Monday, October 31, 2011

qurbani pe shuru qurbani par khatam by sarailliyasi اسلامی سال؛قربانی پر شروع ‘قربانی پر ختم


سارہ الیاسی
اللہ کی عجب شان ہے کہ ہجری سن جس کی ابتداءدین کیلئے وطن چھوڑنے کی قربانی سے ہوئی اس کا پہلا مہینہ محرم الحرام نواسہءرسول کی میدان کربلا میں قربانی کا حامل ہے وہیں سال کا آخری مہینہ ذوالحجہ اطاعت باری تعالی میںجذبات کی قربانی کی ترغیب سمیٹے ہوئے ہے جو قیامت تک کے آنے والے انسانوں کیلئے بہترین رہنمائی ہے۔اسلامی سال کا بارہواں مہینہ ذوالحجہ ہے اس کی وجہ تسمیہ ظاہر ہے کہ اس ماہ میں لوگ حج کرتے ہیں اور اس کے پہلے عشرے کا نام قرآن مجید میں ’ایام معلومات‘ رکھا گیا ہے یہ دن اللہ کریم کو بہت پیارے ہیں۔ اس کی پہلی تاریخ کو سیدہ عالم حضرت خاتونِ جنت فاطمہ زہراءرضی اللہ تعالیٰ عنہا کا نکاح سیدنا حضرت شیر خدا علی مرتضیٰ کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم کے ساتھ ہوا۔اس ماہ کی آٹھویں تاریخ کو یومِ ترویہ کہتے ہیں؛ کہ حجاج اس دن اپنے اونٹوں کو پانی سے خوب سیراب کرتے تھے تاکہ عرفہ کے روز تک ان کو پیاس نہ لگے۔ یا اس لئے اس کو یوم ترویہ یا غوروفکرکہتے ہیں کہ سیدنا حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیٰ نبینا و علیہ الصلوٰة والسلام نے آٹھویں ذی الحجہ کو رات کے وقت خواب میں دیکھا تھا کہ کوئی کہنے والا کہہ رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ تجھے حکم دیتا ہے کہ اپنے بیٹے کو ذبح کر‘ تو آپ نے صبح کے وقت سوچا اور غور کیا کہ آیا یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے یا شیطان کی طرف سے؟ اس لئے اس کو یومِ ترویہ کہتے ہیں جبکہ اس کی نویں تاریخ کو عرفہ کہتے ہیں‘کیوں کہ سیدنا حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰة والسلام نے جب نویں تاریخ کی رات کو وہی خواب دیکھا تو پہچان لیا کہ یہ خواب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے!لہذااسی دن حج کا فریضہ سر انجام دیا جاتا ہے۔دسویں تاریخ کو یوم نحر کہتے ہیں؛ کہ اسی روز سیدنا حضرت اسماعیل علیہ الصلوٰة والسلام کی قربانی کی صورت پیدا ہوئی اس لئے اسی دن عام مسلمان قربانیاں ادا کرتے ہیں۔اس ماہ کی گیارہ تاریخ کو’ یوم القر‘ اوربارہویں، تیرہویں کو ’ یوم النفر’ کہتے ہیں اور اس ماہ کی بارہویں تاریخ کو حضور سراپا نور شافع یوم النشور صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے بھائی چارہ قائم فرمایا تھا جس کی تفصیل فضائل الایام والشہورمیں وارد ہے۔
کیا ہے ماہِ ذو الحجہ کی فضیلت؟ذوالحجہ کا مہینہ چار برکت اور حرمت والے مہینوں میں سے ایک ہے۔ اس مبارک مہینہ میں کثرتِ نوافل، روزے، تلاوت قرآن، تسبیح و تہلیل، تکبیر و تقدیس اور صدقات و خیرات وغیرہ اعمال کا بہت بڑا ثواب ہے۔ اور بالخصوص اس کے پہلے دس دنوں کی اتنی فضیلت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس عشرہ کی دس راتوں کی قسم یاد فرمائی ہے۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:قسم ہے مجھے فجر کی عیدِ قربان کی اور دس راتوں کی جو ذوالحجہ کی پہلی دس راتیں ہیں۔ اور قسم ہے جفت اور طاق کی جو رمضان مبارک کی آخری راتیں ہیں، اور قسم ہے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کے معراج کی رات کی۔اس قسم سے پتہ چلتا ہے کہ عشرہ ذی الحجہ کی بہت بڑی فضیلت ہے۔
ماہِ ذو الحجہ کی فضیلت احادیث مبارکہ کی روشنی میںکیا ہے؟مسلم شریف میںحدیث وارد ہے کہ: سیدہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول خدا حبیب ِ کبریا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس وقت عشرہ ذی الحجہ داخل ہوجائے اور تمہارا کوئی آدمی قربانی کرنے کا ارادہ رکھتا ہو تو چاہئے کہ بال اور جسم سے کسی چیز کو مس نہ کرے۔ایک روایت میں ہے کہ فرمایا کہ بال نہ کترائے اور نہ ناخن اتروائے۔ مشکوٰة شریف کی ایک روایت میں ہے کہ جو شخص ذی الحجہ کا چاند دیکھ لے اور قربانی کا ارادہ ہو تو نہ بال منڈائے اور نہ ناخن ترشوائے۔ سیدنا حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے یوں فرمایا کہ رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کوئی دن ایسا نہیں ہے کہ نیک عمل اس میں ان ایام عشرہ سے اللہ تعالیٰ کے نزدیک زیادہ محبوب ہو۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جہاد فی سبیل اللہ بھی نہیں ؟ فرمایا : جہاد فی سبیل اللہ بھی نہیں ! مگر وہ مرد جو اپنی جان اور مال لے کر نکلا اور ان میں سے کسی چیز کے ساتھ واپس نہیں آیا (یعنی شہادت)۔مشکوة شریف میں وارد ہے کہ:ان دس دنوں سے۔ ان دنوں میں ایک دن کا روزہ سال کے روزوں کے برابر ہے اور اس کی ایک رات کا قیام سال کے قیام کے برابر ہے۔
کیا آپ جانتے ہیں عشرہ ذی الحجہ کی فضیلت؟جو شخص ان دس ایام کی عزت کرتا ہے اللہ تعالیٰ یہ دس چیزیں اس کو مرحمت فرماکر اس کی عزت افزائی کرتا ہے (۱) عمر میں برکت (۲) مال میں افزونی (۳) اہل و عیال کی حفاظت (۴) گناہوں کا کفارہ (۵) نیکیوں میں اضافہ (۶) نزع میں آسانی (۷) ظلمت میں روشنی (۸) میزان میں سنگینی یعنی وزنی بنانا (۹) دوزخ کے طبقات سے نجات (۹) جنت کے درجات پر عروج۔غنیہ الطالبین میں وارد ہے کہ جس نے اس عشرہ میں کسی مسکین کو کچھ خیرات دی اس نے گویا اپنے پیغمبروں علیہم السلام کی سنت پر صدقہ دیا۔ جس نے ان دنوں میں کسی کی عیادت کی اس نے اولیاءاللہ اور ابدال کی عیادت کی ، جو کسی کے جنازے کے ساتھ گیا اس نے گویا شہیدوں کے جنازے میں شرکت کی، جس نے کسی مومن کو اس عشرہ میں لباس پہنایا، اللہ تعالیٰ اس کو اپنی طرف سے خلعت پہنائے گا جو کسی یتیم پر مہربانی کرے گا ، اللہ تعالیٰ اس پر عرش کے نیچے مہربانی فرمائے گا، جو شخص کسی عالم کی مجلس میں اس عشرہ میں شریک ہوا وہ گویا انبیا اور مرسلین علیہم السلام کی مجلس میں شریک ہوا۔
ذوالحجہ کے پہلے نو دنوں کے روزوں کی فضیلت کیا ہے؟ذوالحجہ مبارک کے پہلے عشرہ کے پہلے نو دن روزہ رکھنا بڑا ثواب ہے۔مشکوٰة شریف میں ام المو ¿منین سیدہ حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں:۴ چیزوں کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نہیں چھوڑا کرتے تھے۔ عاشورہ کا روزہ اور ذولحجہ کے دس دن یعنی پہلے نو دن کا رن کا روزہ اور نماز فجر سے قبل دورکعتیں۔
ذو الحجہ شریف میں رونما ہونے والے اہم واقعات: اعلان نبوت کے بارہویں سال اہل مدینہ کی جانب سے تیسری بیعت عقبہ جس میں مرد اور دو عورتیں مشرف بہ اسلام ہوئیں ، اہل مدینہ کیلئے بارہ نقیب مقرر ٭ حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ، کی ولادت بمقام'قباء٭ غزوہ سویق ٭ سیدتنا فاطمہ رضی اللہ عنہا بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شادی ٭ غزوہ بنی قریظہ ٭ وفات حضرت سعد بن معاذ سید الاوس ٭ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ امیر حج بنے٭ حج? الوداع (عرفات اور منیٰ میں عظیم خطبات کے ذریعہ منشور انسانیت کا اعلان)٭ حجة الوداع سے واپسی پر خطبہ غدیر خم میں حضرت علی کو مولائے کائنات کا منصب اور اہلبیت کو قرآن کی عملی تفسیر اور ھادی قرار دیا۔٭ وفات ابو العاص (دامادِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم)۔ ٭ وفات یزید بن ابی سفیان ٭ وفات سعد جمحی ٭ حضرت عمررضی اللہ تعالی عنہ پر قاتلانہ حملہ٭ پہلی بحری جنگ (دور حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ) ٭تعمیر نہر بصرہ ٭شہادتِ حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ تعالی عنہ وخلافت حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ ٭ وفات محمد بن ابی بکر رضی اللہ تعالی عنہ ٭ وفات عثمان جمحی رضی اللہ تعالی عنہ ٭ وفات حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالی عنہ ٭ وفات عاصم بن عدی رضی اللہ تعالی عنہ٭وفات جریر بن عبداللہ البجلی٭ وفات عبداللہ بن انیس رضی اللہ تعالی عنہ ٭فتح سمرقند ٭ یزیدیوں کے ہاتھوں حرمین طیبین کی بے حرمتی (واقعہ حَرہ) ٭ ترمیم کعبة اللہ شریف ٭ کوفہ پر بنو امیہ کا قبضہ ٭ تعمیر نو کعبة اللہ شریف ٭ حجاج امیر کوفہ ہوا وغیرہ شامل ہیں۔
sarailliyasi@gmail.com+919811254615

