہے جب اللہ تعالی کے اسماءحسنی کی معرفت حاصل ہو اوران کے معانی کوسمجھا جائے۔تیسرے یہ کہ اللہ تعالی کی اسماءحسنی ساتھ معرفت ایمان میں زیادتی کا باعث ہے ، شیخ عبدالرحمان بن سعدی رحمہ اللہ تعالی کا قول ہے کہ : اللہ تعالی کے اسماءحسنی پر ایمان لانا اور ان کی معرفت توحید کی تینوں اقسام ہیں : توحید ربوبیت اور توحید الوہیت اور توحید اسماءوصفات کومتضمن ہے ، اور یہ اقسام ایمان کی روح اور خوشی ہے ، اور روح کا معنی دل کوغمی سے خوشی اور راحت ہے، اور یہ ایمان کی اصل اور اس کی غایت ہے ،لہذا بندے اللہ تعالی کے اسماءحسنی اور اس کی صفات کی معرفت حاصل کرے گا اس کا ایمان بھی اتنا ہی زیادہ اور یقین قوی ہوگا۔ التوضیح والبیان لشجر الایمان للسعدی ص 41پر اس کی وضاحت موجود ہے۔چوتھے یہ کہ اللہ تبارک وتعالی نے مخلوق پیدا ہی اس لئے کیا ہے کہ وہ اسے پہچانیں اور اس کی عبادت کریں‘ یہی وہ چیز ہے جو کہ ان سے انتہاءمطلوب ہے۔ علامہ ابن قیم رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ رسولوں کی دعوت کا لب لباب اور اس کی کنجی معبود برحق کی معرفت وپہچان اس کے اسماءوصفات اور افعال کے ساتھ ہے ، اوراسی معرفت پر رسالت کی شروع سے لیکر آخر تک بنیاد اور دارو مدار ہے ۔توبندے کااللہ تعالی کی معرفت میں مشغول ہونا اس کام میں مشغول ہونا ہے جس کیلئے اللہ تعالی نے اسے پیدا فرما یا ہے ، اور اسے ترک و ضائع کرنا ایساکام ہے جس کے لئے بندہ پیدا کیا گیا ہے اسے نہ کرنا ہے ، اورایمان کا معنی یہ نہیں کہ صرف زبان سے کہہ دیا جائے اوراس کی معرفت اور علم حاصل نہ کیا جائے، اس لئے کہ حقیقت ایمان یہ ہے کہ بندہ اپنے اس رب کوجانے اور پہچانے اور اس کی معرفت حاصل کرے جس پر وہ ایمان لایا ہے ، اور اسے اللہ تعالی کی معرفت اسماءوصفات کے ساتھ حاصل کرنے میں کوشش کرنی چاہئے ، لہذااسے جتنی اللہ تعالی کی معرفت ہوگی اس کا ایمان بھی اتنا ہی زیادہ ہوگا۔پانچویں یہ کہ اللہ تعالی کے اسماءحسنی کا علم حاصل کرنا ہر معلوم کے ساتھ علم کا اصل ہے ، جیسا کہ ابن قیم رحمہ اللہ تعالی کا قول ہے کہ بیشک اللہ تعالی کے اسماءحسنی کا علم ہرمعلوم چیز کے علم کی اساس اوربنیاد ہے ، لہذا یہ معلومات اس کے سوا ہے یا تو اللہ تعالی کی مخلوق ہوگی یا پھر اس کا امر ، اوریا اس چیز کا علم ہوگا جس کی اللہ تعالی نے تکوین کی ہے ،اور یا اس کا علم ہوگا جواس نے مشروع کیا ہے ، اور خلق اور امر کےعلم کا مصدر اللہ تعالی کے اسماءحسنی ہیں ، اوریہ دونوں ( خلق و امر )اسماءکے ساتھ ایسے مرتبط ہے جس طرح کہ تقاضا کی گءچیز کا ارتباط تقاضا کرنے والے کے ساتھ ہو، اوراسماءحسنی کا شمار ہرمعلوم کے جاننے کا اصل ہے ، اس لئے کہ معلومات اس کا تقاضا ہیں اور ان سے مرتبط ہیں....
دوسرے دین کی معرفت بھی ضروری ہے۔ دنیا میں رہتے ہوئے انسان کو زندگی گزارنے کے لیے جو رہنمائی فراہم کی جاتی ہے اس کو وحی کا نام دیا گیا ہے اور اس کے ذریعے انسان کو اللہ تعالی کی مقرر کردہ حدود وقیود کا پابند کیاجاتا ہے تاکہ اس کی زندگی میں افراط وتفرط نہ آئے اور معتدل رویے سے زندگی بسر کرے۔لہذا انسان کیلئے یہ لازمی ہے کہ وہ اس وحی کو پہچانے اور اس کے مطابق زندگی بسر کرے اسی پہچان کا نام دین کی معرفت ہے۔تیسرے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی معرفت حاصل کی جائے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معرفت سے مراد یہ ہے کہ ان کو پیغمبر مان کر ان پر ایمان لایا جائے اور ان کی تعلیمات کو حرف آخر سمجھتے ہوئے اپنی زندگی کو اس کا پابند کیا جائے اور اس چیز کا عقیدہ رکھا جائے کہ آپ آخری پیغمبر ہیں اور آپ کے بعد نبوت کا سلسلہ ختم ہو گیا ہے۔
sarailliyasi@gmail.com+919811254615
301011 kiya badh rahey hey jaraim by sara illiyasi

Monday, October 24, 2011

bholey bhaley awam ka kaisey ullu bana rahey hey baba by sara illiyasi بھولے بھالے عوام کا کیسے الو بنا رہے ہیں بابا


سارہ الیاسی
 کیا آپ یقین کرسکتے ہیں کہ کسی کے چہرے کو دیکھ کر یا پڑھ کر اس کے کردار، افکار و دیگر خصوصیات کے متعلق پتہ کی باتیںبتادیناممکن ہے؟ہمارے معاشرے میں دینی مسائل سے ناواقفیت کی بناءپرلوگ کثرت سے نام نہاد عاملوں ،جادوگروں اور بنگالی باباوں کے دام تعویز میں پھنس کر متاع دنیا کےساتھ دولت ایمان بھی لٹا بیٹھتے ہیںجبکہ قرآن وسنت کی روشنی میں جادوٹونہ،علم نجوم اور جفرورمل وغیرہ قطعی ممنوع امور ہیں لیکن اس کے باوجود لوگوں کی ایک بڑی تعداد ان میں مشغول ہے ۔یہ دھوکے باز عام طور پر علم قیافہ کا سہارا لیتے ہوئے مخاطب کو اپنے فریب میں گرفتار کر لیتے ہیں۔ ان تمام معاملات کا قرآن وسنت کی روشنی میں جائزہ لینے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کرتے۔ ان کی ممانعت وقباحت ثابت کرنے کےساتھ ساتھ نجومیوں ،رملوں جفریوں ،کاہنوں اور نام نہاد عاملوں وغیر ہ کی کتابوں ،مقالوں ،اشتہاروں اور دعووں کی روشنی میں ان کی کذب وتضادبیانیاں پیش کرکے انہیں جھوٹا ثابت کیاگیا ہے۔اس سلسلے میںجھوٹے عاملوں کے مکروفریب سے بچنے کی غرض سے علم قیافہ آگاہی حاصل کرنا ضروری ہوجاتا ہے۔ صحیح بخاری میںکتاب الطلاق کے باب’ مسجد میں لعان کرنے کے بیان میںحدیث نمبر : 5309میں آیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ اگر ( لعان کرنے والی خاتون ) اس نے سرخ اور پستہ قد بچہ جنا جےسے وحرہ تو میں سمجھوں گا کہ عورت ہی سچی ہے اور اس کے شوہر نے اس پر جھوٹی تہمت لگائی ہے لیکن اگر کالا ، بڑی آنکھوں والا اور بڑے سرینوں والا بچہ جنا تو میں سمجھوں گا کہ شوہر نے اس کے متعلق سچ کہا تھا۔(عورت جھوٹی ہے ) جب بچہ پیدا ہو تو وہ بری شکل کا تھا ( یعنی اس مرد کی صورت پر جس سے وہ بد نام ہوئی تھی )اس حدیث سے علم قیافہ کا معتبر ہونا پایا جاتا ہے۔ مگر ہم کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بالہام غیبی علم قیا فہ کی وہ بات بتلائی جاتی جو حقیقت میں سچ ہوتی۔ دوسرے لوگ اس علم کی رو سے قطعاً کو ئی حکم نہیں دے سکتے۔ امام شافعی نے بھی علم قیافہ کو معتبر رکھا ہے، پھر بھی یہ علم یقینی نہیں بلکہ ظنی ہے۔ وحرہ یعنی چھپکلی کے مانند ایک زہریلا جانور ، پستہ قد عورت یا اونٹ کی تشبیہ اس سے دیتے ہیں۔دست شناسی اور تخاطر کی طرح قیافہ شناسی بھی ایک علم ہے جس کے بہت سے ماہرین موجود ہے اور اس موضوع پر کئی کتابیں بھی لکھی جاچکی ہیں۔ قیافہ شناسی علم رکھنے والے کو قیافہ شناس کہا جاتا ہے جبکہ نفسیات کی انسائیکلوپیڈیا،2006سید اقبال امروہوی، نگارشات پبلشرز 24 - مزنگ روڈ لاہور، 191 کے مطابق علم قیافہ جسے انگریزی زبان میں Phrenologyکہا جاتا ہے دراصل ایک سائنس کا شعبہ ہے جسکی بنیاد فرانزگال Franz Gall اور سپرڑیم Spurzheim کے ایجاد کردہ عقائد پر ہے ان دونوں سائنسدانوں کا عقیدہ تھا کہ دماغ اور قشر میں بہت سے مراکز ہیں اور ہر مرکز انسان کی کسی خاص قابلیت سے تعلق رکھتا ہے اور اس مرکز کی وسعت پر انسان کی متعلقہ قابلیت کی وسعت کا انحصار ہوتا ہے۔ چونکہ ان عقائد کو علم الاجسام میں شامل کر لیا گیا ہے اس لئے سائنس کے اس شعبہ پر مزید کوئی کام یا تحقیق نہیں ہوئی۔معلوم ہونا چاہئے کہ تصویر کی ضرورت کے اسباب جو آج ہماری زندگی میں داخل ہوگئے ہیں۔ یا کردئے گئے ہیں کیا کل ماضی میں نہ تھے؟ قانونی اور معاشرتی ضروریات یقیناً پہلے بھی ایسی ہی تھیں تو لوگ اپنی یہ ضرورت کس طرح پوری کرتے تھے جبکہ تصویر نہ تھی؟ ہمیں تاریخ بتاتی ہے کہ وہ لوگ ’علم قیافہ اور علم فراست‘ سے اپنی یہ ضروریات پوری کرتے تھے۔ اور تصویر کے مقابلہ میں کہیں عملی طور سے پوری کرتے تھے۔جب سے لوگوں نے اور بالخصوص مسلمانوں نے شرعی حقائق سے اعراض کیا اور تصویر کی برائی کو بڑی برائی کے مقابلہ میں چھوٹی برائی۔اہون ± البلیتین۔ کے طور پر ھنیئاً مریئاً بنالیا تو اللہ تعالیٰ نے علمِ فراست کو ان سے اٹھا لیا ہے۔ درج ذیل واقعہ میں جو صحیح بخاری میںکتاب المغازی، باب قتل حمزہ بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ حدیث نمبر :۴۰۷۲ نیز البدای والنہای جز،۴۔ ص/۱۷میں آیا ہے‘بڑا حیرت انگیز ہے کہ لوگ فطری طور پر کس قدر زیرک ، دانا اور صاحب فراست ہوتے تھے۔حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور کا واقعہ ہے کہ جعفر بن عمرو ضمری اور قبیلہ بنی نوفل کا عبید اللہ بن عدی عروئہ روم کی طرف گئے۔ کہتے ہیں کہ جب ہم شام میں حمص کے علاقے سے گزر رہے تھے تو خیال آیا کہ کیوں نہ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے قاتل وحشی بن حرب سے ملتے چلیں۔ وہ یہیں کہیں رہتاہے۔ اور اس سے شہادت حمزہ رضی اللہ عنہ کا قصہ براہ راست معلوم کریں گے۔ محدثین اور اہل علم کوشش کرتے تھے کہ جوبات انہیں کسی واسطہ سے معلوم ہوئی ہو وہ حتی الامکان اس اصل آدمی سے سنیں اور معلوم کرنے جائیں جو صاحب واقعہ ہو۔وہ نیک اس لیے ہے کہ نیکی پر یقین رکھتا ہے یا صرف اس لیے کہ اس میں برے کام کرنے کی ہمت نہیں ہے؟ یہ سارے بھید ایک قیافہ شناس آسانی سے کھول کر رکھ دے گا۔ قیافہ شناسی پر حال ہی میں مس گریس اے ریس کی ایک کتاب ’سیرت کا مطالعہ چہرے سے‘ شائع ہوئی ہے۔بعض کے نزدیک قیافہ شناسی کے متعلق یہ دعویٰ تو نہیں کیا جاسکتا کہ وہ ایک سائنس ہے اور جو نتیجے اس کی مدد سے نکالے جاتے ہیں وہ بالکل صحیح ہوتے ہیں لیکن اس میں بھی شبہ نہیں کہ قیافہ شناسی ایک نہایت اہم اور نہایت مفید علم ہے اور اس کی مدد سے کسی شخص کے متعلق جو رائے قائم کی جاتی ہے اس پر بڑی حد تک بھروسہ کیا جاسکتا ہے۔ اس علم کے ذریعے سے جو معلومات فراہم کی جاتی ہیں اس کی صحت میں بعض اوقات چند غیرمعمولی رکاوٹوں کی وجہ سے خامی رہ جانے کا امکان ضرور ہے۔ مثلاً ہوسکتا ہے کہ کوئی شخص بیمار ہو یا اسے کوئی مرض پرانی ہو اور وہ خط و خال پر اس طرح اثرانداز ہوکہ چہرے کی بناوٹ کے جو نتیجے نکالے گئے ہیں وہ زیادہ بھروسہ کے قابل نہ رہیں یا کسی نے محنت کے ساتھ اپنے ذہن کی تربیت کرلی ہو جس سے قدرتی رجحانات اور میلانات کی تردید ہونے لگی ہو مثلاً ممکن ہے کہ چھوٹی اور پتلی ٹھوڑی والے انسان کی قوت ارادی کمزور نہ ہو گو بچپن میں وہ یقینا پختہ ارادے کی دولت سے محروم رہا ہوگا۔دراصل قیافہ شناسی زندگی کے مختلف شعبوں میں نہایت مفید اور کارآمد ثابت ہوسکتی ہے۔ والدین‘ استاد اور کارخانوں کے مالک سب اس علم سے فائدہ اٹھاسکتے ہیں قیافہ شناسی ہمیں اسکی وجہ بتاتی ہے کہ بعض چہرے کیوں ہماری نظر کو بے تحاشا اپنی طرف کھینچتے ہیں اور بعض چہروں پر نظر پڑتے ہی ہم کیوں منہ پھیر لیتے ہیں؟ بعض شکلیں ہمیں کیوں اچھی لگتی ہیں انہیں کیوں دیکھتے رہنے کو جی چاہتا ہے اور کیوں ان پر اعتماد اوربھروسہ کرتے ہوئے جھجکتے نہیں اور بعض صورتیں ہمیں کیوں پسند نہیںآتیں اور ہم کیوں ان پر اعتماد نہیں کرتے۔قیافہ شناسی ایسے لوگوں کیلئے تو ناگزیر ہے جنہیں فوری فیصلے کرنے کی ضرورت ہوتی ہے مثلاً نوکری دلانے کے دفتروں کے مشیر حکیم اور تاجر وغیرہ قیافہ شناس بشرطیکہ وہ اس فن کا ماہر ہو‘ ایک نظر میں جو رائے قائم کرلیتا ہے وہ ذہانت کے تمام امتحانوں سے زیادہ صحیح ہوتی ہے۔قیافہ شناسی کے ماہر نہایت صحیح طور پر آپ کی زندگی کے چھوٹے سے چھوٹے واقعات تک بتاسکتے ہیں اور اس بات کے متعلق صحیح پشین گوئی کرسکتے ہیں کہ آپ کا طرز عمل کسی خاص قسم کے حالات میں کیا ہوگا۔ مثلاً اس قسم کے سوالوں کا صحیح جواب دینا ایک قیافہ شناس کیلئے مشکل نہیں ہے کہ کوئی خاص شخص دیانتدار ہے یا نہیں؟ اپنے ماں باپ کا اکلوتا لڑکا ہے یا نہیں؟ اس نے کسی سے محبت کی ہے یا نہیں؟وہ نیک ہے اس لیے ہے کہ نیکی پر یقین رکھتا ہے یا صرف اس لیے کہ اس میں برے کام کرنے کی ہمت نہیں ہے؟ یہ سارے بھید ایک قیافہ شناس آسانی سے کھول کر رکھ دے گا۔ قیافہ شناسی پر گذشتہ دنوں مس گریس اے ریس کی ایک کتاب ’سیرت کا مطالعہ چہرے سے‘ شائع ہوئی ہے ۔مس موصوفہ چالیس سال سے قیافہ شناسی کا مطالعہ اور مشق کررہی ہیں۔ انہوں نے ان تمام اصولوں کا گہرائی کے ساتھ مطالعہ کیا ہے جو اس علم کے بانیوں نے قائم کیے ہیں اور اس کے بعد انہوں نے خود اپنے ذاتی مشاہدات اور تجربات سے اس فن میں کمال حاصل کیا ہے۔ انہوں نے ہزاروں انسانوں کے چہروں سے ان کی سیرت کامطالعہ کیا اور یہ بات ثابت کردی کہ قیافہ شناسی کے علم سے نہایت درست اور کامیابی کے ساتھ کام لیا جاسکتا ہے۔
مزاجوں کی تقسیم:سب سے پہلے مزاجوں کی تقسیم پر عبور حاصل کرنا ضروری ہے۔ مزاجوں کی درجہ بندی اور تقسیم سیرت کے مطالعہ میں بڑی مدد دیتی ہے۔ یوں سمجھئے کہ مزاج وہ زمین ہے جہاں انسان پیدا ہوا ہے’مٹی“ میراث اور ’سیرت‘ڈھانچہ یا قلب ہے۔ہر سائنس کی طرح قیافہ شناسی کی بھی چند اصطلاحات ہیں سب سے پہلے ان کو ذہن نشین کرلیجئے۔ مزاج کی تین خاص قسمیں ہیں۔ قیافہ شناس ان کو (1) حرکی (2) حیاتی (3) ذہنی کہتے ہیں۔ ہر اصطلاح سے جسم کی بناوٹ‘ نمایاں خصوصیات‘ ترکیبی اجزا‘ ہڈیاں‘ پٹھے گوشت‘ ذہن اور اعصاب کی وضاحت ہوتی ہے۔
حرکی مزاج:حرکی مزاج والے شخص کی ہڈیاں پٹھے اور رگیں کافی نمایاں ہوتی ہیں اور اس کے ڈھانچے اور شکل صورت سے صاف ظاہر ہوتی ہیں۔ آپ دیکھیں گے کہ اس کی پیشانی‘ ناک‘ رخسار اور جبڑے کی ہڈیاں نمایاں ہیں۔بلوغت کو پہنچ کر ہڈیوں میں کوئی خاص تبدیلی واضح نہیں ہوئی۔ گو اعصاب اور نسیجین بدلتی رہتی ہیں۔ اس مزاج کی خصوصیت جسم‘ چہرہ‘ ہاتھ اور پاﺅں کی لمبائی ہے۔ چہرہ بناوٹ میںکتابی ہوتا ہے۔ ایسا شخص قوی‘ سرگرم‘ مستعد اور صاحب عمل ہوتا ہے۔ اس کے جذبات میں شدت اور حرکات میں آزادی ہوتی ہے اور فراست اور عقلمندی بھی اس میں کافی ہوتی ہے۔پیش پیش چلنے والے کھوج لگانے والے‘ تحقیق و تفتیش کرنے والے‘ فوجی لیڈر‘ یہ سب حرکی مزاج کے لوگ ہوتے ہیں۔ ان لوگوں میں ایک خاص قوت عمل ہوتی ہے جو انہیں چین سے نہیں بیٹھنے دیتی۔ یہ مزاج خاص طور پر عمل‘ فوری فیصلوں اور جس طرح بھی ہوسکے منزل تک پہنچنے والوں کا مزاج ہے۔ حرکی مزاج کا ایک آدمی خاص مقصد اور منصوبے کے تحت عمل پیرا ہوتا ہے۔