311011 qurbani pe shuru qurbani par khatam by sarailliyasi

kiya badh rahey hey jaraim by sara illiyasi کیوں بڑھ رہے ہیں جرائم؟


سارہ الیاسی
ہندوستان میںدین سے دوری کے سبب جرائم 2009 کے مقابلے میں 2010 میں پانچ فیصد بڑھ گئے ہیں۔خود نیشنل کرائم ریکارڈس بیورو کے تازہ اعداد و شمارحقائق کا انکشاف کررہے ہیں۔ غور کیجئے کہ جنسی استحصال کے معاملات میں پولیس نے 94.5 فیصد ملزمان کے خلاف چارج شیٹ پیش کی مگر ان میں سے صرف 26.6 فیصد کو ہی وہ سزا دلوا سکی۔ جہیز قتل کے معاملات میں سزا دلوانے کی شرح 33.6 رہا۔دراصل جرم کی کوئی ایسی قسم نہیں ہے جس میں 39 فیصد سے زیادہ ملزموں کو سزا دلانے میں فرد جرم فریق کو کامیابی ملی ہوجبکہ ہماری استغاثہ نظام یا تو کام کے بوجھ سے دبی ہوئی ہے یا پھر وہ اتنی کارگرنہیں ہے کہ مقدمات کو ان کی منطقی نتیجہ تک لے جانے میں کامیاب رہے۔ اگر مجرمانہ انصاف کے نظام اتنی لچر ہو ، تو مجرموں کی بے خوفی پر حیران ہونے کی کیا ضرورت ہے؟اعداد و شماربتاتے ہیں کہ یوں تو 2010 میں سارے ملک میں جرائم بڑھے لیکن خاص طور پر شہروں میں خواتین کے خلاف ہونے والے جرم میں شدید اضافہ ہوا لیکن یہ اعداد و شمار اس معنی میںخوفناک سمجھے جا سکتے ہیں کہ ملک کے جن علاقوں ، خاص طور پر دیہی علاقوں میں ، جہاں خواتین کی سماجی حیثیت بہت کمزور اور عوامی بیداری کم ہے اور جہاں متاثرین کو مدد دینے کے لئے خواتین کی تنظیموں کا فقدان ہے ، وہاں بہت سے سنگین جرم بھی پولیس کے دستاویزات میں درج نہیں ہو پاتے۔ اس لیے اےن سی آرکی رپورٹ بھی ملک میں جرائم کی پوری تصویر نہیںپیش کرسکتی۔بہر حال تازہ رپورٹ سے دو اور انتہائی تشویشناک حقائق سامنے آئے ہیں۔ گزشتہ سال 1لاکھ33ہزار9سو38 افراد کی جان سڑک حادثوں میں چلی گئی۔ یہ اپنے ملک میں سڑکوں اور ٹریفک نظام کی دردناک حالت کی عکاسی کرتی جبکہ دوسری جانب1لاکھ34ہزار5سو 99افرادنے خود کشی کر لی جو سماج میں بڑھتی ہوئی کشیدگی ، علیحدگی اور رشتوں کے انتشار کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ سارے وہ پہلو ہیں جنھیں کوئی بے حس معاشرہ ہی نظر انداز کر سکتا ہے۔ایسے میں ضروری ہوجاتاہے کہ اس کے عوامل کو تلاش کرکے خاطر خواہ تدارک کیا جائے۔
سوال یہ ہے کہ معاشرے میں بڑھتی ہوئی کشیدگی ، علیحدگی اور رشتوںکی ٹوٹ پھوٹ آئی کہاں سے؟دراصل اس کے پیچھے مقصدحیات سے دوری کارفرما ہے۔ا نسان کی تخلیق کا مقصد اللہ تعالی نے اپنی عبادت رکھا ہے‘ اس لئے انسان کو نہ تو رزق کے معاملے میں زیادہ پریشان ہونا چاہئے اور نہ ہی دنیا کے حصول کیلئے اپنے آپ کو کھپا دینا چاہئے بلکہ اللہ تعالی نے اس کے رزق کا ذمہ خود لیا ہے جبکہ انسان کو جرائم سے پاک دین کے مطابق زندگی بسر کرنے کا پابند کیا ہے۔اس لئے اللہ تعالی نے ہر انسان کو شعور بخشا ہے اور اس کو فطرت اسلام پر پیدا فرمایا تاکہ یہ اپنی گمراہی کو بے علمی کے عذر سے پیش نہ کر سکے۔اس لئے اللہ تعالی نے ہر انسان کو مختلف طریقوں سے یہ باور کروا دیا ہے کہ کوئی خالق ومالک اور کوئی ایسی ہستی ہے جو سارا نظام چلا رہی ہے اور اس دنیا کی ہر چیز کو کنٹرول کئے ہوئے ہے۔اس لئے ہر مسلمان کو جن چیزوں معرفت ضروری ہے ان میں سب سے پہلے اللہ تعالی کی ذا ت عالی کی معرفت ہے۔ اللہ تعالی نے زمین وآسمان ،سورج،چاند اور ستاروں،شجر حجر اور پہاڑوں سے اور دنیا کے نظام سے اپنی معرفت کروائی ہے اور حتی کہ فرمان باری تعالی کے مطابق خود انسان کی اپنی جا ن میں بہت ساری نشانیاں موجود ہیں۔اللہ تعالی کے اسماءحسنی میں غور و خوص اور اس کی دعوت معرفت حاصل کرنے کا ذریعہ ہیں۔ یہاں چند باتیں ترتیب وار سمجھنے کی ہیں۔ اول یہ کہ اللہ تبارک وتعالی اور اس کے اسماءحسنی اور صفات کا علم مطلق طور پر سب سے اعلی اور اشرف علم ہے کیونکہ علم کا شرف معلوم یعنی جس کا علم حاصل کیا جارہا ہے اس کے شرف سے ثابت ہوتا ہے اور اس علم میں جس کا علم حاصل کیا جارہا ہے وہ اللہ سبحانہ وتعالی اور اس کے اسماءوصفات کا علم ہے ، تو اس علم کے حصول میں مشغول ہونا اور اس کی فہم حاصل کرنا بندے کیلئے سب سے اعلی اور اشرف کام ہے۔ اسی لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بہت ہی واضح طور پر بیان فرما دیا اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اسے بیان کرنے کے اہتمام کی بنا ءپر ہی صحابہ اکرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے اس میں کوئی اختلاف نہیں کیا جس طرح کہ بعض دوسرے احکام میں اختلاف کیا ہے۔دوسرے یہ کہ اللہ تعالی کی معرفت اس بات کی دعوت دیتی ہے کہ اللہ تعالی کی خشیت اور اس کی محبت اختیار کی جائے اوردل میں اسی کا خوف رکھا جائے اور اسی سے امیدیں وابستہ کی جائے اور اسی اللہ تعالی کیلئے ہی اپنے اعمال کی خالص کیا جائے جو کہ سعادت اور عین عبادت ہے ، اور اللہ تعالی کی معرفت اس وقت ہی حاصل ہو سکتی ہے جب اللہ تعالی کے اسماءحسنی کی معرفت حاصل ہو اوران کے معانی کوسمجھا جائے۔تیسرے یہ کہ اللہ تعالی کی اسماءحسنی ساتھ معرفت ایمان میں زیادتی کا باعث ہے ، شیخ عبدالرحمان بن سعدی رحمہ اللہ تعالی کا قول ہے کہ : اللہ تعالی کے اسماءحسنی پر ایمان لانا اور ان کی معرفت توحید کی تینوں اقسام ہیں : توحید ربوبیت اور توحید الوہیت اور توحید اسماءوصفات کومتضمن ہے ، اور یہ اقسام ایمان کی روح اور خوشی ہے ، اور روح کا معنی دل کوغمی سے خوشی اور راحت ہے، اور یہ ایمان کی اصل اور اس کی غایت ہے ،لہذا بندے اللہ تعالی کے اسماءحسنی اور اس کی صفات کی معرفت حاصل کرے گا اس کا ایمان بھی اتنا ہی زیادہ اور یقین قوی ہوگا۔ التوضیح والبیان لشجر الایمان للسعدی ص 41پر اس کی وضاحت موجود ہے۔چوتھے یہ کہ اللہ تبارک وتعالی نے مخلوق پیدا ہی اس لئے کیا ہے کہ وہ اسے پہچانیں اور اس کی عبادت کریں‘ یہی وہ چیز ہے جو کہ ان سے انتہاءمطلوب ہے۔ علامہ ابن قیم رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ رسولوں کی دعوت کا لب لباب اور اس کی کنجی معبود برحق کی معرفت وپہچان اس کے اسماءوصفات اور افعال کے ساتھ ہے ، اوراسی معرفت پر رسالت کی شروع سے لیکر آخر تک بنیاد اور دارو مدار ہے ۔توبندے کااللہ تعالی کی معرفت میں مشغول ہونا اس کام میں مشغول ہونا ہے جس کیلئے اللہ تعالی نے اسے پیدا فرما یا ہے ، اور اسے ترک و ضائع کرنا ایساکام ہے جس کے لئے بندہ پیدا کیا گیا ہے اسے نہ کرنا ہے ، اورایمان کا معنی یہ نہیں کہ صرف زبان سے کہہ دیا جائے اوراس کی معرفت اور علم حاصل نہ کیا جائے، اس لئے کہ حقیقت ایمان یہ ہے کہ بندہ اپنے اس رب کوجانے اور پہچانے اور اس کی معرفت حاصل کرے جس پر وہ ایمان لایا ہے ، اور اسے اللہ تعالی کی معرفت اسماءوصفات کے ساتھ حاصل کرنے میں کوشش کرنی چاہئے ، لہذااسے جتنی اللہ تعالی کی معرفت ہوگی اس کا ایمان بھی اتنا ہی زیادہ ہوگا۔پانچویں یہ کہ اللہ تعالی کے اسماءحسنی کا علم حاصل کرنا ہر معلوم کے ساتھ علم کا اصل ہے ، جیسا کہ ابن قیم رحمہ اللہ تعالی کا قول ہے کہ بیشک اللہ تعالی کے اسماءحسنی کا علم ہرمعلوم چیز کے علم کی اساس اوربنیاد ہے ، لہذا یہ معلومات اس کے سوا ہے یا تو اللہ تعالی کی مخلوق ہوگی یا پھر اس کا امر ، اوریا اس چیز کا علم ہوگا جس کی اللہ تعالی نے تکوین کی ہے ،اور یا اس کا علم ہوگا جواس نے مشروع کیا ہے ، اور خلق اور امر کےعلم کا مصدر اللہ تعالی کے اسماءحسنی ہیں ، اوریہ دونوں ( خلق و امر )اسماءکے ساتھ ایسے مرتبط ہے جس طرح کہ تقاضا کی گءچیز کا ارتباط تقاضا کرنے والے کے ساتھ ہو، اوراسماءحسنی کا شمار ہرمعلوم کے جاننے کا اصل ہے ، اس لئے کہ معلومات اس کا تقاضا ہیں اور ان سے مرتبط ہیں....
دوسرے دین کی معرفت بھی ضروری ہے۔ دنیا میں رہتے ہوئے انسان کو زندگی گزارنے کے لیے جو رہنمائی فراہم کی جاتی ہے اس کو وحی کا نام دیا گیا ہے اور اس کے ذریعے انسان کو اللہ تعالی کی مقرر کردہ حدود وقیود کا پابند کیاجاتا ہے تاکہ اس کی زندگی میں افراط وتفرط نہ آئے اور معتدل رویے سے زندگی بسر کرے۔لہذا انسان کیلئے یہ لازمی ہے کہ وہ اس وحی کو پہچانے اور اس کے مطابق زندگی بسر کرے اسی پہچان کا نام دین کی معرفت ہے۔تیسرے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی معرفت حاصل کی جائے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معرفت سے مراد یہ ہے کہ ان کو پیغمبر مان کر ان پر ایمان لایا جائے اور ان کی تعلیمات کو حرف آخر سمجھتے ہوئے اپنی زندگی کو اس کا پابند کیا جائے اور اس چیز کا عقیدہ رکھا جائے کہ آپ آخری پیغمبر ہیں اور آپ کے بعد نبوت کا سلسلہ ختم ہو گیا ہے۔
sarailliyasi@gmail.com+919811254615
301011 kiya badh rahey hey jaraim by sara illiyasi

Monday, October 24, 2011

bholey bhaley awam ka kaisey ullu bana rahey hey baba by sara illiyasi بھولے بھالے عوام کا کیسے الو بنا رہے ہیں بابا


سارہ الیاسی
 کیا آپ یقین کرسکتے ہیں کہ کسی کے چہرے کو دیکھ کر یا پڑھ کر اس کے کردار، افکار و دیگر خصوصیات کے متعلق پتہ کی باتیںبتادیناممکن ہے؟ہمارے معاشرے میں دینی مسائل سے ناواقفیت کی بناءپرلوگ کثرت سے نام نہاد عاملوں ،جادوگروں اور بنگالی باباوں کے دام تعویز میں پھنس کر متاع دنیا کےساتھ دولت ایمان بھی لٹا بیٹھتے ہیںجبکہ قرآن وسنت کی روشنی میں جادوٹونہ،علم نجوم اور جفرورمل وغیرہ قطعی ممنوع امور ہیں لیکن اس کے باوجود لوگوں کی ایک بڑی تعداد ان میں مشغول ہے ۔یہ دھوکے باز عام طور پر علم قیافہ کا سہارا لیتے ہوئے مخاطب کو اپنے فریب میں گرفتار کر لیتے ہیں۔ ان تمام معاملات کا قرآن وسنت کی روشنی میں جائزہ لینے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کرتے۔ ان کی ممانعت وقباحت ثابت کرنے کےساتھ ساتھ نجومیوں ،رملوں جفریوں ،کاہنوں اور نام نہاد عاملوں وغیر ہ کی کتابوں ،مقالوں ،اشتہاروں اور دعووں کی روشنی میں ان کی کذب وتضادبیانیاں پیش کرکے انہیں جھوٹا ثابت کیاگیا ہے۔اس سلسلے میںجھوٹے عاملوں کے مکروفریب سے بچنے کی غرض سے علم قیافہ آگاہی حاصل کرنا ضروری ہوجاتا ہے۔ صحیح بخاری میںکتاب الطلاق کے باب’ مسجد میں لعان کرنے کے بیان میںحدیث نمبر : 5309میں آیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ اگر ( لعان کرنے والی خاتون ) اس نے سرخ اور پستہ قد بچہ جنا جےسے وحرہ تو میں سمجھوں گا کہ عورت ہی سچی ہے اور اس کے شوہر نے اس پر جھوٹی تہمت لگائی ہے لیکن اگر کالا ، بڑی آنکھوں والا اور بڑے سرینوں والا بچہ جنا تو میں سمجھوں گا کہ شوہر نے اس کے متعلق سچ کہا تھا۔(عورت جھوٹی ہے ) جب بچہ پیدا ہو تو وہ بری شکل کا تھا ( یعنی اس مرد کی صورت پر جس سے وہ بد نام ہوئی تھی )اس حدیث سے علم قیافہ کا معتبر ہونا پایا جاتا ہے۔ مگر ہم کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بالہام غیبی علم قیا فہ کی وہ بات بتلائی جاتی جو حقیقت میں سچ ہوتی۔ دوسرے لوگ اس علم کی رو سے قطعاً کو ئی حکم نہیں دے سکتے۔ امام شافعی نے بھی علم قیافہ کو معتبر رکھا ہے، پھر بھی یہ علم یقینی نہیں بلکہ ظنی ہے۔ وحرہ یعنی چھپکلی کے مانند ایک زہریلا جانور ، پستہ قد عورت یا اونٹ کی تشبیہ اس سے دیتے ہیں۔دست شناسی اور تخاطر کی طرح قیافہ شناسی بھی ایک علم ہے جس کے بہت سے ماہرین موجود ہے اور اس موضوع پر کئی کتابیں بھی لکھی جاچکی ہیں۔ قیافہ شناسی علم رکھنے والے کو قیافہ شناس کہا جاتا ہے جبکہ نفسیات کی انسائیکلوپیڈیا،2006سید اقبال امروہوی، نگارشات پبلشرز 24 - مزنگ روڈ لاہور، 191 کے مطابق علم قیافہ جسے انگریزی زبان میں Phrenologyکہا جاتا ہے دراصل ایک سائنس کا شعبہ ہے جسکی بنیاد فرانزگال Franz Gall اور سپرڑیم Spurzheim کے ایجاد کردہ عقائد پر ہے ان دونوں سائنسدانوں کا عقیدہ تھا کہ دماغ اور قشر میں بہت سے مراکز ہیں اور ہر مرکز انسان کی کسی خاص قابلیت سے تعلق رکھتا ہے اور اس مرکز کی وسعت پر انسان کی متعلقہ قابلیت کی وسعت کا انحصار ہوتا ہے۔ چونکہ ان عقائد کو علم الاجسام میں شامل کر لیا گیا ہے اس لئے سائنس کے اس شعبہ پر مزید کوئی کام یا تحقیق نہیں ہوئی۔معلوم ہونا چاہئے کہ تصویر کی ضرورت کے اسباب جو آج ہماری زندگی میں داخل ہوگئے ہیں۔ یا کردئے گئے ہیں کیا کل ماضی میں نہ تھے؟ قانونی اور معاشرتی ضروریات یقیناً پہلے بھی ایسی ہی تھیں تو لوگ اپنی یہ ضرورت کس طرح پوری کرتے تھے جبکہ تصویر نہ تھی؟ ہمیں تاریخ بتاتی ہے کہ وہ لوگ ’علم قیافہ اور علم فراست‘ سے اپنی یہ ضروریات پوری کرتے تھے۔ اور تصویر کے مقابلہ میں کہیں عملی طور سے پوری کرتے تھے۔جب سے لوگوں نے اور بالخصوص مسلمانوں نے شرعی حقائق سے اعراض کیا اور تصویر کی برائی کو بڑی برائی کے مقابلہ میں چھوٹی برائی۔اہون ± البلیتین۔ کے طور پر ھنیئاً مریئاً بنالیا تو اللہ تعالیٰ نے علمِ فراست کو ان سے اٹھا لیا ہے۔ درج ذیل واقعہ میں جو صحیح بخاری میںکتاب المغازی، باب قتل حمزہ بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ حدیث نمبر :۴۰۷۲ نیز البدای والنہای جز،۴۔ ص/۱۷میں آیا ہے‘بڑا حیرت انگیز ہے کہ لوگ فطری طور پر کس قدر زیرک ، دانا اور صاحب فراست ہوتے تھے۔حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور کا واقعہ ہے کہ جعفر بن عمرو ضمری اور قبیلہ بنی نوفل کا عبید اللہ بن عدی عروئہ روم کی طرف گئے۔ کہتے ہیں کہ جب ہم شام میں حمص کے علاقے سے گزر رہے تھے تو خیال آیا کہ کیوں نہ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے قاتل وحشی بن حرب سے ملتے چلیں۔ وہ یہیں کہیں رہتاہے۔ اور اس سے شہادت حمزہ رضی اللہ عنہ کا قصہ براہ راست معلوم کریں گے۔ محدثین اور اہل علم کوشش کرتے تھے کہ جوبات انہیں کسی واسطہ سے معلوم ہوئی ہو وہ حتی الامکان اس اصل آدمی سے سنیں اور معلوم کرنے جائیں جو صاحب واقعہ ہو۔وہ نیک اس لیے ہے کہ نیکی پر یقین رکھتا ہے یا صرف اس لیے کہ اس میں برے کام کرنے کی ہمت نہیں ہے؟ یہ سارے بھید ایک قیافہ شناس آسانی سے کھول کر رکھ دے گا۔ قیافہ شناسی پر حال ہی میں مس گریس اے ریس کی ایک کتاب ’سیرت کا مطالعہ چہرے سے‘ شائع ہوئی ہے۔بعض کے نزدیک قیافہ شناسی کے متعلق یہ دعویٰ تو نہیں کیا جاسکتا کہ وہ ایک سائنس ہے اور جو نتیجے اس کی مدد سے نکالے جاتے ہیں وہ بالکل صحیح ہوتے ہیں لیکن اس میں بھی شبہ نہیں کہ قیافہ شناسی ایک نہایت اہم اور نہایت مفید علم ہے اور اس کی مدد سے کسی شخص کے متعلق جو رائے قائم کی جاتی ہے اس پر بڑی حد تک بھروسہ کیا جاسکتا ہے۔ اس علم کے ذریعے سے جو معلومات فراہم کی جاتی ہیں اس کی صحت میں بعض اوقات چند غیرمعمولی رکاوٹوں کی وجہ سے خامی رہ جانے کا امکان ضرور ہے۔ مثلاً ہوسکتا ہے کہ کوئی شخص بیمار ہو یا اسے کوئی مرض پرانی ہو اور وہ خط و خال پر اس طرح اثرانداز ہوکہ چہرے کی بناوٹ کے جو نتیجے نکالے گئے ہیں وہ زیادہ بھروسہ کے قابل نہ رہیں یا کسی نے محنت کے ساتھ اپنے ذہن کی تربیت کرلی ہو جس سے قدرتی رجحانات اور میلانات کی تردید ہونے لگی ہو مثلاً ممکن ہے کہ چھوٹی اور پتلی ٹھوڑی والے انسان کی قوت ارادی کمزور نہ ہو گو بچپن میں وہ یقینا پختہ ارادے کی دولت سے محروم رہا ہوگا۔دراصل قیافہ شناسی زندگی کے مختلف شعبوں میں نہایت مفید اور کارآمد ثابت ہوسکتی ہے۔ والدین‘ استاد اور کارخانوں کے مالک سب اس علم سے فائدہ اٹھاسکتے ہیں قیافہ شناسی ہمیں اسکی وجہ بتاتی ہے کہ بعض چہرے کیوں ہماری نظر کو بے تحاشا اپنی طرف کھینچتے ہیں اور بعض چہروں پر نظر پڑتے ہی ہم کیوں منہ پھیر لیتے ہیں؟ بعض شکلیں ہمیں کیوں اچھی لگتی ہیں انہیں کیوں دیکھتے رہنے کو جی چاہتا ہے اور کیوں ان پر اعتماد اوربھروسہ کرتے ہوئے جھجکتے نہیں اور بعض صورتیں ہمیں کیوں پسند نہیںآتیں اور ہم کیوں ان پر اعتماد نہیں کرتے۔قیافہ شناسی ایسے لوگوں کیلئے تو ناگزیر ہے جنہیں فوری فیصلے کرنے کی ضرورت ہوتی ہے مثلاً نوکری دلانے کے دفتروں کے مشیر حکیم اور تاجر وغیرہ قیافہ شناس بشرطیکہ وہ اس فن کا ماہر ہو‘ ایک نظر میں جو رائے قائم کرلیتا ہے وہ ذہانت کے تمام امتحانوں سے زیادہ صحیح ہوتی ہے۔قیافہ شناسی کے ماہر نہایت صحیح طور پر آپ کی زندگی کے چھوٹے سے چھوٹے واقعات تک بتاسکتے ہیں اور اس بات کے متعلق صحیح پشین گوئی کرسکتے ہیں کہ آپ کا طرز عمل کسی خاص قسم کے حالات میں کیا ہوگا۔ مثلاً اس قسم کے سوالوں کا صحیح جواب دینا ایک قیافہ شناس کیلئے مشکل نہیں ہے کہ کوئی خاص شخص دیانتدار ہے یا نہیں؟ اپنے ماں باپ کا اکلوتا لڑکا ہے یا نہیں؟ اس نے کسی سے محبت کی ہے یا نہیں؟وہ نیک ہے اس لیے ہے کہ نیکی پر یقین رکھتا ہے یا صرف اس لیے کہ اس میں برے کام کرنے کی ہمت نہیں ہے؟ یہ سارے بھید ایک قیافہ شناس آسانی سے کھول کر رکھ دے گا۔ قیافہ شناسی پر گذشتہ دنوں مس گریس اے ریس کی ایک کتاب ’سیرت کا مطالعہ چہرے سے‘ شائع ہوئی ہے ۔مس موصوفہ چالیس سال سے قیافہ شناسی کا مطالعہ اور مشق کررہی ہیں۔ انہوں نے ان تمام اصولوں کا گہرائی کے ساتھ مطالعہ کیا ہے جو اس علم کے بانیوں نے قائم کیے ہیں اور اس کے بعد انہوں نے خود اپنے ذاتی مشاہدات اور تجربات سے اس فن میں کمال حاصل کیا ہے۔ انہوں نے ہزاروں انسانوں کے چہروں سے ان کی سیرت کامطالعہ کیا اور یہ بات ثابت کردی کہ قیافہ شناسی کے علم سے نہایت درست اور کامیابی کے ساتھ کام لیا جاسکتا ہے۔
مزاجوں کی تقسیم:سب سے پہلے مزاجوں کی تقسیم پر عبور حاصل کرنا ضروری ہے۔ مزاجوں کی درجہ بندی اور تقسیم سیرت کے مطالعہ میں بڑی مدد دیتی ہے۔ یوں سمجھئے کہ مزاج وہ زمین ہے جہاں انسان پیدا ہوا ہے’مٹی“ میراث اور ’سیرت‘ڈھانچہ یا قلب ہے۔ہر سائنس کی طرح قیافہ شناسی کی بھی چند اصطلاحات ہیں سب سے پہلے ان کو ذہن نشین کرلیجئے۔ مزاج کی تین خاص قسمیں ہیں۔ قیافہ شناس ان کو (1) حرکی (2) حیاتی (3) ذہنی کہتے ہیں۔ ہر اصطلاح سے جسم کی بناوٹ‘ نمایاں خصوصیات‘ ترکیبی اجزا‘ ہڈیاں‘ پٹھے گوشت‘ ذہن اور اعصاب کی وضاحت ہوتی ہے۔
حرکی مزاج:حرکی مزاج والے شخص کی ہڈیاں پٹھے اور رگیں کافی نمایاں ہوتی ہیں اور اس کے ڈھانچے اور شکل صورت سے صاف ظاہر ہوتی ہیں۔ آپ دیکھیں گے کہ اس کی پیشانی‘ ناک‘ رخسار اور جبڑے کی ہڈیاں نمایاں ہیں۔بلوغت کو پہنچ کر ہڈیوں میں کوئی خاص تبدیلی واضح نہیں ہوئی۔ گو اعصاب اور نسیجین بدلتی رہتی ہیں۔ اس مزاج کی خصوصیت جسم‘ چہرہ‘ ہاتھ اور پاﺅں کی لمبائی ہے۔ چہرہ بناوٹ میںکتابی ہوتا ہے۔ ایسا شخص قوی‘ سرگرم‘ مستعد اور صاحب عمل ہوتا ہے۔ اس کے جذبات میں شدت اور حرکات میں آزادی ہوتی ہے اور فراست اور عقلمندی بھی اس میں کافی ہوتی ہے۔پیش پیش چلنے والے کھوج لگانے والے‘ تحقیق و تفتیش کرنے والے‘ فوجی لیڈر‘ یہ سب حرکی مزاج کے لوگ ہوتے ہیں۔ ان لوگوں میں ایک خاص قوت عمل ہوتی ہے جو انہیں چین سے نہیں بیٹھنے دیتی۔ یہ مزاج خاص طور پر عمل‘ فوری فیصلوں اور جس طرح بھی ہوسکے منزل تک پہنچنے والوں کا مزاج ہے۔ حرکی مزاج کا ایک آدمی خاص مقصد اور منصوبے کے تحت عمل پیرا ہوتا ہے۔
حیاتی مزاج:اگر جسم گذار اور موٹا تازہ ہو اور ہڈیاں نہیں بلکہ گوشت نمایاں ہو تو ایسے شخص کا مزاج حیاتی ہے اور جسم گول مٹول ہے اور اس طرح چہرہ‘ گردن اور ٹھوڑی بھی گول ہیں تو یہ موٹاپن قوت حیات‘ لچک اور چونچال پن اور مستقل مزاجی کی نشانی ہے‘ ایسے لوگ خوش طبعی اور زندہ دلی اور اچھی طرح زندگی بسر کرنے کے دلدادہ ہوتے ہیں اور ان میں قبول کرنے کا مادہ اور مطابقت پذیر کی صلاحیت بہت ہوتی ہے۔ جشن‘ دوستی‘ یا رباشی اور زندہ دلی اس مزاج کی اہم ترین خصوصیت ہے۔ اس سیرت کے لوگوں میں آسانی سے تغیر قبول کرنے کی صلاحیت بھی اتنی ہی ہوتی ہے جتنی استواری اور ثابت قدمی ہوتی ہے۔ بعض اوقات جوش وخروش زیادہ اور گہرائی ہوتی ہے۔ دلچسپیوں میں وقت گزارنے کی خواہش‘ کام سے گھبراہٹ بھی اس کے اوصاف ہیں۔ اس طبیعت کے آدمی کو آسانی سے خوش کیا جاسکتا ہے۔ لیکن اتنی ہی آسانی سے اسے آزردہ بھی کیا جاسکتا ہے۔ وہ آن کی آن میں مشتعل اور برانگیختہ ہوجاتا ہے مگر اتنی ہی جلد اس کا غصہ اتر بھی جاتا ہے۔ اس مزاج کے آدمی میں اگر ضبط نفس کی علامات نہ ہوں تو خوش خوری اس پر غلبہ پالے گی۔اس سلسلے میں’آئینہ عملیات‘ کے مصنف مولانا قاری صوفی محمد عزیز الرحمٰن پانی پتی کے ذریعے بیان کردہ علامات کا ذکر ضروری ہوگا جس میں موصوف نے بتایا ہے کہ علم قیافہ کے ذریعے کس طرح حالات معلوم کئے جاسکتے ہیں۔ان کے بقول اس علم کی مدد سے ظاہری شکل و صورت دیکھ کر ایک انسان کے متعلق صحیح رائے قائم کرنے میں بڑی مدد ملتی ہے۔انھوں نے مردوں کے تعلق سے کچھ علامات درج کی ہیں جن کے بموجب:
سر کے بال:سیاہ ملائم ہوں‘ دولت مند ہو۔باریک ہوں‘ حسین نیک مزاج ہو۔سخت تر ہوں‘تنگ دست اور بہادر ہو۔سرخی مائل بیٹھے ہوئے تومفلس و پریشان روزگار ہوگا۔
کاسہ سر:لمبائی ہو تو اقبال و ناز بسر کرے۔متوسط ہونا دولت مندی کے آثار ہیں۔زیادہ تر بڑا ہونا مفلسی و پریشانی کا نمونہ ہے۔
پیشانی:بلند‘خوش نصیبی اور دولت مندی کی علامت ہے۔تنگ اور پست ‘کوتاہی عمر اور بد بختی کی علامت ہے۔ہموار پست و بلند‘رنج ومحنت کی علامت ہے‘ عمر سختی میں گذرے‘جبکہ پیشانی پر تل بخت آوری کی علامت ہے۔
خط پیشانی: اگر ایک خط ہے‘ شقیقہ سے شقیقہ تک یعنی ایک کنپٹی سے دوسری کنپٹی تک تو علامت دولت و مال کی ہے ورنہ خسران مال ہے۔دو خط سلطنت اور درازی عمر کی علامت ہے۔تین خط وزارت و شہریاری کی علامت ہے۔ چار وپانچ خط بے دولتی اور درویشی کی علامت ہے۔اگر کوئی خط نہ ہوتو ترک دنیا کی علامت ہے۔
ابرو یعنی بھنویں: دونوں باریک خوب صورت کمان کی طرح ہونا دولت و سلطنت کی علامت ہے۔ ملی ہوئی بھنویں چوری کی علامت ہے۔ ابرو کے بال نہ ہونا یا کم ہونا غربت کا سبب ہے۔ابرو کے بالوں کا سخت ہونا بد بختی کے آثار ہیں‘ غربت کا سبب ہے۔
آنکھ: اگر سفید یا سیاہ ہوں اور سرخ ڈورے اس میں پڑے رہتے ہیں تو اقبال مندی و خوشحالی وشاہد پرستی کی علامت ہے‘ عورتوں کو اس سے بہت فائدہ پہنچے۔ اگر مثل شیروں کے خشم آلود ہو یعنی غصہ بھری ہوئی تو شجاعت و تہور کی علامت ہے۔اگر مثل دیدہ مرغاںہو یعنی مرغ جیسی آنکھ‘ جیسا کہ مرغ کن انکھیوں سے دیکھتا ہے تو بے شرمی اور با حیائی کی علامت ہے۔اگرآنکھیں بلی کی طرح نیلی اور سبز ہوں توبد خلقی بے مروتی کی علامت ہے۔ مثل چکور کے آنکھوں کاہونا چالاکی اور بے وفائی کے آثار ہیں۔
پلک آنکھ: پلکوں کے بال کم ہونازندگی میں عیش و عشرت سے بسر ہونے کی علامت ہے۔سخت زیادہ ہونا مفلسی و شورہ بختی کی علامت ہے۔
ناک: بلند اور بڑی ناک علامت دولت مندی اور سعادت کی ہے۔خوبصورت مثل منقار طوطی و خرطوم پہن ہونے سے ذی عقل پرہیز گار صاحب اقتدار ہو یعنی طوطے کی چونچ جیسی ٹیڑھی اور پھسلی ہوئی ۔ جو درازی و کوتہی بلند پستی باریکی و فربہی میں میانہ و خوش اندام و خوشنما ہو تو علامت نیکی کی ہے۔بہت بلند و باریک و پشتہ دار علامت سبک ساری کی ہے ۔موٹی چھوٹی پست ہونا علامت کوتاہ عقلی‘کم عقلی و پریشان روزگاری کی ہے۔
سوراخ ناک:بڑے ہونا بے حیا ہونے کی علامت ہے۔ تنگ ہوناذی عقل اور باحیا ہونے کا نمونہ ہے۔
کان اور کانوں کی لو: اگر لمبے ہوں نیک طینت باثروت یعنی دولت مند رہے‘ عمر دراز ہو۔ اگر درازی و کوتاہی و لاغری و پنہادری یعنی بیٹھی ہوئی بحد اعتدال ہو‘علامت نیکی اور اخلاقی پسندیدگی کی ہے۔نر گوش اگر کنپٹی سے جدا ہوں تو علامت خوشحالی کی ہے۔ اگر ملے ہوئے مگر باریک ہوں علامت خوشحالی کی ہے۔اگر کان پر بال ہوں تو علامت محنت اور رنج کی ہے۔
چہرہ:کتابی آفتابی چہرہ ہونا خوش نصیبی اور اقبال مندی کی دلیل ہے۔ مثل موش یعنی چوہا او رآہو یعنی ہرن ہونا بد بختی و گدا گری کا ثبوت ہے۔ پر گوشت یعنی خوبصورت ہونا نیک مرد یا اولاد ہونے کے آثار ہیں۔پلنگ یعنی چیتا کا چہرہ ہونے سے صاحب ثروت و حشمت ہونے کا ثبوت ہے۔
زبان: سرخ زبان علامت دولت و مال کی ہے۔ سفید زبان علامت نکبت و فلاکت ہے۔
لب: لب سرخ لب علامت سعادت اور دولت کی ہے ۔لب ہاے سیاہ علامت نکبت و مفلسی و بے دولتی ہے۔
 دانت: باریک دانت مثل انار کے دانے کے علامت دولت و سعادت ہے ۔سفےد دانت علامت دولت و مال ہے ےا فقیر و ترک دنیا کی ہے ۔
آواز: بلند اواز ہونا جاہ و جلال کا ثبوت ہے ۔آواز میں بادل کی سی گرج ہونا نیک مردی کے آثار ہیں ۔مثل طاوس یعنی مور کے ہونا دولت مندی و ناموری کا نشان ہے۔
ڈاڑھی: سیاہ ملائم ہونا دولت مندی و ناموری کا نشان ہے۔ سرخی مائل ہونا بے رحمی وغصہ کی علامت ہے۔
شگاف دہن:چوڑا اور کشادہ منہ ہونا ناقص العقل وپریشان حالی کی علامت ہے۔متوسط کشادگی ہونا اوسط حالت میں ہونے کی دلیل ہے۔تنگ دہن ہونا عمر عیش و طرب میں بسر ہونے کی نشانی ہے۔
ٹھوڑی:مدور یعنی گول ٹھوڑی ہوناعقل مند واہل فن ہونے کی علامت ہے۔کوتاہ ہونا عیبی کا نشان ہے ۔ ٹھوڑی کا خالی ہونابد خصالی کی علامت ہے ۔بلند ہونا دولت مندی کی دلیل ہے۔
گردن:لمبی ہونے سے شوریدہ بختی و ذلیل ہونے کی علامت ہے۔متوسط ہونا اوسط درجے میں بسر ہونے کی دلیل ہے۔کوتاہ ہونا حرمزدگی کی نشانی ہے۔ بہت بڑی ہونا چوری کی علامت ہے۔
خط گلو:ایک خط ہونا عمر طبعی کی دلیل ہے۔دوخط نیک بخت و عقل مند ہونے کی دلیل ہے۔تین خط سے صاحب ثروت مگر پرشکوہ ہونے کا نشان ہے۔
پیٹھ:خورومیانہ علامت دولت و سلطنت کی ہے۔حد اعتدال سے درازی علامت نکبت یعنی بے وقوفی ہے۔
بازو:دراز بازو علامت دانائی و ہوشمندی ہے۔متوسط بازو علامت سعادت و دولت ہے۔
ہاتھ:اگرداہنا ہاتھ بائیں ہاتھ سے بڑا ہوتوعلامت تہور و شجاعت کی ہے۔اگر بایاں ہاتھ داہنے ہاتھ سے بڑا ہوتو علامت بے چینی اور بددلی کی ہے۔
کہنی:شیر کی سی کہنی جو پر گوشت اور خوش اندام ہو دولت کی علامت ہے۔خشک و باریک بندر کی سی کہنی کے مثل علامت نکبت و فلاکت ہے۔
انگلیاں:اگر چھنگلیا اپنی برابر والی سے بڑی ہو تو اس بات کی علامت ہے کہ یہ شخص مرتبے میں اپنے باپ سے بھی بڑھ جائے گا۔واضح رہے کہ انگلیاں انسان کو روزمرہ کے کام کاج میں ہی مدد فراہم نہیں کرتیں بلکہ وہ پرکشش شخصیت کا ایک اہم حصہ بھی ہیں۔ ایک حالیہ سائنسی مطالعے سے ظاہر ہوا ہے کہ مرد کی چوتھی انگلی کی لمبائی یہ تعین کرنے میں مدد دیتی ہے کہ اس کی شخصیت خواتین کے لئے کتنی جاذب نظر ہے۔اس سوال کا جواب حقیقی جواب دے سکتی ہیں بے دھیانی میں آپ کی جانب اٹھنے والی آنکھیں۔ اچھا نظر آنا اور بالخصوص صنف مخالف کی نظروں کو بھانا ہر انسان کی ایک فطری خواہش ہے اور یہی وہ خواہش ہے جس کے دم سے کاسمیٹکس کی صنعت کھربوں ڈالر کی انڈسٹری بن چکی ہے۔حسن دو طرح کا ہوتا ہے ایک وہ جو منہ پر پانی کا چھینٹا مارتے ہی دھل جاتا ہے اور دوسرا وہ جو زیور اور زیبائش کا محتاج نہیں ہوتا اور عمر بھر قائم رہتاہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ حسن کا تعلق رنگت سے ہے نہ کہ ناک نقشے سے‘بلکہ حسن تناسب کا نام ہے۔ الگ سے اچھی دکھائی نہ دینے والی چیز اگر چند دوسری چیزوں کے ساتھ تناسب سے رکھی ہوتو آنکھوں کو لبھانے لگتی ہیں۔کچھ عرصہ پہلے دنیا کی حسین ترین شخصیات کی تصویروں کو جب کمپیوٹر کے ذریعے پرکھا گیا تو پتہ چلا کہ ان کے چہرے کی ساخت، آنکھ، ناک، کان اور دہن میں تناسب موجود تھا اور جس کا تناسب جتنا بہتر تھا، وہ چہرہ اتنا ہی حسین اور پرکشش تھا۔کیا آپ دوسروں کے لئے پرکشش اور جاذب نظر ہیں ؟ یہ جاننے کے لئے آپ کو آئینہ دیکھنے کی ضرورت ہے اور نہ ہی کسی سے پوچھنے کی جاجت۔ اس سوال کا جواب موجود ہے آپ کی اپنی انگلیوں کے پاس۔ جس طرح ایک دست شناس ہاتھ کی لکیریں دیکھ کر آپ کے مستقبل کی پیش گوئی کرسکتا ہے۔اسی طرح اپنے ہاتھ کی چوتھی انگلی پر نظر ڈال کر آپ یہ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ آپ کی شخصیت دوسروں کے لئے کتنی پرکشش اور جاذب نظر ہے۔حال ہی میں یونیورسٹی آف جنیوا میں کی جانے والے ایک سائنسی مطالعے سے ظاہر ہوا ہے کہ مرد کے ہاتھ کی چوتھی انگلی اگردوسری انگلی کے مقابلے میں جس نسبت سے بڑی ہوگی تو اس کا چہرہ صنف مخالف کے لئے اتنا ہی پرکشش ہوگا۔چوتھی انگلی کو انگوٹھی کی انگلی بھی کہا جاتا ہے جبکہ دوسری انگلی بالعموم شہادت کی انگلی کہلاتی ہے۔ڈاکٹر کیملی فرڈینزی کی سربراہی میں ہونے والی اس تحقیق کے دوران 49 رضاکار مردوں کی چوتھی اور دوسری انگلیوں کی لمبائی کی پیمائش کی گئی اور ان میں پایا جانے والا تناسب ریکارڈ کیا گیا۔اس کے بعد ان مردوں کی تصویریں مختلف خواتین کے سامنے رکھی گئیں اور ان سے کہا گیا کہ وہ مردانہ وجاہت اور کشش کے لحاظ سے تصویروں کی درجہ بندی کریں۔جب اس درجہ بندی کا موازنہ چوتھی انگلی کی لمبائی سے کیا گیا تو ماہرین کو پتا چلا کہ جن مردوں کی چوتھی انگلی ، دوسری انگلی کی نسبت زیادہ لمبی تھی، خواتین نے انہی کو پرکشش قرار دیاتھا۔ دلچسپ بات یہ ہے انگلی کی لمبائی کا تناسب جتنا زیادہ تھا، وہ چہرہ خواتین کے لئے اتنا ہی زیادہ پرکشش تھا جبکہ خواتین کو انگلیوں کی ساخت کے بارے میں کچھ نہیں بتایا گیا تھا۔تحقیق کے دوران خواتین کو ایک سوال نامہ مکمل کرنے کے لئے کہا گیا جس میں ایک یہ سوال بھی موجود تھا کہ ان تصویروں میں سے وہ کس مرد کو اپنا جیون ساتھی چننا پسند کریں گی۔ انہوں نے جن تصویروں کا انتخاب کیا، وہ انہی مردوں کی تھیں جن کی چوتھی انگلی نمایاں طور پر لمبی تھی۔ جب کہ خواتین کو مردوں کی مالی حیثیت وغیرہ کے بارے میں بھی بتایا گیا تھا۔ڈاکٹر فیردنزی کا کہنا ہے کہ ہمیں اپنی تحقیق سے یہ پتہ چلا ہے کہ خواتین نے لمبی چوتھی انگشت کے مردوں کو اس لئے بھی پسند کیا کیونکہ ان میں مردانہ وجاہت بھی زیادہ تھی۔اس سے قبل ایک اور سائنسی مطالعے سے یہ ظاہر ہوچکا ہے کہ مردوں کی چوتھی انگلی کی لمبائی جتنی زیادہ ہوتی ہے ، ان میں جنسی ہارمونز کی مقدار بھی اتنی ہی زیادہ ہوتی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ہارمونز کی مقدار مردوں کی شخصیت پر اثرانداز ہوتی ہے اور زیادہ ہارمونز انہیں زیادہ پرکشش بناتے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے انگلیوں کی لمبائی سے متعلق ایک اور تحقیق سے یہ معلوم ہوا تھا کہ اسٹاک ایکس چینج اور دیگر کاروباری اداروں کی کامیاب شخصیات کی چوتھی انگلی کی لمبائی غیر معمولی طورپر زیادہ تھی۔ڈاکٹر فیرونزی کا یہ بھی کہنا تھا کہ صرف انگلیوں کی ساخت اور لمبائی سے ہی جنسی ہارمونز کی مقدار کا تعین نہیں ہوتابلکہ پسینے کی مخصوص بو اور آوا ز سے بھی اس کی جانچ کی جاسکتی ہے لیکن یہ وہ چیزیں ہیں عمر بڑھنے اور بلوغت کے بعد مرد میں ظاہر ہوتی ہیں جبکہ انگلیاں ماں کی کوکھ سے ہی بچے کے ساتھ آتی ہیں۔
پیٹ:پر گوشت جس کو ہندی میں توند کہتے ہیں‘ علامت نعمت و دولت ہے۔پیٹ کا بڑا اور بے گوشت ہونا علامت نکبت و فلاکت مفلسی و محتاجی کی ہے۔
ناف:عمیق خوش گوشت علامت دولت و مال ہے۔
ران:ران پر گوشت مثل ران آہوعلامت دولت و ثروت ہے۔گھوڑے کی ران کے مانند ہونا علامت دہقانی اور کشادہ روزی کی ہے۔شیر کی ران کی مانند ہوناعلامت دولت و مال کی ہے۔بہت بڑی اور کم گوشت و بد نما ہونا ران کا نردلی کی دلیل ہے۔
پنڈلی:پنڈلی پر گوشت اور خوش اندام ہونا علامت دولت ہے۔پنڈلی قوی ہونا مثل جاسوس کی پنڈلی کے علامت خوبصورت عورت ملنے کی ہے۔
پاوں:پاوں کا خوش اندام و پر گوشت ہوناعلامت سعادت و دولت ہے۔کم گوشت اور تلوے کا گہرا ہوناعلامت سعادت و دولت ہے۔تلوے کا پر گوشت ہوناکہ تلوا زمین پر لگے‘علامت بدچلنی ہے۔
sarailliyasi@gmail.com+919811254615