حیاتی مزاج:اگر جسم گذار اور موٹا تازہ ہو اور ہڈیاں نہیں بلکہ گوشت نمایاں ہو تو ایسے شخص کا مزاج حیاتی ہے اور جسم گول مٹول ہے اور اس طرح چہرہ‘ گردن اور ٹھوڑی بھی گول ہیں تو یہ موٹاپن قوت حیات‘ لچک اور چونچال پن اور مستقل مزاجی کی نشانی ہے‘ ایسے لوگ خوش طبعی اور زندہ دلی اور اچھی طرح زندگی بسر کرنے کے دلدادہ ہوتے ہیں اور ان میں قبول کرنے کا مادہ اور مطابقت پذیر کی صلاحیت بہت ہوتی ہے۔ جشن‘ دوستی‘ یا رباشی اور زندہ دلی اس مزاج کی اہم ترین خصوصیت ہے۔ اس سیرت کے لوگوں میں آسانی سے تغیر قبول کرنے کی صلاحیت بھی اتنی ہی ہوتی ہے جتنی استواری اور ثابت قدمی ہوتی ہے۔ بعض اوقات جوش وخروش زیادہ اور گہرائی ہوتی ہے۔ دلچسپیوں میں وقت گزارنے کی خواہش‘ کام سے گھبراہٹ بھی اس کے اوصاف ہیں۔ اس طبیعت کے آدمی کو آسانی سے خوش کیا جاسکتا ہے۔ لیکن اتنی ہی آسانی سے اسے آزردہ بھی کیا جاسکتا ہے۔ وہ آن کی آن میں مشتعل اور برانگیختہ ہوجاتا ہے مگر اتنی ہی جلد اس کا غصہ اتر بھی جاتا ہے۔ اس مزاج کے آدمی میں اگر ضبط نفس کی علامات نہ ہوں تو خوش خوری اس پر غلبہ پالے گی۔اس سلسلے میں’آئینہ عملیات‘ کے مصنف مولانا قاری صوفی محمد عزیز الرحمٰن پانی پتی کے ذریعے بیان کردہ علامات کا ذکر ضروری ہوگا جس میں موصوف نے بتایا ہے کہ علم قیافہ کے ذریعے کس طرح حالات معلوم کئے جاسکتے ہیں۔ان کے بقول اس علم کی مدد سے ظاہری شکل و صورت دیکھ کر ایک انسان کے متعلق صحیح رائے قائم کرنے میں بڑی مدد ملتی ہے۔انھوں نے مردوں کے تعلق سے کچھ علامات درج کی ہیں جن کے بموجب:
سر کے بال:سیاہ ملائم ہوں‘ دولت مند ہو۔باریک ہوں‘ حسین نیک مزاج ہو۔سخت تر ہوں‘تنگ دست اور بہادر ہو۔سرخی مائل بیٹھے ہوئے تومفلس و پریشان روزگار ہوگا۔
کاسہ سر:لمبائی ہو تو اقبال و ناز بسر کرے۔متوسط ہونا دولت مندی کے آثار ہیں۔زیادہ تر بڑا ہونا مفلسی و پریشانی کا نمونہ ہے۔
پیشانی:بلند‘خوش نصیبی اور دولت مندی کی علامت ہے۔تنگ اور پست ‘کوتاہی عمر اور بد بختی کی علامت ہے۔ہموار پست و بلند‘رنج ومحنت کی علامت ہے‘ عمر سختی میں گذرے‘جبکہ پیشانی پر تل بخت آوری کی علامت ہے۔
خط پیشانی: اگر ایک خط ہے‘ شقیقہ سے شقیقہ تک یعنی ایک کنپٹی سے دوسری کنپٹی تک تو علامت دولت و مال کی ہے ورنہ خسران مال ہے۔دو خط سلطنت اور درازی عمر کی علامت ہے۔تین خط وزارت و شہریاری کی علامت ہے۔ چار وپانچ خط بے دولتی اور درویشی کی علامت ہے۔اگر کوئی خط نہ ہوتو ترک دنیا کی علامت ہے۔
ابرو یعنی بھنویں: دونوں باریک خوب صورت کمان کی طرح ہونا دولت و سلطنت کی علامت ہے۔ ملی ہوئی بھنویں چوری کی علامت ہے۔ ابرو کے بال نہ ہونا یا کم ہونا غربت کا سبب ہے۔ابرو کے بالوں کا سخت ہونا بد بختی کے آثار ہیں‘ غربت کا سبب ہے۔
آنکھ: اگر سفید یا سیاہ ہوں اور سرخ ڈورے اس میں پڑے رہتے ہیں تو اقبال مندی و خوشحالی وشاہد پرستی کی علامت ہے‘ عورتوں کو اس سے بہت فائدہ پہنچے۔ اگر مثل شیروں کے خشم آلود ہو یعنی غصہ بھری ہوئی تو شجاعت و تہور کی علامت ہے۔اگر مثل دیدہ مرغاںہو یعنی مرغ جیسی آنکھ‘ جیسا کہ مرغ کن انکھیوں سے دیکھتا ہے تو بے شرمی اور با حیائی کی علامت ہے۔اگرآنکھیں بلی کی طرح نیلی اور سبز ہوں توبد خلقی بے مروتی کی علامت ہے۔ مثل چکور کے آنکھوں کاہونا چالاکی اور بے وفائی کے آثار ہیں۔
پلک آنکھ: پلکوں کے بال کم ہونازندگی میں عیش و عشرت سے بسر ہونے کی علامت ہے۔سخت زیادہ ہونا مفلسی و شورہ بختی کی علامت ہے۔
ناک: بلند اور بڑی ناک علامت دولت مندی اور سعادت کی ہے۔خوبصورت مثل منقار طوطی و خرطوم پہن ہونے سے ذی عقل پرہیز گار صاحب اقتدار ہو یعنی طوطے کی چونچ جیسی ٹیڑھی اور پھسلی ہوئی ۔ جو درازی و کوتہی بلند پستی باریکی و فربہی میں میانہ و خوش اندام و خوشنما ہو تو علامت نیکی کی ہے۔بہت بلند و باریک و پشتہ دار علامت سبک ساری کی ہے ۔موٹی چھوٹی پست ہونا علامت کوتاہ عقلی‘کم عقلی و پریشان روزگاری کی ہے۔
سوراخ ناک:بڑے ہونا بے حیا ہونے کی علامت ہے۔ تنگ ہوناذی عقل اور باحیا ہونے کا نمونہ ہے۔
کان اور کانوں کی لو: اگر لمبے ہوں نیک طینت باثروت یعنی دولت مند رہے‘ عمر دراز ہو۔ اگر درازی و کوتاہی و لاغری و پنہادری یعنی بیٹھی ہوئی بحد اعتدال ہو‘علامت نیکی اور اخلاقی پسندیدگی کی ہے۔نر گوش اگر کنپٹی سے جدا ہوں تو علامت خوشحالی کی ہے۔ اگر ملے ہوئے مگر باریک ہوں علامت خوشحالی کی ہے۔اگر کان پر بال ہوں تو علامت محنت اور رنج کی ہے۔
چہرہ:کتابی آفتابی چہرہ ہونا خوش نصیبی اور اقبال مندی کی دلیل ہے۔ مثل موش یعنی چوہا او رآہو یعنی ہرن ہونا بد بختی و گدا گری کا ثبوت ہے۔ پر گوشت یعنی خوبصورت ہونا نیک مرد یا اولاد ہونے کے آثار ہیں۔پلنگ یعنی چیتا کا چہرہ ہونے سے صاحب ثروت و حشمت ہونے کا ثبوت ہے۔
زبان: سرخ زبان علامت دولت و مال کی ہے۔ سفید زبان علامت نکبت و فلاکت ہے۔
لب: لب سرخ لب علامت سعادت اور دولت کی ہے ۔لب ہاے سیاہ علامت نکبت و مفلسی و بے دولتی ہے۔