230811 bholey bhaley awam ka kaisey ullu bana rahey hey baba by sara illiyasi

kiyo horaha hey khudkashiyo me izafa by sara illiyasi کیوں ہو رہا ہے خودکشیوں میں اضافہ؟


سارہ الیاسی
اگر ہم روزمرہ کے اخبارات کا جائزہ لیں تو ہمیں روزانہ کسی نہ کسی کی خودکشی کی خبر نظر آئے گی۔اس سلسلے میںتازہ موصولہ اطلاعات کے مطابق ہندوستان میں رہنے والے نوجوانوں میں خودکشی کے رجحان میں خطرناک حد تک اضافہ ہوگیا ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق معاشی اورگھریلومسائل کی وجہ سے ملک میں ہرگھنٹے کے دوران 15 نوجوان موت کو گلے لگا رہے ہیں۔ہندوستان کے نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو نے بتایا ہے کہ ہر سال ایک لاکھ 31 ہزار 4 سو نوجوان اپنے ہاتھوں زندگی کا خاتمہ کر رہے ہیں۔بیورو کا کہنا ہے کہ ہر گھنٹے میں مایوس ہو کر 15 نوجوانوں کا موت کو گلے لگانا انتہائی تشویش ناک ہے جبکہ خودکشی کرنے والوں میں ہر 3 میں سے ایک کی عمر 15 سے 29 برس کے درمیان ہوتی ہے۔سماجی ماہرین کا کہنا ہے کہ نوجوانوں میں خودکشی کے واقعات بڑھنے کا سبب عالمگیریت کی وجہ سے پیدا ہونے والی سماجی مسائل، مشترکہ خاندانی نظام کی ٹوٹ پھوٹ، والدین کی عدم توجہ جذباتی سہاروں سے محرومی ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ بڑھتے ہوئے معاشی مسائل بھی عام افراد کو زندگی سے مایوس کر رہے ہیں۔گویا کہ اصل سبب مایوسی ہوا جبکہ اہل علم کے نزدیک اسلام میں مایوسی کوکفر ‘شرک‘ بدعت‘جھوٹ ‘ غیبت اور بے حیائی کی طرح حرام قرار دیا گیاہے۔اس کے باوجود ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں سالانہ دس لاکھ افراد خودکشی کرتے ہیں اور ایک سے دو کروڑ انسان اس کی کوشش کرتے ہیں۔ غریب اور پسماندہ ممالک میں خود کشی کرنے والوں کی شرح نسبتاً زیادہ ہے۔ اگر ہم خود کشی کی وجوہات کا جائزہ لیں تو صرف اور صرف ایک ہی وجہ نظر آتی ہے جسے مایوسی یا Frustration کہا جاتا ہے۔ یہ وہ چیز ہے جس کا شکار تقریباً ہر انسان ہوتا ہے۔ بعض افراد میں یہ مایوسی اتنی شدت تک پہنچ جاتی ہے کہ وہ اپنی زندگی کے خاتمے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس موضوع پر بہت کچھ لکھا جاچکا ہے۔ عام طور پر ان مسائل کے حل کی جو تجاویز دی جاتی ہیں ، وہ اجتماعی سطح پر دی جاتی ہیں جن پر عمل حکومت یا بڑے بڑے ادارے ہی کر سکتے ہیں۔ اس کے برعکس ہماری اس تحریر کا مخاطب وہ لوگ ہوں گے جو کسی نہ کسی قسم کی مایوسی کا شکار ہیں۔ اس تحریر میں ہم یہ جائزہ لینے کی کوشش کریں گے کہ انسانوں میں مایوسی کیوں پیدا ہوتی ہے اور اس کے تدارک کا طریقہ کار کیا ہے؟ کیا اللہ تعالیٰ نے اپنے دین میں ہمیں اس کے متعلق کچھ تعلیمات دی ہیں ؟ ہم کن طریقوں سے اپنے اندر مایوسی کو کم کر سکتے ہیں اور زیادہ سے زیادہ خوشیاں سمیٹ سکتے ہیں؟
علم نفسیات میں مایوسی کو خیبت بھی کہا جاتا ہے۔ پاکستان کے ممتاز ماہر نفسیات حمیر ہاشمی جن کی تصنیفات امریکہ اور کینیڈا کی یونیوسٹیوں کے نصاب میں شامل ہیں ، مایوسی کی تعریف کچھ اس طرح کرتے ہیں کہ مایوسی یا خیبت ہم اس احساس کو کہتے ہیں جو ایک شخص اپنی کسی خواہش کی تسکین نہ ہونے کے طور پر محسوس کرتا ہے، مثلاً اگر ایک طالب علم امتحان میں پاس ہونا چاہے لیکن فیل ہو جائے تو وہ خیبت یا مایوسی سے دوچار ہوگا یا اگر کوئی کھلاڑی کھیل کے میدان میں مقابلہ جیتنا چاہے لیکن ہار جائے تو وہ خیبت کا شکار ہوگا جبکہ حقیقت یہ ہے کہ کھیلوں کا بنیادی مقصد جہد مسلسل کا جذبہ قائم رکھنا ہے۔بقول علامہ اقبال:
پلٹنا‘جھپٹنا‘ پلٹ کر جھپٹنا
لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانا
بہر کیف ماہر نفسیات موصوف کی مانیں تواب اگر ہم مذکورہ تعریف میں اپنے آپ کا اور اپنے گرد وپیش کے افراد کا جائزہ لیں تو پتہ چلے گا کہ دنیا کا ہر شخص اپنی زندگی میں مایوسی یا خیبت کا شکار رہا ہے اور جب تک کسی شخص کے سانس میں سانس ہے، وہ خیبت سے دوچار ہوتا رہے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کسی بھی شخص کی تمام خواہشات کی تسکین اس کی مرضی کے عین مطابق ممکن ہی نہیں ہوتی، اس لئے وہ کسی نہ کسی حد تک مایوسی کا شکار رہے گا۔ تاہم کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جن میں یہ احساس زیادہ شدید نہیں ہوتا اور کچھ لوگ ایسے ہیں، جن میں یہ احساس شدید حد تک پایا جاتا ہے۔ کسی کو شک ہو تو وہ حمیر ہاشمی کی نفسیات، ص 772-773کا مطالعہ کر سکتا ہے۔ سادہ الفاظ میں اگر کوئی شخص کسی چیز کی خواہش کرے اورکسی وجہ سے وہ خواہش پوری نہ ہوسکے تو اس کے نتیجے میں اس کے دل ودماغ میں جو تلخ احساس پیدا ہوتا ہے، اسے مایوسی کہتے ہیں۔لہٰذامایوسی کی اقسام کا جائزہ لیں تو پتہ چلے گا کہ اصل میں مایوسی بنیادی طور پر دو طرح کی ہوتی ہے، ایک تو وہ جو ہمارے بس سے باہر ہے اور دوسری وہ جو ہمارے اپنے کنٹرول میں ہوتی ہے۔ ناقابل کنٹرول مایوسی کی مثال ایسے ہے جیسے کوئی شخص یہ چاہتا ہے کہ اس کا بچہ زندہ رہے اور بڑا ہو کر اس کی خدمت کرے۔ کسی وجہ سے اس بچے کی موت واقع ہوجائے اور اس شخص کی یہ خواہش پوری نہ ہوسکے تو یہ ناقابل کنٹرول مایوسی کہلاتی ہے۔ اسی طرح جب ہم فطری حوادث جیسے سیلاب، زلزلہ اور طوفان میں لوگوں کو ہلاک ہوتے دیکھتے ہیں تو اس سے ہمارے دل میں جو غم، دکھ یا مایوسی پیدا ہوتی ہیں وہ ناقابل کنٹرول ہوتی ہے۔ یہ وہ معاملات ہیں جن میں انسان کچھ نہیں کرسکتا۔ اس قسم کی مایوسی کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے اپنے دین میں یہ ہدایت دی ہے کہ انسان کو چاہئے کہ ایسے معاملات میں وہ اللہ کی پناہ پکڑے اور صبر اور نما زکی مدد سے اس مایوسی کو کم کرے۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے : وَاستَعِن ±وا بِالصّ....ِ رَاجِعونَ۔ (البقر? 2:45-46) ’صبر اور نماز سے مدد چاہو۔ بے شک یہ (اللہ سے) ڈرنے والوں کے علاوہ (دوسرے لوگوں کے لئے )بہت مشکل ہے۔ (اللہ سے ڈرنے والے تو وہ ہیں) جو یہ یقین رکھتے ہیں کہ انہیں اپنے رب سے ملنا ہے اور انہیں اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔‘ اس آیت میں یہ حقیقت بھی بیان کردی گئی ہے کہ یہ آفات کوئی بڑی چیز نہیں ہیں اس لئے کہ ایک دن سب نے ہی اپنے رب سے ملاقات کرنے کے لئے اس دنیا سے جانا ہے۔ اگر انسان حقیقت پسند ہو اور کائنات کی اس بڑی حقیقت کو قبول کرلے تو پھر اسے صبر آ ہی جاتا ہے اور یوں اس کی مایوسی کے زخم مندمل ہو جاتے ہیں کیونکہ چند روزہ زندگی کے بعد ایک لامحدود زندگی اس کے سامنے ہوتی ہے جہاں نہ کوئی دکھ ہو گا اور نہ کوئی غم۔ اگر ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کا جائزہ لیں تو ہمیں یہ معلوم ہوگا کہ آﷺ نے ہر ایسے معاملے میں اللہ کی پناہ پکڑی ہے اور جب بھی آپ کو کسی مشکل کا سامنا کرنا پڑا تو آپ نے نماز کے ذریعے اپنے رب کی طرف رجوع کر کے ذہنی سکون حاصل کیا اور اس مصیبت پر صبر کیا۔ اس کا احساس ہمیں آپ کی دعاوں سے ہوتا ہے۔ دوسری قسم کی مایوسی وہ ہوتی ہے جو انسانی وجوہات سے ہوتی ہے اور اگر انسان چاہے تو اسے کم سے کم حد تک لے جا سکتا ہے۔ اس قسم کی مایوسی کی بہت سی وجوہات ہیں۔ ہم ان میں سے ایک ایک پر بحث کرکے ان کا حل تجویز کرنے کی کوشش کریں گے۔
دنیادارالامتحان ہے، ہر وقت , ہر منزل پرآدمی کو نئے نئے مسائل ومشکلات سے گزرنا پڑتا ہے اور وہی شخص اس میں کامیاب ہے جو ہر طرح کی مشکلات کا پامردی سے مقابلہ کرے‘جس خالق کائنات نے انسان کو پیدا کیا،مہد سے لحد تک اس کی حفاظت ونگرانی کی اس کو سکون و راحت کی نعمت سے سرفراز کیا، جب وہی خدا اپنے بندوں کا مصائب ومشکلات کے ذریعہ امتحان لیتا ہے تو بعض لوگ مشکلات وآزمائش میں صبر کا دامن چھوڑ بیٹھتے ہیں اور جلد بازی اور بے صبری میںمایوسی کا شکار ہوتے ہوئے متاع حیات ہی کو ختم کردیتے ہیںجبکہ وہ موت کے بعد بھی چین وسکون حاصل نہیں کرسکتے۔ کوئی سرپھرا عشق میں ناکامی پر خودکشی جیسے سنگین جرم کا ارتکاب کررہا ہے اور کوئی طالب علم امتحانات میں ناکا می کے باعث مایوس ہوکر خودکشی جیسے سنگین جرم کا ارتکاب کررہاہے جبکہ دین اسلام نے خود کشی کو حرام اور گناہ کبیرہ قرار دیا ہے، خودکشی اللہ تعالی کی رحمت سے مایوسی کفر ہے۔ گویاانسان اپنے جسم و جان کا خود مالک نہیں ہے بلکہ صرف امین ہے، اس لئے اس کو خلاف مرضی خدا استعمال نہیں کرسکتا ، ارشاد الہی کا ترجمہ یوں ہے کہ:اور تم اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو۔ (سورہ البقرة:195)۔نیز سور? النساءمیں ارشاد ہے:وَلَا تَقتلواَنفسکم.... ترجمہ: اور اپنے آپ کو قتل نہ کرو،بیشک اللہ تم پر نہایت مہربان ہے” اور جو ظلم و زیادتی کی بنیاد پر اس کا ارتکاب کربیٹھے تو عنقریب ہم اسے جہنم میں ڈال دیں گے اور یہ کام اللہ پر آسان ہے(سورة النساء: 29/30) اگر کوئی مصیبت پہنچ جائے تو ہم اپنی زندگی کا خاتمہ کرکے اس مصیبت سے نجات توحاصل نہیں کرسکتے،حضرت ﷺنے ارشاد فرمایا کہ خودکشی کرنے والے لوگوں کودوزخ میں اسی طرح کا عذاب دیا جائےگا جس طرح اس نے اپنے آپ کو قتل کیا ہو گا۔صحیح بخاری،صحیح مسلم میں سیدنا ابو ہرہ رہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ ترجمہ:حضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جس کسی نے پہاڑ سے گر کر خودکشی کرلی وہ جہنم کی آگ میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اسی طرح گرتا رہے گا۔ جس کسی نے زہر پی کر خودکشی کرلی تو زہر اس کے ہاتھ میں ہوگا اور جہنم کی آگ میں وہ ہمیشہ ہمیشہ زہر پیتا رہے گا اور جس نے لوہے کے ہتھیار سے خودکشی کرلی تو وہ ہتھیار اس کے ہاتھ میں ہوگا جس سے وہ جہنم کی آگ میں مسلسل اپنا پیٹ چاک کرتا رہے گا ۔(صحیح بخاری شریف، باب شرب السم ‘حدیث نمبر:5778-صحیح مسلم شریف ،حدیث نمبر:313) صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں حدیث پاک ہے‘ترجمہ:حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے ،آپ نے فرمایا کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اگر کسی کو تکلیف پہنچے تو وہ ہرگز موت کی تمنا نہ کرے۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہہ سکتا ہے کہ اے اللہ! مجھے اس وقت تک زندہ رکھ جب تک میرے لئے زندگی بہتر اور خیر کی ہو اور اگر میرے لئے موت بہتر ہو تو مجھے موت دیدے۔(صحیح بخاری ‘حدیث نمبر:5671)جو لوگ عارضی اور وقتی مصیبتوں سے بچنے کے لئے خود کشی کرتے ہیں، اس سے بڑی مصیبتیں ان کی منتظر رہتی ہیں۔ مصائب ومشکلات سے تنگ آ کر یا امتحانات میں ناکا م ہونے کی بنا پر خود کشی نہ کی جائے بلکہ اس بات کا یقین رکھیں کہ زندگی اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے۔ مصیبت آج ہے کل ٹل جائے گی ،آج ناکام ہوئے کل کامیاب ہوجائینگے،ہمیں حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے اسوہ حسنہ کے مطابق کامل توکل اور قناعت اختیار کرنا چاہئے۔انسان کسی بھی مصیبت پر دکھی نہ ہو بلکہ جو بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے فیصلہ ہو ، اسے دل و جان سے قبول کرلے،اللہ تعالیٰ نے جس قدر عطا فرمایا ہے اسی پر خوش رہے،اس سے زیادہ کی کوشش اگر چہ انسان ضرورکرتا ہے لیکن جو بھی اسے مل جائے اسے اپنے رب کی اعلیٰ ترین نعمت سمجھتے ہوئے خوش رہے اور جو اسے نہیں ملا ، اس پر غمگین نہ ہو ںبلکہ ہمیشہ اللہ کی رحمت سے امید رکھتے ہوئے اپنی کوششوں کو جاری رکھے، انشاءاللہ فتح ونصرت مقدر بنے گی۔
 sarailliyasi@gmail.com+919811254615ا

191011 kiyo horaha hey khudkashiyo me izafa by sara illiyasi

Saturday, August 20, 2011

کیسے بچیںالیکٹرانک میڈیا کے مضرات سے


سارہ الیاسی
گزشتہ چند دہائیوں میں انسان نے سائنس اور ٹکنالوجی میں غیر معمولی ترقی کی ہے۔حیرت انگیز ایجادات اور دم بخود کردینے والے انکشافات منظر عام پر آئے ہیں جن میںریڈیو،ٹیلیویژن ، کمپیوٹر،موبائل فون ،ویڈیوگیم ،انٹرنیٹ وغیرہ شامل ہیں۔ان جدید ایجادات کی وجہ سے انسانی زندگی میں بہت سی سہولتیں فراہم ہوئیں ۔بطور خاص ابلاغ وترسیل کے ایک سے زائد آسان ترین، سہولت بخش طریقے حاصل ہوئے ۔ الیکٹرانک میڈیا ٹی وی اور انٹرنیٹ وغیرہ کے ذریعہ لمحہ بھر میں ایک شخص اپنا پیغام ساری دنیا کو سناتاہے ۔ اس کی وجہ سے رابطہ کے لئے مشرق ومغرب ، شمال وجنوب کا کوئی مسئلہ نہیں رہا۔دوریاں ختم ہوگئیں ، ایسا معلوم ہوتاہے گویاآمنے سامنے معاملات ہورہے ہیں۔ اسی عالمی ارتباط کی وجہ سے تجارتی تعلقات بھی ایک علاقہ اور ایک ملک سے نکل کر عالمی حیثیت اختیار کرچکے ہیں ۔ سرمایہ کاروں کے لئے دنیا کی تمام کمپنیوں کی تفصیلات ، اسکیمیں اور شرائط نظروں کے سامنے ہیں ۔ وہ شرعی حدود کی رعایت کرتے ہوئے جس تجارت میں چاہیں سرمایہ کاری کریں ۔ مال وزر کے تبادلہ کی صعوبتیں باقی نہ رہیں۔ اس کے تبادلہ کے لئے نہ سفر کے اخراجات برداشت کرنے کی ضرورت ہے اور نہ دوران سفر مال ضائع ہونے کا اندیشہ ہے۔انٹرنیٹ ترقی یافتہ ذرائع ابلاغ سے ایک بڑا ذریعہ ہے ۔دنیا کے کسی بھی علاقہ کے باشندگان سے رابطہ کرنا،انہیں پیغام بھیجنا ،ان کی تعلیم وتربیت کرنا،بین الاقوامی سطح پر تجارت کرنا نیزبنکوں اور تجارتی ادا روں کا باہم عالمی پیمانہ پرربط وضبط، انٹرنیٹ کے ذریعہ قائم ہوتاہے۔ علاوہ ازیں آدمی ایک مقام پر بیٹھ کر انٹر نٹ کے ذریعہ ویب سرورپرموجود دنیا کی تمام لائبریریوں کا مطالعہ کرتاہے۔اس طرح انٹر نٹ کے کئی انفرادی اجتماعی ، تعلیمی ومعاشی فوائد ہیں بلکہ یہ ایک عالمی ضرورت بن چکا ہے۔الیکٹرانک میڈیا کے یہ فوائد تو ضرور ہیں لیکن اسی طرح بلکہ اس سے بڑھ کر اس کے نقصانات وتباہ کن نتائج ہیں ، ریڈیو، ٹی وی ،موبائل فون اور انٹرنیٹ کے ذریعہ ابلاغ وترسیل کے امور تیزترین ہوچکے ہیں ، یہ ذرائع ہیں جن کا استعمال ،مقاصد پر موقوف ہوتاہے ، خیر کےلئے استعمال کیاجائے تو یہ بھلائی کے ذرائع ثابت ہوتے ہیں اور شر کے لئے استعمال کیا جائے تو برائی کے وسائل قرار پاتے ہیں۔ٹی وی چونکہ ابلاغ وترسیل کا اہم ذریعہ ہے ، اس کے ذریعہ عریانیت پر مشتمل ، مخرب اخلاق پروگرام بھی نشر کئے جاتے ہیں، مذہبی وتعلیمی ، ثقافتی وتربیتی پروگرام بھی ، اگر مخرب اخلاق، حیاءسوز پروگراموں سے بالکلیہ اجتناب کرتے ہوئے خالص دینی تعلیمی وثقافتی پروگرام ، اسلامی دروس وغیرہ کی حد تک ہی اس سے استفادہ کیا جائے تو ٹی وی رکھنے اور دیکھنے میں کوئی مضائقہ نہیں ۔اس کا یہ پہلو مفید ہے لیکن فلمیں ، فحش مناظر اور عریانیت پر مبنی پروگرام دیکھے جائیں تو یہ دینی ودنیوی ہر دو لحاظ سے مضر ونقصاندہ ، ناجائز وحرام ہے ۔اسی لئے دین اسلام نے فتنوں کے سد باب کے لئے ان تمام ذرائع سے اجتناب کرنے کا حکم فرمایا جن سے فتنے وقوع پذیر ہوتے ہیں۔ٹی وی استعمال کے اعتبار سے بمنزل آنکھ ہے جس طرح آنکھ سے جائز ومباح اشیاءکو دیکھنا جائز ہے اور یہ اس کے استعمال کا درست طریقہ ہے ۔ برخلاف اس کے اگر آنکھ سے حرام مناظر اور فحش چیزیں دیکھی جائیں تو یہ ناجائز وحرام ہے اور اس کا غلط استعمال ہے۔ اسی طرح ٹی وی ، انٹرنیٹ وغیرہ کا حکم بھی ان کے استعمال پر ہے ۔ اگر محل مشروع میں استعمال کیا جائے تو جائز اور محل حرام میں استعمال کیا جائے تو ناجائز ہے ۔اصول فقہ کا ایک مسلمہ قاعدہ ہے:الامور بمقاصدہا‘جس کاترجمہ ہے :معاملات ان کے مقاصد کے ساتھ ہیں۔الاشباہ والنظائر- ص22۔جس قدر تیزی کے ساتھ یہ ذرائع امور خیر میں استعمال کئے جارہے ہیں معاشرہ کی اصلاح اور اقدار انسانی کی حفاظت کے لئے کار آمد ثابت ہورہے ہیں ، اس سے کئی گنا زیادہ الیکٹرانک ذرائع ابلاغ کو بداخلاقی وبدکرداری کی اشاعت کے لئے استعمال کیا جارہاہے ، اس کے ذریعہ اخلاق سوز لٹریچر عام کیا جارہاہے ، فحاشی وبے حیائی کی ترویج کی جارہی ہے ، عریانیت کا ننگا ناچ ہورہاہے ، الیکٹرانک میڈیا کی دنیا میں کوسوں دورتک حیاءکا نام ونشان نظر نہیں آتا۔الیکٹرانک میڈیا کے آنے سے یہ غلغلہ مچا کہ دنیا سمٹ کر ایک گاوں کی طرح ہو گئی ہے۔سوال یہ ہے کہ انسانی معاشرہ نے اس سے کس قدر فوائد حاصل کئے ؟ اس کی وجہ سے مغربی تہذیب عام ہوئی۔ جن لوگوں تک مغربی تہذیب کے جراثیم پہنچے نہیں تھے اس کے ذریعہ آسانی سے ان کے ماحول میں سرایت کرگئے۔الیکٹرانک میڈیا کے بے ہنگم اور غیر شرعی استعمال کے بہت سے نقصانات ہوئے ہیں ۔انسانی اقدارتباہ ہوئیں، پاکیزہ تہذیب آلودہ ہوئی ، صالح معاشرہ متاثر ہوا، سوسائٹی کا اخلاقی معیار پستی سے دوچار ہوا، فکری یکسوئی پراگندگی وانتشار میں تبدیل ہوگئی۔
ریڈیو کی تباہ کاری:
الکٹرنک ذائع ابلاغ میں سے ہر ذریعہ اپنے دائرے میں فائدہ مند ثابت ہونے سے زیادہ نقصاندہ اور تباہ کن ثابت ہورہا ہے ۔ گلوبلائزیشن کے اس دور میں ان الیکٹرانک ذرائع کی تباہ کاریوں سے حفاظت ایک صالح معاشرہ اور پاکیزہ سوسائٹی کے لئے ناگزیرہے۔ آج کل ریڈیو دوبارہ استعمال کیا جانے لگا ہے ، ایف ایم ریڈیوکی مقبولیت تقریباً ہرملک میں ہے۔آدمی جب فرصت میں ہوتی ہے خواہ بس یا ٹرین میں سفر کررہاہو یا طویل وقت کے لئے کہیں بیٹھا ہو، یاویٹنگ روم میں انتطارکرہاہو، ایسے وقت اس کا استعمال کیا جاتا ہے ۔یہ کم قیمت میں بہ آسانی میسر آتاہے ، اس لئے کوئی شخص بھی اسے حاصل کرلیتاہے ۔ مختلف مواقع پر نوجوان اپنے قیمتی اوقات کووقت گزاری کے نام پر ریڈیو چینلوں میں صرف کررہے ہیںجس کے نتیجہ میں اپنے فرائض وذمہ داریوں سے غفلت کا شکار نظر آتے ہیں اور گانا سننے اور غلط افسانوں میں وقت عزیز قربان کررہے ہیں۔
ٹی وی چینلوں کی تباہ کاری
ٹی وی چینلوںکا ایک طویل سلسلہ ہے جس کی ہرکڑی عریانیت سے آلودہ ہے ۔فحاشی کے آلائش میں ملوث ہے ۔ الیکٹرانک میڈیا کا ہرڈرامہ ، ہرفلم ،ہرکارٹون ، اجنبی لڑکے اور لڑکی کی محبت اور ان کے تعلق کے گرد گھومتاہے ، اس کی وجہ سے معاشرہ کے نوجوانوں میں جنسی انتشار پھیل چکا ہے۔کارٹون چینل جو محض کمسن بچوں کے لئے لانچ کئے جاتے ہیں ‘ان میں بھی لڑکے اور لڑکی کے کردار دکھائے جاتے ہیں ، جنسی فکر کو برانگیختہ کرنے والی تصویریں پیش کی جاتی ہیں جبکہ بچپن کے سنہری دور میںجو منظر دیکھا جاتا ہے وہ قلب میں جاگزین اور دماغ میں مرتسم ہوجاتاہے ، وہ جو الفاظ سنے جاتے ہیں انھیںدہرایاجاتاہے ۔حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کمسن بچوں کے لئے احتیاطی تدابیر کا حکم فرمایا، لڑکپن سے ہی ان کابستر علٰحدہ کرنے کا حکم فرمایا جیساکہ حدیث پاک وارد ہے ؛مروا ....المَضَاجِعِ۔یعنی تم اپنی اولاد کو نماز کا حکم دو جبکہ ان کی عمرسات سال ہو اور اس میں کوتاہی پر انہیں سزادو!جبکہ ان کی عمر دس سال ہو ‘ان کے بستروں کو علحدہ کردو۔سنن ابی داود، کتاب الصلوص71، باب متی یومر الغلام بالصل ، حدیث نمبر :495۔سات سال کی عمر ہونے پر گوکہ بچے مکلف نہیں ہوتے لیکن تربیت کے طور پر انہیں نماز و دیگر عبادات کا حکم دینا چاہئے تاکہ انہیں عبادت کرنے کا مزاج بنے‘ عادتیں صالح ہوں،کمسنی سے رب کے حضور کھڑے رہنے، سربسجود ہونے ، اپنے مولی کی بندگی کا ثبوت دینے کا سلیقہ حاصل ہواور اگروہ دس سال کی عمرمیں عبادتوں سے غفلت برتیں اور پابندی کے ساتھ نمازیں نہ پڑھیں توان پرسختی کرنی چاہئے اور تادیب کے طور پر مارناچاہئے۔مذکورہ حدیث شریف میں بچوں کے بستر الگ کرنے کابھی حکم دیا گیاہے۔اس حکم سے معلوم ہوتا ہے کہ بچوں کونیک اعمال کا حکم دینے کے ساتھ ساتھ انہیں تمام قسم کی برائیوں سے بچانے کا اہتمام کیا جائے تاکہ بچہ عفت و پارسائی کی خصلت کے ساتھ پروان چڑھے اور شرافت وپاکیزگی کے سا تھ زندگی گزارتا رہے۔ اس میں دورائے نہیں کہ بچوں کی اخلاقی تربیت کی ضرورت اور اہمیت بلا لحاظ مذہب و ملت ہر شخص جانتا ہے، چونکہ اخلاق کے نہ ہونے سے معاشرہ میں فتنہ و فساد، جھگڑا اور لڑائی تک نوبت پہنچتی ہے،خاندان میں پھوٹ پڑجاتی ہے اور خودبچوں کی ذات میں برائیاں پنپنے لگتی ہیں جس کا سدباب صالح کردار اور صحیح افکار کے بغیر ناممکن ہے۔لہٰذا انتہائی ضروری ہے کہ بہترین اخلاق کی تربیت کے ساتھ بچوں کو مذموم اخلاق اوربری عادات سے دور رکھا جائے، انہیں جنسی بے راہ روی، بدنگاہی، فلم بینی سے کلیةبچایا جائے،اگر بچے بدنگاہی بالخصوص فلم بینی میں مبتلاہوجائیں تو اس کا دینی نقصان تو یقیناہوگااورانکا باطن بھی داغدار ہوجائیگالیکن ا سکے ساتھ یہ بچے دنیاکی نظروں میں بے وقعت ہوجائیں گے۔کمسنی کے اس دور میں اگر ہمارے نونہال کارٹون پروگراموں کے ذریعہ جنسی فکر سے کسی قدر آشنا ہوجائیں یا نیم عریاں لباس سے بھی مانوس ہوجائیں تو یہ بعید نہیں کہ سن بلوغ کو پہنچنے تک وہ تباہی کے دہانے پر پہنچ چکے ہوں گے ۔گناہ سمجھتے ہوئے گناہ کا ارتکاب کیا جائے تو وہ گناہ ہے لیکن جب عورت کی آزادی کے نام سے جسمانی نمائش کا کاروبار کیا جائے تو گناہ کی قباحت اور جرم کی سنگینی بہت بڑھ جاتی ہے۔
کسی قوم کا اثاثہ اس کی نوجوان نسل ہوتی ہے ۔ کمسن بچے مستقبل میں بہت کچھ کرسکتے ہیں لیکن طاقت وصلاحیت نہیں رکھتے جبکہ قوم کے نوجوان ہی اس کی مکمل طاقت ہیں کہ کسی مہم کو سرانجام دیں ۔ مشکل ترین نشانہ تک پہنچنا ان کے لئے کوئی مشکل نہیں ، موسم سرما کی ٹھنڈک وبرودت یا موسم گرما کی حرارت وسوزش ان کی ہمت وحوصلہ کو کم نہیں کرتی ۔رات کی تاریکی یا ہواوں کی سختی سے ان کے پایہ استقامت میں فرق نہیں آتا لیکن یہ نوجوان نسل اگر اپنی ذمہ داریوں سے بے بہرہ ہوجائے تو پھر قوم کا کیا انجام ہوگا؟ ٹی وی چینلوں میں نوجوانوں کے لئے ہر وہ چیز موجود ہوتی ہے جو ان کے اخلاق کو مکمل طور پر تباہ کردے۔ ڈرامے اور فلمیں ہوں یااشتہارات اور خبریں ، ان ٹی وی چیلوں پر اجنبی لڑکیاں بن سنورکر ، عریاں یا نیم عریاں مناظر میں دکھائی جاتی ہیں۔ٹی وی اسکرین شاید ہی کوئی لمحہ اس بے حیائی سے خالی رہتاہو جبکہ اللہ تعالی نے بے حیا،ی اور فحاشی کے قریب جانے سے بھی منع فرمایاہے ارشاد الہی ہے: وَلَ.... بَطَنَ۔ترجمہ: اور بے حیائی کے کاموں کے قرب نہ جاو (چاہے) ظاہر ہوں (چاہے) پوشدہ ہوں- (سورة الانعام-151)جو لوگ بے حیائی اور فحاشی کی اشاعت کو پسند کرتے ہیں ان کے لئے سخت عذاب کی وعید سنائی گئی ہے۔ ارشاد الہی ہے کہ ترجمہ: بیشک جو لوگ اس بات کو پسند کرتے ہیں کہ ایمان والوں میں بے حیائی پھیلے ان کے لئے دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب ہے، اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے (سورة النور-19)بدنظری چونکہ بے حیائی اور بڑے گناہوں کی طرف لے جاتی ہے ،اسی لئے اللہ تعالی نے اس سے بچے رہنے کی تاکید فرمائی۔ارشاد الہی ہے کہ اے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم! ایمان والے مردوں سے فرمادیجئے کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں۔اور خواتین کے لئے علیحدہ ارشاد فرمایاکہ:وَقل....روجَھنَّ۔ ترجمہ: اور ایمان والی عورتوں سے فرمادیجئے کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اوراپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں۔ (سورالنور۔ 30)مسند امام احمد میں حدیث پاک ہے کہ عن ابی ھریر....و یکذبہ۔ترجمہ: سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: زنا میں انسان کے ہر عضو کا حصہ ہوتا ہے، آنکھیں زنا کرتی ہیں اور ان کا زنا دیکھنا ہے، ہاتھ زنا کرتے ہیں اور ان کا زنا پکڑنا اور گرفت کرنا ہے، پیر زنا کرتے ہیں اور ان کا زنا چلنا ہے، منہ زنا کرتا ہے اس کا زنا بوس وکنار ہے ، دل خواہش کرتا اور تمنا وآرزو کرتا ہے جب کہ شرمگاہ اس کی تصدیق کرتی ہوئی زنا میں مبتلا ہوتی ہے یا اسے جھٹلاکر زنا سے باز رہتی ہے۔ مسند امام احمد ، حدیث نمبر8752۔ایک نوجوان فطری طور پر صنف نازک کی طرف مائل رہتاہے ، جب اس کی نظر کے سامنے یہ منظر آتاہے تو اس کی ذہنی کیفیت متاثر ہوجاتی ہے ، ٹی وی چینلوں کے یہ فحش مناظر دن میں کئی مرتبہ اس کے ذہن ودماغ پر حملہ کرتے ہیں ۔ روزانہ کے حملوں سے وہ اس کا عادی ہوجاتاہے ۔ان طاقت سوز مناظر کو وہ اپنے سکون کا سامان اور دل لگی کا ذریعہ سمجھ بیٹھتاہے۔ نتیجے کے طور پر قوت ناقص ہوجاتی ہے اورحافظہ کمزور ہوجاتا ہے۔