 دانت: باریک دانت مثل انار کے دانے کے علامت دولت و سعادت ہے ۔سفےد دانت علامت دولت و مال ہے ےا فقیر و ترک دنیا کی ہے ۔
آواز: بلند اواز ہونا جاہ و جلال کا ثبوت ہے ۔آواز میں بادل کی سی گرج ہونا نیک مردی کے آثار ہیں ۔مثل طاوس یعنی مور کے ہونا دولت مندی و ناموری کا نشان ہے۔
ڈاڑھی: سیاہ ملائم ہونا دولت مندی و ناموری کا نشان ہے۔ سرخی مائل ہونا بے رحمی وغصہ کی علامت ہے۔
شگاف دہن:چوڑا اور کشادہ منہ ہونا ناقص العقل وپریشان حالی کی علامت ہے۔متوسط کشادگی ہونا اوسط حالت میں ہونے کی دلیل ہے۔تنگ دہن ہونا عمر عیش و طرب میں بسر ہونے کی نشانی ہے۔
ٹھوڑی:مدور یعنی گول ٹھوڑی ہوناعقل مند واہل فن ہونے کی علامت ہے۔کوتاہ ہونا عیبی کا نشان ہے ۔ ٹھوڑی کا خالی ہونابد خصالی کی علامت ہے ۔بلند ہونا دولت مندی کی دلیل ہے۔
گردن:لمبی ہونے سے شوریدہ بختی و ذلیل ہونے کی علامت ہے۔متوسط ہونا اوسط درجے میں بسر ہونے کی دلیل ہے۔کوتاہ ہونا حرمزدگی کی نشانی ہے۔ بہت بڑی ہونا چوری کی علامت ہے۔
خط گلو:ایک خط ہونا عمر طبعی کی دلیل ہے۔دوخط نیک بخت و عقل مند ہونے کی دلیل ہے۔تین خط سے صاحب ثروت مگر پرشکوہ ہونے کا نشان ہے۔
پیٹھ:خورومیانہ علامت دولت و سلطنت کی ہے۔حد اعتدال سے درازی علامت نکبت یعنی بے وقوفی ہے۔
بازو:دراز بازو علامت دانائی و ہوشمندی ہے۔متوسط بازو علامت سعادت و دولت ہے۔
ہاتھ:اگرداہنا ہاتھ بائیں ہاتھ سے بڑا ہوتوعلامت تہور و شجاعت کی ہے۔اگر بایاں ہاتھ داہنے ہاتھ سے بڑا ہوتو علامت بے چینی اور بددلی کی ہے۔
کہنی:شیر کی سی کہنی جو پر گوشت اور خوش اندام ہو دولت کی علامت ہے۔خشک و باریک بندر کی سی کہنی کے مثل علامت نکبت و فلاکت ہے۔
انگلیاں:اگر چھنگلیا اپنی برابر والی سے بڑی ہو تو اس بات کی علامت ہے کہ یہ شخص مرتبے میں اپنے باپ سے بھی بڑھ جائے گا۔واضح رہے کہ انگلیاں انسان کو روزمرہ کے کام کاج میں ہی مدد فراہم نہیں کرتیں بلکہ وہ پرکشش شخصیت کا ایک اہم حصہ بھی ہیں۔ ایک حالیہ سائنسی مطالعے سے ظاہر ہوا ہے کہ مرد کی چوتھی انگلی کی لمبائی یہ تعین کرنے میں مدد دیتی ہے کہ اس کی شخصیت خواتین کے لئے کتنی جاذب نظر ہے۔اس سوال کا جواب حقیقی جواب دے سکتی ہیں بے دھیانی میں آپ کی جانب اٹھنے والی آنکھیں۔ اچھا نظر آنا اور بالخصوص صنف مخالف کی نظروں کو بھانا ہر انسان کی ایک فطری خواہش ہے اور یہی وہ خواہش ہے جس کے دم سے کاسمیٹکس کی صنعت کھربوں ڈالر کی انڈسٹری بن چکی ہے۔حسن دو طرح کا ہوتا ہے ایک وہ جو منہ پر پانی کا چھینٹا مارتے ہی دھل جاتا ہے اور دوسرا وہ جو زیور اور زیبائش کا محتاج نہیں ہوتا اور عمر بھر قائم رہتاہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ حسن کا تعلق رنگت سے ہے نہ کہ ناک نقشے سے‘بلکہ حسن تناسب کا نام ہے۔ الگ سے اچھی دکھائی نہ دینے والی چیز اگر چند دوسری چیزوں کے ساتھ تناسب سے رکھی ہوتو آنکھوں کو لبھانے لگتی ہیں۔کچھ عرصہ پہلے دنیا کی حسین ترین شخصیات کی تصویروں کو جب کمپیوٹر کے ذریعے پرکھا گیا تو پتہ چلا کہ ان کے چہرے کی ساخت، آنکھ، ناک، کان اور دہن میں تناسب موجود تھا اور جس کا تناسب جتنا بہتر تھا، وہ چہرہ اتنا ہی حسین اور پرکشش تھا۔کیا آپ دوسروں کے لئے پرکشش اور جاذب نظر ہیں ؟ یہ جاننے کے لئے آپ کو آئینہ دیکھنے کی ضرورت ہے اور نہ ہی کسی سے پوچھنے کی جاجت۔ اس سوال کا جواب موجود ہے آپ کی اپنی انگلیوں کے پاس۔ جس طرح ایک دست شناس ہاتھ کی لکیریں دیکھ کر آپ کے مستقبل کی پیش گوئی کرسکتا ہے۔اسی طرح اپنے ہاتھ کی چوتھی انگلی پر نظر ڈال کر آپ یہ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ آپ کی شخصیت دوسروں کے لئے کتنی پرکشش اور جاذب نظر ہے۔حال ہی میں یونیورسٹی آف جنیوا میں کی جانے والے ایک سائنسی مطالعے سے ظاہر ہوا ہے کہ مرد کے ہاتھ کی چوتھی انگلی اگردوسری انگلی کے مقابلے میں جس نسبت سے بڑی ہوگی تو اس کا چہرہ صنف مخالف کے لئے اتنا ہی پرکشش ہوگا۔چوتھی انگلی کو انگوٹھی کی انگلی بھی کہا جاتا ہے جبکہ دوسری انگلی بالعموم شہادت کی انگلی کہلاتی ہے۔ڈاکٹر کیملی فرڈینزی کی سربراہی میں ہونے والی اس تحقیق کے دوران 49 رضاکار مردوں کی چوتھی اور دوسری انگلیوں کی لمبائی کی پیمائش کی گئی اور ان میں پایا جانے والا تناسب ریکارڈ کیا گیا۔اس کے بعد ان مردوں کی تصویریں مختلف خواتین کے سامنے رکھی گئیں اور ان سے کہا گیا کہ وہ مردانہ وجاہت اور کشش کے لحاظ سے تصویروں کی درجہ بندی کریں۔جب اس درجہ بندی کا موازنہ چوتھی انگلی کی لمبائی سے کیا گیا تو ماہرین کو پتا چلا کہ جن مردوں کی چوتھی انگلی ، دوسری انگلی کی نسبت زیادہ لمبی تھی، خواتین نے انہی کو پرکشش قرار دیاتھا۔ دلچسپ بات یہ ہے انگلی کی لمبائی کا تناسب جتنا زیادہ تھا، وہ چہرہ خواتین کے لئے اتنا ہی زیادہ پرکشش تھا جبکہ خواتین کو انگلیوں کی ساخت کے بارے میں کچھ نہیں بتایا گیا تھا۔تحقیق کے دوران خواتین کو ایک سوال نامہ مکمل کرنے کے لئے کہا گیا جس میں ایک یہ سوال بھی موجود تھا کہ ان تصویروں میں سے وہ کس مرد کو اپنا جیون ساتھی چننا پسند کریں گی۔ انہوں نے جن تصویروں کا انتخاب کیا، وہ انہی مردوں کی تھیں جن کی چوتھی انگلی نمایاں طور پر لمبی تھی۔ جب کہ خواتین کو مردوں کی مالی حیثیت وغیرہ کے بارے میں بھی بتایا گیا تھا۔ڈاکٹر فیردنزی کا کہنا ہے کہ ہمیں اپنی تحقیق سے یہ پتہ چلا ہے کہ خواتین نے لمبی چوتھی انگشت کے مردوں کو اس لئے بھی پسند کیا کیونکہ ان میں مردانہ وجاہت بھی زیادہ تھی۔اس سے قبل ایک اور سائنسی مطالعے سے یہ ظاہر ہوچکا ہے کہ مردوں کی چوتھی انگلی کی لمبائی جتنی زیادہ ہوتی ہے ، ان میں جنسی ہارمونز کی مقدار بھی اتنی ہی زیادہ ہوتی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ہارمونز کی مقدار مردوں کی شخصیت پر اثرانداز ہوتی ہے اور زیادہ ہارمونز انہیں زیادہ پرکشش بناتے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے انگلیوں کی لمبائی سے متعلق ایک اور تحقیق سے یہ معلوم ہوا تھا کہ اسٹاک ایکس چینج اور دیگر کاروباری اداروں کی کامیاب شخصیات کی چوتھی انگلی کی لمبائی غیر معمولی طورپر زیادہ تھی۔ڈاکٹر فیرونزی کا یہ بھی کہنا تھا کہ صرف انگلیوں کی ساخت اور لمبائی سے ہی جنسی ہارمونز کی مقدار کا تعین نہیں ہوتابلکہ پسینے کی مخصوص بو اور آوا ز سے بھی اس کی جانچ کی جاسکتی ہے لیکن یہ وہ چیزیں ہیں عمر بڑھنے اور بلوغت کے بعد مرد میں ظاہر ہوتی ہیں جبکہ انگلیاں ماں کی کوکھ سے ہی بچے کے ساتھ آتی ہیں۔
پیٹ:پر گوشت جس کو ہندی میں توند کہتے ہیں‘ علامت نعمت و دولت ہے۔پیٹ کا بڑا اور بے گوشت ہونا علامت نکبت و فلاکت مفلسی و محتاجی کی ہے۔
ناف:عمیق خوش گوشت علامت دولت و مال ہے۔
ران:ران پر گوشت مثل ران آہوعلامت دولت و ثروت ہے۔گھوڑے کی ران کے مانند ہونا علامت دہقانی اور کشادہ روزی کی ہے۔شیر کی ران کی مانند ہوناعلامت دولت و مال کی ہے۔بہت بڑی اور کم گوشت و بد نما ہونا ران کا نردلی کی دلیل ہے۔
پنڈلی:پنڈلی پر گوشت اور خوش اندام ہونا علامت دولت ہے۔پنڈلی قوی ہونا مثل جاسوس کی پنڈلی کے علامت خوبصورت عورت ملنے کی ہے۔
پاوں:پاوں کا خوش اندام و پر گوشت ہوناعلامت سعادت و دولت ہے۔کم گوشت اور تلوے کا گہرا ہوناعلامت سعادت و دولت ہے۔تلوے کا پر گوشت ہوناکہ تلوا زمین پر لگے‘علامت بدچلنی ہے۔
sarailliyasi@gmail.com+919811254615

230811 bholey bhaley awam ka kaisey ullu bana rahey hey baba by sara illiyasi

kiyo horaha hey khudkashiyo me izafa by sara illiyasi کیوں ہو رہا ہے خودکشیوں میں اضافہ؟


سارہ الیاسی
اگر ہم روزمرہ کے اخبارات کا جائزہ لیں تو ہمیں روزانہ کسی نہ کسی کی خودکشی کی خبر نظر آئے گی۔اس سلسلے میںتازہ موصولہ اطلاعات کے مطابق ہندوستان میں رہنے والے نوجوانوں میں خودکشی کے رجحان میں خطرناک حد تک اضافہ ہوگیا ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق معاشی اورگھریلومسائل کی وجہ سے ملک میں ہرگھنٹے کے دوران 15 نوجوان موت کو گلے لگا رہے ہیں۔ہندوستان کے نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو نے بتایا ہے کہ ہر سال ایک لاکھ 31 ہزار 4 سو نوجوان اپنے ہاتھوں زندگی کا خاتمہ کر رہے ہیں۔بیورو کا کہنا ہے کہ ہر گھنٹے میں مایوس ہو کر 15 نوجوانوں کا موت کو گلے لگانا انتہائی تشویش ناک ہے جبکہ خودکشی کرنے والوں میں ہر 3 میں سے ایک کی عمر 15 سے 29 برس کے درمیان ہوتی ہے۔سماجی ماہرین کا کہنا ہے کہ نوجوانوں میں خودکشی کے واقعات بڑھنے کا سبب عالمگیریت کی وجہ سے پیدا ہونے والی سماجی مسائل، مشترکہ خاندانی نظام کی ٹوٹ پھوٹ، والدین کی عدم توجہ جذباتی سہاروں سے محرومی ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ بڑھتے ہوئے معاشی مسائل بھی عام افراد کو زندگی سے مایوس کر رہے ہیں۔گویا کہ اصل سبب مایوسی ہوا جبکہ اہل علم کے نزدیک اسلام میں مایوسی کوکفر ‘شرک‘ بدعت‘جھوٹ ‘ غیبت اور بے حیائی کی طرح حرام قرار دیا گیاہے۔اس کے باوجود ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں سالانہ دس لاکھ افراد خودکشی کرتے ہیں اور ایک سے دو کروڑ انسان اس کی کوشش کرتے ہیں۔ غریب اور پسماندہ ممالک میں خود کشی کرنے والوں کی شرح نسبتاً زیادہ ہے۔ اگر ہم خود کشی کی وجوہات کا جائزہ لیں تو صرف اور صرف ایک ہی وجہ نظر آتی ہے جسے مایوسی یا Frustration کہا جاتا ہے۔ یہ وہ چیز ہے جس کا شکار تقریباً ہر انسان ہوتا ہے۔ بعض افراد میں یہ مایوسی اتنی شدت تک پہنچ جاتی ہے کہ وہ اپنی زندگی کے خاتمے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس موضوع پر بہت کچھ لکھا جاچکا ہے۔ عام طور پر ان مسائل کے حل کی جو تجاویز دی جاتی ہیں ، وہ اجتماعی سطح پر دی جاتی ہیں جن پر عمل حکومت یا بڑے بڑے ادارے ہی کر سکتے ہیں۔ اس کے برعکس ہماری اس تحریر کا مخاطب وہ لوگ ہوں گے جو کسی نہ کسی قسم کی مایوسی کا شکار ہیں۔ اس تحریر میں ہم یہ جائزہ لینے کی کوشش کریں گے کہ انسانوں میں مایوسی کیوں پیدا ہوتی ہے اور اس کے تدارک کا طریقہ کار کیا ہے؟ کیا اللہ تعالیٰ نے اپنے دین میں ہمیں اس کے متعلق کچھ تعلیمات دی ہیں ؟ ہم کن طریقوں سے اپنے اندر مایوسی کو کم کر سکتے ہیں اور زیادہ سے زیادہ خوشیاں سمیٹ سکتے ہیں؟
علم نفسیات میں مایوسی کو خیبت بھی کہا جاتا ہے۔ پاکستان کے ممتاز ماہر نفسیات حمیر ہاشمی جن کی تصنیفات امریکہ اور کینیڈا کی یونیوسٹیوں کے نصاب میں شامل ہیں ، مایوسی کی تعریف کچھ اس طرح کرتے ہیں کہ مایوسی یا خیبت ہم اس احساس کو کہتے ہیں جو ایک شخص اپنی کسی خواہش کی تسکین نہ ہونے کے طور پر محسوس کرتا ہے، مثلاً اگر ایک طالب علم امتحان میں پاس ہونا چاہے لیکن فیل ہو جائے تو وہ خیبت یا مایوسی سے دوچار ہوگا یا اگر کوئی کھلاڑی کھیل کے میدان میں مقابلہ جیتنا چاہے لیکن ہار جائے تو وہ خیبت کا شکار ہوگا جبکہ حقیقت یہ ہے کہ کھیلوں کا بنیادی مقصد جہد مسلسل کا جذبہ قائم رکھنا ہے۔بقول علامہ اقبال:
پلٹنا‘جھپٹنا‘ پلٹ کر جھپٹنا
لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانا
بہر کیف ماہر نفسیات موصوف کی مانیں تواب اگر ہم مذکورہ تعریف میں اپنے آپ کا اور اپنے گرد وپیش کے افراد کا جائزہ لیں تو پتہ چلے گا کہ دنیا کا ہر شخص اپنی زندگی میں مایوسی یا خیبت کا شکار رہا ہے اور جب تک کسی شخص کے سانس میں سانس ہے، وہ خیبت سے دوچار ہوتا رہے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کسی بھی شخص کی تمام خواہشات کی تسکین اس کی مرضی کے عین مطابق ممکن ہی نہیں ہوتی، اس لئے وہ کسی نہ کسی حد تک مایوسی کا شکار رہے گا۔ تاہم کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جن میں یہ احساس زیادہ شدید نہیں ہوتا اور کچھ لوگ ایسے ہیں، جن میں یہ احساس شدید حد تک پایا جاتا ہے۔ کسی کو شک ہو تو وہ حمیر ہاشمی کی نفسیات، ص 772-773کا مطالعہ کر سکتا ہے۔ سادہ الفاظ میں اگر کوئی شخص کسی چیز کی خواہش کرے اورکسی وجہ سے وہ خواہش پوری نہ ہوسکے تو اس کے نتیجے میں اس کے دل ودماغ میں جو تلخ احساس پیدا ہوتا ہے، اسے مایوسی کہتے ہیں۔لہٰذامایوسی کی اقسام کا جائزہ لیں تو پتہ چلے گا کہ اصل میں مایوسی بنیادی طور پر دو طرح کی ہوتی ہے، ایک تو وہ جو ہمارے بس سے باہر ہے اور دوسری وہ جو ہمارے اپنے کنٹرول میں ہوتی ہے۔ ناقابل کنٹرول مایوسی کی مثال ایسے ہے جیسے کوئی شخص یہ چاہتا ہے کہ اس کا بچہ زندہ رہے اور بڑا ہو کر اس کی خدمت کرے۔ کسی وجہ سے اس بچے کی موت واقع ہوجائے اور اس شخص کی یہ خواہش پوری نہ ہوسکے تو یہ ناقابل کنٹرول مایوسی کہلاتی ہے۔ اسی طرح جب ہم فطری حوادث جیسے سیلاب، زلزلہ اور طوفان میں لوگوں کو ہلاک ہوتے دیکھتے ہیں تو اس سے ہمارے دل میں جو غم، دکھ یا مایوسی پیدا ہوتی ہیں وہ ناقابل کنٹرول ہوتی ہے۔ یہ وہ معاملات ہیں جن میں انسان کچھ نہیں کرسکتا۔ اس قسم کی مایوسی کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے اپنے دین میں یہ ہدایت دی ہے کہ انسان کو چاہئے کہ ایسے معاملات میں وہ اللہ کی پناہ پکڑے اور صبر اور نما زکی مدد سے اس مایوسی کو کم کرے۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے : وَاستَعِن ±وا بِالصّ....ِ رَاجِعونَ۔ (البقر? 2:45-46) ’صبر اور نماز سے مدد چاہو۔ بے شک یہ (اللہ سے) ڈرنے والوں کے علاوہ (دوسرے لوگوں کے لئے )بہت مشکل ہے۔ (اللہ سے ڈرنے والے تو وہ ہیں) جو یہ یقین رکھتے ہیں کہ انہیں اپنے رب سے ملنا ہے اور انہیں اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔‘ اس آیت میں یہ حقیقت بھی بیان کردی گئی ہے کہ یہ آفات کوئی بڑی چیز نہیں ہیں اس لئے کہ ایک دن سب نے ہی اپنے رب سے ملاقات کرنے کے لئے اس دنیا سے جانا ہے۔ اگر انسان حقیقت پسند ہو اور کائنات کی اس بڑی حقیقت کو قبول کرلے تو پھر اسے صبر آ ہی جاتا ہے اور یوں اس کی مایوسی کے زخم مندمل ہو جاتے ہیں کیونکہ چند روزہ زندگی کے بعد ایک لامحدود زندگی اس کے سامنے ہوتی ہے جہاں نہ کوئی دکھ ہو گا اور نہ کوئی غم۔ اگر ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کا جائزہ لیں تو ہمیں یہ معلوم ہوگا کہ آﷺ نے ہر ایسے معاملے میں اللہ کی پناہ پکڑی ہے اور جب بھی آپ کو کسی مشکل کا سامنا کرنا پڑا تو آپ نے نماز کے ذریعے اپنے رب کی طرف رجوع کر کے ذہنی سکون حاصل کیا اور اس مصیبت پر صبر کیا۔ اس کا احساس ہمیں آپ کی دعاوں سے ہوتا ہے۔ دوسری قسم کی مایوسی وہ ہوتی ہے جو انسانی وجوہات سے ہوتی ہے اور اگر انسان چاہے تو اسے کم سے کم حد تک لے جا سکتا ہے۔ اس قسم کی مایوسی کی بہت سی وجوہات ہیں۔ ہم ان میں سے ایک ایک پر بحث کرکے ان کا حل تجویز کرنے کی کوشش کریں گے۔