انٹرنیٹ کی تباہ کاریاں
انٹرنیٹ کے فوائد یقینا بہت زیادہ اور بڑے پیمانہ پر ہیں،اس کے باوجود یہ بے حیائی وفحاشی کا ایک غیر معمولی بڑا ذریعہ ہے ، انٹرنیٹ کے ذریعہ ایک لڑکی اجنبی لڑکے سے بے تکلف تعلق قائم کرتی ہے اور ایک لڑکا اجنبی لڑکی سے بہ آسانی ربط پیدا کرلیتا ہے ، ای میل اور چیٹنگ سے دونوں کے تعلقات بڑھتے جاتے ہیں ، افراد خاندان بھی اس قدر تفصیلات سے واقف نہیں ہوتے جس قدر تفصیل سے یہ دو اجنبی ایک دوسرے سے واقفیت حاصل کرتے ہیں جبکہ اسلام نے اجنبی لڑکا لڑکی کی گفتگو کو ممنوع ٹہرایا ہے ، کلام سے پہلے سلام کا درجہ ہے لیکن نوجوان لڑکی کو سلام کرنے سے تک فقہاءکرام نے منع کیا ہے ۔محض اس لئے کہ فتنہ کا دروازہ کھلنے نہ پائے۔عورت کی آواز بھی پردہ ہے لیکن وائس چیٹنگ کے ذریعہ اجنبی لڑکا لڑکی ایک دوسرے کی آواز بے تکلف سنتے ہیں اور باہم گفتگو کرنے میں ان کے لئے حیاءمانع نہیں ہوتی۔یہی نہیں چیٹنگ کے دوران ویب کیم کے ذریعہ یہ دونوں ایک دوسرے کوبے محابا دیکھتے ہیں ، حیاءکی چادر تارتار ہوئی جاتی ہے لیکن ان کی نگاہیں پست نہیں ہوتیں ۔انٹرنیٹ کے اس بدترین طریقہ استعمال سے تو بادیہ نشینی بہترہے ، اس طرح کے ترقی یافتہ افراد سے دیہات کے سادہ لوح افراد کئی درجہ بہترہیں۔اسی طرح موبائل فون کے ذریعہ ویڈیو کالنگ کی مدد سے ایک دوسرے کو دیکھا جارہا ہے ، اس کے لئے نہ سسٹم اور لیپ ٹاپ کی ضرورت ہے اور نہ کسی اورکنکشن کی ۔جبکہ بدنظری وبدنگاہی سے متعلق وعیدیں آئی ہیں۔امام طبرانی کی معجم کبیر ،امام سیوطی کی جامع الاحادیث اورامام علی متقی ہندی رحمة للہ تعالی علیہ کی کنزالعمال میں حدیث شریف ہے:لتغضن ....ترجمہ:سیدناابو امامہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا:تم ضرور اپنی نگاہوں کو نیچی رکھو اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرو !ورنہ اللہ تعالی تمہارے چہروں کوبدل دے گا۔(معجم کبیر طبرانی ، حدیث نمبر: 7746-جامع الاحادیث، حرف اللام،حدیث نمبر: 18309- ?نز العمال، حدیث نمبر:13082۔حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے :مَن....ترجمہ:جوکوئی شہوت کے ساتھ کسی اجنبی عورت کے مقاماتِ زینت کودیکھتا ہے تو قیامت کے دن اس کی آنکھوں میں سیسہ پگھلا کر ڈالا جائے گا۔ ہدایہ ،کتاب الکراہی ،ج4،ص458۔ان احادیث شریفہ میں غیر مرد کے اجنبی عورت کودیکھنے پر جو وعید آئی ہے وہ اس عورت کے حق میں بھی ہے جو اجنبی مردوں کے سامنے اپنے محاسن کو ظاہر کرتی ہے اور ان کودیکھنے کا موقع دیتی ہے-انٹرنیٹ چیٹنگ ، وائس چیٹنگ اور ویب کیم کے ذریعہ لڑکا لڑکی کے درمیان قائم ہونے والے یہ تعلقات اس قدر قوی اور مستحکم ہوجاتے ہیں کہ معاملہ محض ہمکلامی اور نظر بازی پر ہی ختم نہیں ہوتا بلکہ نوبت میل ملاپ سے لے کر جنسی تعلقات تک پہنچ جاتی ہے۔ جو معاملہ غیر شرعی طریقہ پر وقت گزاری اور دل لگی سے شروع ہوا تھا اس کی انتہاءسنگین طور پر شرعی حدود کی پامالی اور اسلامی قانون کی بھیانک خلاف ورزی پر ہوتی ہے۔اجنبی لڑکیوں اور لڑکوں کا آپس میں جنسی تعلقات رکھنا خواہ کسی نوعیت سے بھی ہوں سخت ناجائز وشدید حرام ہے۔ انٹرنیٹ کا استعمال ہو یا کوئی اور طریقہ کار کسی صورت میں قوانین اسلامیہ واحکام شرعیہ کے حدود کو نہیں توڑا جاسکتا۔تِلک.... الظَّالِمونَ۔ترجمہ: یہ اللہ کی (مقرر کی ہوئی) حدیں ہیں ،تم ان سے آگے نہ بڑھو اور جو اللہ کی حدوں سے آگے بڑھے تو وہی لوگ ظالم ہیں:سورة البقرة،229۔نیز ارشاد الہی ہے:وقد خاب من حمل ظلما۔ترجمہ: اور یقینا وہ شخص نامراد ہوا جس نے تھوڑا بھی ظلم کیا ہو۔صحیح بخاری وصحیح مسلم میں حدیث پا ک ہے کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ترجمہ:جب کوئی زانی زنا کررہا ہوتا ہے تووہ اس وقت کامل مومن نہیں ہوتا۔بحوالہ صحیح بخاری شریف ،کتاب الجمعة ،باب من انتظرحتی تدفن ،حدیث نمبر: 2475۔ مسلم شریف ،کتاب الایمان ،باب بیان نقصان الایمان بالمعاصی ،حدیث نمبر:211 ۔زنا کاری کے مفاسد اور اس کی قباحت وشناعت کو ظاہرکرتے ہوئے حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نےزناکو شرک کے بعد سب سے بڑا گناہ قرار دیا۔ارشاد فرمایا: ما من ذنب بعد .... ترجمہ: شرک کے بعد کوئی گناہ اس نطفہ سے بڑھ کر نہیں جس کو کوئی شخص کسی ایسے رحم میں رکھے جو شرعاً اس کے لئے حلال نہ تھا۔جامع الاحادیث للسیوطی ، حرف الم،حدیث نمبر: 20456۔نکاح کے بغیراجنبیوں سے جنسی تعلقات رکھنا سخت ترین گناہ اورغضب الہی کی آگ کو بڑھکا نے والا سنگین جرم ہے ۔نکاح کے بغیرناجائز تعلقات قائم کرنے پر آمادہ کرنے والی چیزیں:(1)دینی تعلیم سے دوری(2)تربیت میں لاپروائی(3) اوباشوں کی صحبت(4)اسکولوں میں جنسی تعلیم کا فروغ(5) ٹی وی اور فلم بینی(6)انٹرنیٹ کا غلط استعمال(7)وائس چیٹنگ کا ناجائز استعمال(8)ویب کیم کے ذریعہ اجنبی نامحرم کو دیکھنا(9)موبائل فون کے ذریعہ ویڈیوکالنگ ۔اگر جنسی بے راہ روی بدنگاہی سے کلیةً پرہیز نہ کیا جائے تو دینی نقصان کے علاوہ اس کی وجہ سے قسم قسم کی مہلک بیماریوں میں مبتلا ہونے کا قوی اندیشہ ہے۔ چنانچہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:لم تظہر الفاحشة.... الذین مضوا ۔ترجمہ: جب کسی قوم میں فحاشی کا رواج بڑھتا ہے یہاں تک کہ وہ علانیہ بے حیائی کرنے لگتی ہے تو ان لوگوں کے درمیان طاعون اور ایسی بیماریاں پھیل جاتی ہیں جو ان کے اسلاف کے زمانہ میں موجود نہیں تھیں۔سنن ابن ماجہ ابواب الفتن، ص290، باب العقوبات حدیث نمبر4009۔یوروپی ممالک نے باہمی تعلقات میں جنسی بے راہ روی و عریانیت انتہائی عام کردی ہے، جس طرح تمام افراد خاندان خورد و نوش کے لیے ایک دسترخوان پر جمع ہوتے ہیں اسی طرح دوسرے جنسی امور کی تکمیل کے لیے ایک دوسرے کے سامنے ہونا کوئی عیب و عار نہیں سمجھتے۔ امریکی کالجوں اور یونیورسٹیوں کے طلباءو طالبات کے درمیان جنسی جرائم نت نئی شکل میں روز افزوں ہیں۔ چنانچہ اخبارات میں شائع شدہ خبروں کے بموجب معلوم ہوتا ہے کہ غیر شادی شدہ لڑکیاں لاکھوں ناجائز بچے جنم دے رہی ہیں جن لڑکیوں کی عمریں بیس سال سے زائد نہیں تھیں اور ان میں سے اکثر یونیورسٹیوں اور کالجوں کی طالبات ہیں۔
الیکٹرانک میڈیا اور وقت کی تباہی
ریڈیو،ٹی وی ہو یک موبائل ،انٹرنیٹ جب کوئی شخص اسے استعمال کرنے لگتا ہے تو اس کا غیر معمولی وقت ضائع ورائیگاں ہوتا ہے ۔ضرورت کے لئے استعمال یقینا روا ہے لیکن ضرورت سے زائد بے سود اور بے مقصد استعمال سے دیگر نقصانات کے علاوہ وقت کا ضائع ہونا بھی بہت بڑا نقصان ہے۔صحیح بخاری شریف میں حدیث پاک ہے:عَنِ ....فَرَاغ ۔ترجمہ:سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے آپ نے فرمایا کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: دونعمتیں ایسی ہیں کہ اکثر لوگ اس سے غفلت میں رہتے ہیں: (1)تندرسی اور(2) فرصت۔صحیح بخاری ،کتاب الرقاق، باب ما جاءفی الرقاق.... حدیث نمبر6412۔ ،ج4،کتاب الرقاق ،ص148۔حدیث پاک میں مذکور کلمہ’مغبون ‘کے دو معانی بتلائے گئے ہیں ، ایک یہ کہ ان دونعمتوں سے متعلق بہت سے لوگ نقصان وخسارہ میں ہیں کہ ان نعمتوں سے جیسا استفادہ کرنا چاہئے نہیں کرتے ، فرصت کے بیش قیمت لمحات کو ضائع کرتے ہوئے نقصان وزیاں سے دوچار ہوتے ہیں۔ حدیث پاک کا دوسرا مفہوم یہ ہے کہ بہت سے لوگ ان نعمتوں سے غفلت کا شکار ہیں ، انہیں ان نعمتوں کے نعمت ہونے کا احساس نہیں تبھی تو وہ ان اوقات کو بے سود وبے فائدہ چیز یں سننے میں صرف کرنے کے لئے تیار ہیں ۔لہٰذاوالدین کی اہم ذمہ داری ہے کہ اخلاق کی اصلاح کو پیش نظررکھتے ہوئے اپنے نونہالوں کو ایسی چیزیں نہ دیں جس سے وہ بے حیائی سے آشناہوجائیں ، ٹی وی کے عریاں ونیم عریاں مناظرسے ان کی آنکھوں کی حفاظت کریں ، اگرمذہبی وتعلیمی پروگرام کی خاطر ٹی وی دیکھیں تو ٹی وی سے ہونے والے شراورنقصان کودور کرنے کی تدبیر کریں، اس میں دکھائی دینے والے مناظرکا باقاعدہ سد باب کریں ۔بے حیائی والے چینلوں کی منصوبہ بندروک تھام کریں۔ اسی طرح انٹرنیٹ کے تباہ کن استعمال سے بچوں کو محفوظ رکھیں ، گھرمیں بلاضرورت انٹرنیٹ کنکشن اخلاق کے لئے انتہائی مضراور نقصاندہ ہے ، اگر انٹرنیٹ کے استعمال کی ضرورت ہوتو پاسورڈ وغیرہ سے اس طرح محفوظ رکھیں کہ بچہ والدین کی مرضی کے بغیرانٹرنیٹ استعمال نہ کرسکے۔ جب اسلامی اصول کے مطابق کڑی نگہداشت کی جائے تو بچے باشعورہونے تک ایسے بااخلاق ہونگیں کہ تنہائی میں بھی کسی بے حیائی والے منظر کو دیکھنے سے گریز کریں گے۔ اگر کسی طرح بے حیائی ان کی نگاہوں کے سامنے ہوجائے تو نگاہ جھک جائے گی ، دل ناپسند کرے گا اور تمام اعضاءپر نفرت کے مارے رونگٹے کھڑے ہوجائیں گے۔ الیکٹرانک میڈیا سے متعلق اہل اسلام کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ ریڈیو ، ٹی وی چینلوں ، انٹرنیٹ موبائل فون وغیرہ تمام الیکٹرانک ذرائع ابلاغ کو اسلامی قانون کے مطابق استعمال کریں ، اپنے نونہالوں اور ماتحت افراد کے ہاتھوں میں یہ الیکٹرانک ذرائع دے کر انہیں بے لگام نہ چھوڑیں۔آج ابلاغ و ترسیل کے عصری ذرائع ‘ روزنامے‘ ماہ نامے‘ سالانہ میگزینوں کے علاوہ موبائل فون‘ ٹی وی‘ انٹرنیٹ زیادہ مرکز توجہ ہیں۔ اگر ان ذرائع سے تخریبِ اخلاق ‘ بے حیائی و بے پردگی پھیلائی جارہی ہے تو ان ذرائع کو کلی طور پر چھوڑنے کا حکم نہیں دیا جاسکتا بلکہ دین اسلام ان کو صحیح طریقہ سے استعمال کرنے کی تعلیم دیتا ہے۔عرب کا طریقہ یہ تھا کہ جب کوئی اہم بات کہنا منظور ہو اور ساری قوم کو متوجہ کرنا مقصود ہو تو صفا پہاڑ پر چڑھ کر ندا دیتے اور ساری قوم متوجہ ہوجاتی۔ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اعلانیہ اسلام کی عمومی دعوت دینے کے لئے یہی مروجہ طریقہ اختیار فرمایا۔ صفا پہاڑ پر تشریف لے گئے اور قوم کو اسلام کی دعوت دی۔ حق کا پیغام سنایا۔صفا کے علاوہ جبلِ نور‘ کوہِ ابوقبیس‘ مروہ اور دیگر پہاڑبھی تھے ان کی بجائے کوہِ صفا کا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انتخاب فرمایا ۔ اپنے عمل مبارک سے امت کی رہنمائی فرمائی اور تعلیم دی کہ پیغام رسانی کے لئے وہ طریقہ اختیار کرنا چاہئے جو زیادہ لوگوں تک اپنی بات کوپہنچانے میں موثروکارآمدہو۔لہٰذا مسلمانوں کے لئے ضروری ہے کہ تمام عصری وسائل کو استعمال کریں ۔ اشاعتی اسباب‘ پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعہ تعلیم اتنی عام کردی جائے کہ یہ وسائل و اسباب کا استعمال خیر وبھلائی کے لئے کثرت سے استعمال ہونے لگیں۔مخربِ اخلاق ویڈیو‘ آڈیو اور مضامین و کتب کا جال جس نظم و نسق کے ساتھ پوری دنیا میں پھیل گیا ہے‘ اور اس کے لئے سینکڑوں ریڈیو اور ٹی وی چینل اور ہزاروں ویب سائٹیں کام کررہی ہیں۔دینی تعلیم کے فروغ کی غرض سے اور اصلاحی مقاصد کی تکمیل کے لئے اسی تعداد میں بلکہ اس سے زائد ‘ اخلاقی گندگیوں سے پاک چینل اور فحاشی سے محفوظ ویب سائٹیں مصروف عمل کی جائیں۔ ہر چینل ‘ ہرویب سائٹ ہر ذریعہ ابلاغ وترسیل کااستعمال دینی معلومات کی غیر معمولی تشہیرکیلئے ہو۔اس کے نتائج فوراً نہ سہی بتدریج سامنے آئیں گے ‘مقاصد حاصل ہوتے نظر آئیں گے ‘ ایک حد تک ان کی تکمیل ہوسکے گی نیزعالمی حالات میں مثبت سماجی و معاشرتی ‘ انفرادی و اجتماعی تبدیلی آئے گی۔
sarailliyasi@gmail.com+919811254615