دنیادارالامتحان ہے، ہر وقت , ہر منزل پرآدمی کو نئے نئے مسائل ومشکلات سے گزرنا پڑتا ہے اور وہی شخص اس میں کامیاب ہے جو ہر طرح کی مشکلات کا پامردی سے مقابلہ کرے‘جس خالق کائنات نے انسان کو پیدا کیا،مہد سے لحد تک اس کی حفاظت ونگرانی کی اس کو سکون و راحت کی نعمت سے سرفراز کیا، جب وہی خدا اپنے بندوں کا مصائب ومشکلات کے ذریعہ امتحان لیتا ہے تو بعض لوگ مشکلات وآزمائش میں صبر کا دامن چھوڑ بیٹھتے ہیں اور جلد بازی اور بے صبری میںمایوسی کا شکار ہوتے ہوئے متاع حیات ہی کو ختم کردیتے ہیںجبکہ وہ موت کے بعد بھی چین وسکون حاصل نہیں کرسکتے۔ کوئی سرپھرا عشق میں ناکامی پر خودکشی جیسے سنگین جرم کا ارتکاب کررہا ہے اور کوئی طالب علم امتحانات میں ناکا می کے باعث مایوس ہوکر خودکشی جیسے سنگین جرم کا ارتکاب کررہاہے جبکہ دین اسلام نے خود کشی کو حرام اور گناہ کبیرہ قرار دیا ہے، خودکشی اللہ تعالی کی رحمت سے مایوسی کفر ہے۔ گویاانسان اپنے جسم و جان کا خود مالک نہیں ہے بلکہ صرف امین ہے، اس لئے اس کو خلاف مرضی خدا استعمال نہیں کرسکتا ، ارشاد الہی کا ترجمہ یوں ہے کہ:اور تم اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو۔ (سورہ البقرة:195)۔نیز سور? النساءمیں ارشاد ہے:وَلَا تَقتلواَنفسکم.... ترجمہ: اور اپنے آپ کو قتل نہ کرو،بیشک اللہ تم پر نہایت مہربان ہے” اور جو ظلم و زیادتی کی بنیاد پر اس کا ارتکاب کربیٹھے تو عنقریب ہم اسے جہنم میں ڈال دیں گے اور یہ کام اللہ پر آسان ہے(سورة النساء: 29/30) اگر کوئی مصیبت پہنچ جائے تو ہم اپنی زندگی کا خاتمہ کرکے اس مصیبت سے نجات توحاصل نہیں کرسکتے،حضرت ﷺنے ارشاد فرمایا کہ خودکشی کرنے والے لوگوں کودوزخ میں اسی طرح کا عذاب دیا جائےگا جس طرح اس نے اپنے آپ کو قتل کیا ہو گا۔صحیح بخاری،صحیح مسلم میں سیدنا ابو ہرہ رہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ ترجمہ:حضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جس کسی نے پہاڑ سے گر کر خودکشی کرلی وہ جہنم کی آگ میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اسی طرح گرتا رہے گا۔ جس کسی نے زہر پی کر خودکشی کرلی تو زہر اس کے ہاتھ میں ہوگا اور جہنم کی آگ میں وہ ہمیشہ ہمیشہ زہر پیتا رہے گا اور جس نے لوہے کے ہتھیار سے خودکشی کرلی تو وہ ہتھیار اس کے ہاتھ میں ہوگا جس سے وہ جہنم کی آگ میں مسلسل اپنا پیٹ چاک کرتا رہے گا ۔(صحیح بخاری شریف، باب شرب السم ‘حدیث نمبر:5778-صحیح مسلم شریف ،حدیث نمبر:313) صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں حدیث پاک ہے‘ترجمہ:حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے ،آپ نے فرمایا کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اگر کسی کو تکلیف پہنچے تو وہ ہرگز موت کی تمنا نہ کرے۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہہ سکتا ہے کہ اے اللہ! مجھے اس وقت تک زندہ رکھ جب تک میرے لئے زندگی بہتر اور خیر کی ہو اور اگر میرے لئے موت بہتر ہو تو مجھے موت دیدے۔(صحیح بخاری ‘حدیث نمبر:5671)جو لوگ عارضی اور وقتی مصیبتوں سے بچنے کے لئے خود کشی کرتے ہیں، اس سے بڑی مصیبتیں ان کی منتظر رہتی ہیں۔ مصائب ومشکلات سے تنگ آ کر یا امتحانات میں ناکا م ہونے کی بنا پر خود کشی نہ کی جائے بلکہ اس بات کا یقین رکھیں کہ زندگی اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے۔ مصیبت آج ہے کل ٹل جائے گی ،آج ناکام ہوئے کل کامیاب ہوجائینگے،ہمیں حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے اسوہ حسنہ کے مطابق کامل توکل اور قناعت اختیار کرنا چاہئے۔انسان کسی بھی مصیبت پر دکھی نہ ہو بلکہ جو بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے فیصلہ ہو ، اسے دل و جان سے قبول کرلے،اللہ تعالیٰ نے جس قدر عطا فرمایا ہے اسی پر خوش رہے،اس سے زیادہ کی کوشش اگر چہ انسان ضرورکرتا ہے لیکن جو بھی اسے مل جائے اسے اپنے رب کی اعلیٰ ترین نعمت سمجھتے ہوئے خوش رہے اور جو اسے نہیں ملا ، اس پر غمگین نہ ہو ںبلکہ ہمیشہ اللہ کی رحمت سے امید رکھتے ہوئے اپنی کوششوں کو جاری رکھے، انشاءاللہ فتح ونصرت مقدر بنے گی۔
 sarailliyasi@gmail.com+919811254615ا

191011 kiyo horaha hey khudkashiyo me izafa by sara illiyasi