200811 kaisey bachey electronic media ke muzirrat sey by sara illiyasi

Friday, June 17, 2011

موت کے منہ میں جارہی ہے دیہی آبادی


سارہ الیاسی
شہروں کی چمک دمک اور بارونق زندگی دیہات میں بسنے والوں کیلئے پرکشش رہی ہے جبکہ ان کی یہ منتقلی دراصل موت کی جانب سفر ہے۔دیہات گذشتہ روزاقوام متحدہ کے اعداد و شمار نے اس حقیقت پر سے پردہ اٹھایا ہے کہ ہندوستان کی شہری آبادی میں ہر سال 1.1 فیصد اضافہ ہو رہا ہے، جبکہ دیہی علاقوں میں آبادی میں کمی کی سالانہ شرح 0.37 فیصد ہے جبکہ ایک اندازے کے مطابق امریکہ میں شہری آبادی ہندوستان کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔ ہندوستان میں کل شہری آبادی 30 جبکہ امریکہ میں وہاں کی مجموعی آبادی کا 82فیصد بنتی ہے۔ہندوستان میں کی جانے والی اس ریسرچ میں محققین کی ٹیم نے دیہات میں زندگی بسر کرنے والے باشندوں کی صحت کا مقابلہ ان کے ایسے بھائی بہنوں کی صحت کے ساتھ کیا جو ہندوستان کے چار بڑے شہروں لکھنو، ناگپور، حیدر آباد یا بنگلور میں سے کسی ایک میں منتقل ہو گئے تھے اور وہیں رہتے ہیں۔اس طرح پتہ چلا ہے کہ ہندوستان میں دیہی آبادی کی شہروں کی طرف تیزی سے ہونے والی نقل مکانی دراصل عوامی صحت پر گہرے منفی اثرات مرتب کر رہی ہے۔اس رپورٹ کے مطابق دیہی علاقوں میں آباد باشندوں کے مقابلے میں شہروں میں طویل عرصے تک زندگی بسر کرنے والے افراد میں عارضہ قلب اور ذیابیطس کے خطرات کئی گنا زیادہ ہوتے ہیں۔ جسمانی چربی، بلڈ پریشر اور نہار منہ خون میں پائی جانے والی انسولین کی سطح سے ذیابیطس کے مرض کے خطرات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ان سب میں اضافہ ا ±ن افراد میں پایا گیا جنہیں دیہات سے شہروں میں آکر آباد ہوئے محض ایک عشرے کا عرصہ گزرا ہے۔ اس بارے میں امریکہ کے’جرنل آف ایپی ڈیمیولوجی‘ یعنی وبائی امراض کے بارے میں شایع ہونے والے ایک تحقیقی جریدے میں ایک رپورٹ شائع ہوئی ہے جس کے بعد سے دنیا بھر کی شہری آبادی کی صحت کو لاحق خطرات کو گہری تشویش کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے۔ اس حوالے سے کی جانے والی ریسرچ میں شامل محققین کے گروپ لیڈر سنجے کِنرا، جن کا تعلق ’لندن اسکول آف ہائجین اینڈ ٹروپیکل میڈیسن‘ سے ہے۔ ان کاماننا ہے کہ’تحقیق کے نتائج بتاتے ہیں کہ انسانی جسم میں فیٹ یا چربی کی مقدار میں ا ±سی وقت تیزی سے اضافہ شروع ہو جاتا ہے، جب کوئی شخص گاو ¿ں یا دیہہ سے شہری ماحول میں آتا ہے۔ ا ±س کے بعد رفتہ رفتہ اس کے اندرCardiometabolic risk factors یا قلبی فعلیات کے نقائص پیدا ہونے کے امکانات بڑھنا شروع ہو جاتے ہیں‘۔پتہ یہ چلا کہ جو سب سے طویل عرصے سے شہر میں رہ رہا ہے، ا ±س کا بلڈ پریشر سب سے زیادہ تھا۔ مثال کے طور پر ایسے مرد جو کسی بڑے شہر میں 30 سال سے زائد کے عرصے سے زندگی بسر کر رہے ہیں، ا ±ن کا کا بلڈ پریشر ا ±ن مردوں سے زیادہ تھا جو دس سے 20 سال کے درمیان کے عرصے سے شہروں میں آباد ہیں۔دیہات میں رہنے والے مردوں کے جسموں میں چربی کی اوسط مقدار 21 فیصد جبکہ کم از کم دس سال سے شہر وں میں زندگی سکونت اختیار کیے ہوئے مردوں کے جسموں میں چربی کی اوسط مقدار 24 فیصد پائی گئی۔محققین کے گروپ لیڈر’سنجے کِنرانے تاہم اپنی رپورٹ میں تحریر کیا ہے کہ مذکورہ بیماریوں کا تعلق عمر، جنس، ازدواجی حیثیت، رہن سہن کے طریقوں اور پیشے سے نہیں ہوتا۔ لیکن انہوں نے یہ ضرور کہا ہے کہ بدن میں چربی کی مقدار میں کمی بیشی،کمزور سماجی طبقات سے تعلق رکھنے والوں میں زیادہ پائی گئی ہے۔
sarailliyasi@gmail.com+919811254615
180611mot ke mo me ja rahi hey dehi aabadi by sara illiyasi

Monday, April 25, 2011

Medal of Honor: Game Controversy


برقیہ چھاپیے
Medal of Honor: Game ControversySara Illiyasi
Similar to other forms of media, video games have been the subject of argument between leading professionals and restriction and prohibition. Often these bouts of criticism come from use of debated topics such as video game graphic violence, virtual sex, violent and gory scenes, partial or full nudity, portrayal of criminal behavior or other provocative and objectionable material. Video games have also been studied for links to addiction and aggression. Several studies have found that video games do not contribute to these problems. Furthermore, several groups have argued that there are few if any scientifically proven studies to back up these claims, and that the video game industry has become an easy target for the media to blame for many modern day problems. Furthermore, numerous researchers have proposed potential positive effects of video games on aspects of social and cognitive development and psychological well-being. It has been shown that action video game players have better hand-eye coordination and visuo-motor skills, such as their resistance to distraction, their sensitivity to information in the peripheral vision and their ability to count briefly presented objects, than non-players.

The game Medal of Honor (MoH) follows the exploits of Special Forces troops battling insurgents in Afghanistan in 2002. The video game has gone on sale despite calls by the UK defence secretary to ban it.

In August, Defence Secretary Dr Liam Fox called for the game to be banned after it emerged that users could fight as The Taliban. Its developer EA said the game was meant to be realistic, but eventually renamed The Taliban "The Opposition". This edition, the latest in EA's long running series of games bearing the MoH title, has dispensed with its World War II theme and opted to recreate modern combat in the ongoing conflict in Afghanistan. But with 150,000 American, British and Allied troops fighting in Afghanistan, many felt taking on the role of the Taliban was a step too far. Dr Fox described the game as "un-British" and said it was "shocking that someone would think it acceptable to recreate the acts of the Taliban against British soldiers".

EA weathered the storm for a few weeks, but in early October the firm bowed to pressure and took the term "Taliban" out of the multiplayer option. Despite the change, the game is still banned from sale on military bases, although troops can purchase it elsewhere and play it on station.

Over two hundred studies have been published which examine the effects of violence in entertainment media and which at least partially focus on violence in video games in particular. Some psychological studies have shown a correlation between children playing violent video games and suffering psychological effects, though the vast majority stop short of claiming behavioral causation.
sarailliyasi@gmail.com
منگل, 19 اکتوبر 2010 16:06 

متنازع ویڈیو گیم :میڈل آف آنر


برقیہ چھاپیے
Medal of Honor: Game Controversyسارہ الیاسی
یہ ایک ناقابل تردیدسماجی حقیقت ہے کہ انسان ابتداءہی سے فرصت کے اوقات میں تفریحی سرگرمیوں کا شوقین رہا ہے۔پرانے زمانے میںآؤٹ ڈور یعنی گھر سے باہر تیر اندازی، گھڑ دوڑ، کسرت، شہہ زوری جیسے جسمانی صحت کے کھیلوں کے ساتھ ساتھ ان ڈوریعنی گھر کے اندرشطرنج، ڈرافٹ، لوڈو، بیت بازی، پہیلیاں بوجھنا جیسے ذہانت اور حاضر دماغی والے کھیل بھی کھیلے جاتے تھے۔ آج کے جدید ترقی یافتہ دور میں جہاں انسانی سہولت کے لیے بے شمار ایجادات وجود میں آئی ہیں وہیں کھیلوں نے بھی جدید روپ اختیار کرلیا اور کمپیوٹر کی مفید ایجاد نے ان کھیلوں کو ڈیجٹلائزڈ کرکے گھر گھر پہنچادیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ آج لاکھوں کی تعداد میں ویڈیو گیموں کو ٹی وی اور کنسول سے کمپیوٹر تک ہر سہولت کے مطابق بازار میں بآسانی دستیاب ہیں ۔ان گیموںنے مقبولیت کے ساتھ متنازع حیثیت بھی اختیار کرلی ہے اور یہ بحث بھی جاری ہے کہ کمپیوٹر گیمز کا استعمال تفریح و معلومات اور ذہنی تربیت کرتا ہے یا بچوں میں طبی، نفسیاتی، معاشرتی اور تعلیمی مسائل پھیلارہا ہے جبکہ ایک فوجی بن کرمیدان جنگ میں اترنایا ایک جیٹ جہاز پرواز کرتے ہوئے یا خون آشام بلاؤں کو ختم کرکے دنیا کو بچانابچوں کو ہی نہیں بڑوں کو بھی دلچسپ لگتا ہے۔ جن حالات کسی نے کبھی دیکھا نہیں سنا نہیں ویڈیو گیم کے ذریعہ وہ امیجین کرسکتاہے اور یہ امیجینشن خیالی پلاؤ پکانے سے بہتر ہے۔ سمز گیم کے خالق ول رائٹ کے مطابق گیمرز ایک بالکل نئے طریقے سے سیکھ رہے ہوتے ہیں ۔وہ دنیا کو کی تخلیق کے بارے میں سوچ رہے ہوتے ہیں نہ کہ خاتمہ کے۔یہ سچ ہے ویڈیو گیمز کا اثر ہماری ثقافت پر بھی پڑے گا۔
ایسا ہی ایک یہ ویڈیو گیم ہے’میڈل آف آنر‘(MoH)۔یہ گیم 2002 میں افغانستان میں طالبان کے خلاف سرگرم خصوصی افواج کی کارروائیوں کے بارے میں ہے جو ان دنوں خبروں میں چھایا ہوا ہے۔برطانوی سیکرٹری دفاع کی جانب سے ’میڈل آف آنر‘ نامی ویڈیو گیم پر پابندی کے مطالبے کے باوجود اس گیم کی فروخت شروع ہوگئی ہے۔دراصل رواں برس اگست میں برطانوی سیکرٹری دفاع ڈاکٹر لیئم فاکس نے ان اطلاعات کے بعد اس گیم پر پابندی کا مطالبہ کیا تھا کہ اس گیم میں صارف طالبان کی جانب سے بھی لڑائی میں حصہ لے سکتا ہے۔ڈاکٹر فاکس نے اس کھیل کو’غیر برطانوی‘ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’یہ چونکا دینے والی بات ہے کہ برطانوی فوجیوں کے خلاف طالبان کی کارروائیوں کی دوبارہ منظر کشی کسی کے لیے قابلِ قبول ہو سکتی ہے‘۔پابندی کے مطالبے پر گیم بنانے والی کمپنی الیکٹرونکس آرٹس نے کہا تھا کہ وہ اس گیم کو حقیقت کے قریب تر بنانا چاہتے ہیں تاہم بعد ازاں اکتوبر کے آغاز میں انہوں نے طالبان کے لفظ کو حزبِ مخالف سے بدل دیا تھا۔اس تبدیلی کے باوجود یہ گیم اب بھی فوجی اڈوں پر فروخت نہیں کیا جا سکے گا تاہم فوجی اسے باہر سے خرید کر فوجی اڈوں میں لا کر کھیل سکیں گے۔گیمنگ ویب سائٹ یوروگیمر کے لیے کام کرنے والے صحافی جان منکلے نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کے خیال میں الیکٹرونکس آرٹس کی جانب سے اپنے صارفین کو طالبان کی جانب سے گیم میں حصہ لینے کی اجازت دینا ایک تشہیری حربہ تھا۔ان کا کہنا تھا کہ ’وہ یعنی الیکٹرونکس آرٹس جانتے تھے کہ یہ متنازع ہوگا لیکن انہیں توجہ حاصل کرنے کے لیے سب کچھ کرنا تھا اور خصوصاً اس وقت جب ان کا مقابلہ کال آف ڈیوٹی: ماڈرن وارفیئر جیسے دنیا کے سب سے بڑے برانڈ سے ہو‘۔
واضح رہے کہ محض ’میڈل آف آنر‘ پر ہی موقوف نہیں بلکہ اس سے قبل تمام ویڈیو گیم تنقید کا نشانہ بنے ہیں۔ان گیموں پر سب سے زیادہ تنقید یہ ہے کہ اس کے ذریعہ نوجوانوں میں حد سے زیادہ تشدد کو فروغ دیا جارہا ہے، اس تنقید پر کئی اہم اداروں مثلاً ہارورڈ میڈیکل سینٹر فار مینٹل ہیلتھ ، جرنل آف ایڈولسینٹ ہیلتھ اور برٹش میڈیکل جرنل نے بھی ویڈیو گیمز کے استعمال سے پیدا ہونے والی پر تشدد سرگرمیوں کے درمیان لنک ظاہر کیا ہے۔ ان کے مطابق حالیہ تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ زیادہ تر گیموں میں دکھائے جانے والے تشدد کو بچے اور نوجوان اسکول یا گھر سے باہر اسی طرح نقل کرنے کی کوشش ہی نہیں کرتے بلکہ ان کے رویوں میں ماردھاڑ کے شامل ہونے حتی کہ گالی گلوچ اور سگریٹ نوشی تک کی لت وہ گیمز سے سیکھتے ہیں۔ان اسٹڈیز سے پتہ چلتا ہے کہ جارحیت اور تشدد پر مبنی ویڈیو گیمز پرتشدد رویے اور مجرمانہ سوچ اور محسوسات، اسکولوں اور کھیل کے میدانوں میں لڑائی جھگڑا، بڑھتے ہوئے جسمانی طاقت کے استعمال کا رجحان اور بہتر سماجی رویوں کی کمی میں گہرا تعلق ہے، پرتشدد گیمز ٹی وی اور فلموں میں دکھائے جانے والے پرتشدد مناظرات سے زیادہ خطرناک ہوتے ہیں کیوں کے اس میں ہونے والی پرتشدد کاروائیوں میں بچہ خود بھی انوالو ہوتاہے۔ ان گیموں میں جنسی بداخلاقی کے پہلو بھی کسی حد تک نمایاں رکھے جاتے ہیں جبکہ بعض گیوںسے بچہ معصوم راہ گیروں، پولیس کو بے دردی سے مارنا سیکھتے ہیں اور اس کے لئے مختلف ہتھیاروں چاقو یا خنجر، بندوقوں اور آتشی اسلحہ، تلواروں اور بیس بال بیٹ کا استعمال کرتے ہیں گیم کھیلنے والا خود کو مجرم کی جگہ تصور کرتے ہوئے کھیلتا ہے۔
منگل, 19 اکتوبر 2010 16:06 

Sunday, April 24, 2011

بے خوفی: قدرت کا بیش قیمت عطیہ!


سارہ الیاسی
گذشتہ دنوں سائنسدانوں نے پتہ چلایا ہے کہ ڈر اور خوف کا تعلق دماغ کی خرابی سے ہے جس کے تئت انسان بے خوف ہوجاتا ہے۔گویا بہادری خوبی نہیں بلکہ دماغ کی خرابی ہے جبکہ اسلام کی روشنی مےںبزدلی اچھے اخلاق میں شمار نہیں ہوتی۔دراصل اخلاق دراصل ان صفات اور افعال کو کہا جاتا ہے جو انسان کی زندگی میں اس قدر رچ بس جاتے ہیں کہ غیر ارادی طورپربھی ظہور پذیر ہونے لگتے ہیں۔ موقع پڑنے پربہادرشخص فطری طور پر میدا ن کی طرف بڑھنے لگتا ہے جبکہ بزدل طبیعی انداز سے پرچھائیوں سے ڈرنے لگتا ہے۔ کریم کا ہاتھ خود بخود جیب کی طرف بڑھ جاتا ہے اور بخیل کے چہرے پر سائل کی صورت دیکھ کر ہوائیاں اڑنے لگتی ہیں۔ اسلام نے غیر شعوری اور غیر ارادی اخلاقیات کو شعوری اور ارادی بنانے کا کام بھی انجام دیاہے اور اس کا مقصد یہ ہے کہ انسان ان صفات کو اپنے شعور اور ارادہ کے ساتھ پیدا کرے تاکہ ہر اہم سے اہم موقع پر صفت اس کا ساتھ دے ورنہ اگر غیر شعوری طور صفت پیدا بھی کرلی ہے تو حالات کے بدلتے ہی اس کے متغیر ہو جانے کا خطرہ رہتا ہے۔ اسلام نے صاحب ایمان کی اخلاقی تربیت کاسامان فراہم کیا ہے اور یہ چاہا ہے کہ انسان میں اخلاقی جوہر بہترین تربیت اور اعلیٰ ترین شعور کے زیر اثر پیدا ہو۔
سخت ترین حالات میں قوت برداشت کا باقی رہ جانا ایک بہترین اخلاقی صفت ہے لیکن یہ صفت بعض اوقات بزدلی اور نافہمی کی بنا پر پیدا ہوتی ہے اور بعض اوقات مصائب و مشکلات کی صحیح سنگینی کے اندازہ نہ کرنے کی بنیاد پر۔ اسلام نے یہ چاہا ہے کہ یہ صفت مکمل شعور کے ساتھ پیدا ہو اور انسان یہ سمجھے کہ قوت تحمل کا مظاہرہ اس کا اخلاقی فرض ہے جسے بہر حال ادا کرنا ہے۔ تحمل نہ بزدلی اور بے غیرتی کی علامت بننے پائے اور نہ حالات کے صحیح ادراک کے فقدان کی علامت قرار پائے۔ ولنبلونکم بشئی من الخوف و الجوع .........من ربہم و رحمة و اولئک ہم المہتدون‘’ یقینا ہم تمہارا امتحان مختصر سے خوف اور بھوک اور جان، مال اور ثمرات کے نقص کے ذریعہ لیں گے اور پیغمبر آپ صبر کرنے والوں کو بشارت دے دیں جن کی شان یہ ہے کہ جب ان تک کوئی مصیبت آتی ہے تو کہتے ہیں کہ ہم اللہ کے لیے ہیں اور اسی کی بارگاہ میں پلٹ کر جانے والے ہیں۔ انہیں افراد کے لیے پروردگار کی طرف سے صلوات اور رحمت ہے اور یہی ہدایت یافتہ لوگ ہیں۔‘گویاخوف خرابی نہیں بلکہ امتحان ہے۔جبکہ امتحان اس لئے درپیش آتے ہیں تاکہ کامیاب لوگوں کے درجے بلند کرائیں۔
 آیت کریمہ سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اسلام قوت تحمل کی تربیت دینا چاہتا ہے اور مسلمان کو ہر طرح کے امتحان کے تیار کرنا چاہتا ہے اور پھر تحمل کو بزدلی سے الگ کرنے کے لیے ’انا للہ و انا الیہ راجعون ‘کی تعلیم دیتا ہے اور نقص اموال اور انفس کو خسارہ تصور کرنے کے جواب میں صلوات اور رحمت کا وعدہ کرتا ہے تاکہ انسان ہر مادی خسارہ اور نقصان کے لیے آمادہ رہے اور اسے یہ احساس رہے کہ مادی نقصان، نقصان نہیں ہے بلکہ صلوات اور رحمت کا بہترین ذریعہ ہے۔ انسان میں یہ احساس پیدا ہوجائے تو وہ عظیم قوت تحمل کا حامل ہوسکتا ہے اور اس میں یہ اخلاقی کمال شعوری اور ارادی طور پر پیدا ہوسکتا ہے اور وہ ہر آن مصائب کا استقبال کرنے کے لیے اپنے نفس کو آمادہ کر سکتا ہے۔ ’الذین قال لہم الناس ان الناس قد جمعوا لکم فاخشو ہم........ وابتعوا رضوان اللہ واللہ ذو فضل عظیم‘’وہ لوگ جن سے کچھ لوگوں نے کہا کہ دشمنوں نے تمہارے لیے بہت بڑا لشکر جمع کر لیا ہے تو ان کے ایمان میں اور اضافہ ہوگیا اور انہوں نے کہا کہ ہمارے لیے خدا کافی ہے اور وہی بہترین محافظ ہے جس کے بعد وہ لوگ نعمت و فضل الہی کے ساتھ واپس ہوئے اور انہیں کسی طرح کی تکلیف نہیں ہوئی اور انہوں نے رضائے الہی کا اتباع کیا، اور اللہ بڑے عظیم فضل کا مالک ہے۔‘
آیت کریمہ کے ہر لفظ میں ایک نئی اخلاقی تربیت پائی جاتی ہے اور اس سے مسلمان کے دل میں ارادی اخلاق اور قوت برداشت پیدا کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔ دشمن کی طرف سے بے خوف ہوجانا شجاعت کا کمال ہے لیکن حسبنا اللہ کہہ کر بے خوفی کا اعلان کرنا ایمان کا کمال ہے۔ بے خوف ہوکر نامناسب اور متکبرانہ انداز اختیار کرنادنیاوی کمال ہے اور رضوان الہی کا اتباع کرتے رہنا اسلامی کمال ہے۔اسلام ایسے ہی اخلاقیات کی تربیت کرنا چاہتا ہے اور مسلمان کو اسی منزل کمال تک لے جانا چاہتا ہے۔ ’ولما..... و صدق اللہ و رسولہ و ما زاداہم الا ایماناً تسلیماً‘(احزاب ۲۲)’اور جب صاحبان ایمان نے کفار کے گروہوں کو دیکھا تو برجستہ یہ اعلان کردیا کہ یہی وہ بات ہے جس کا خدا و رسول نے ہم سے وعدہ کیا تھا اور ان کا وعدہ بالکل سچا ہے اور اس اجتماع سے ان کے ایمان اور جذبہ تسلیم میں مزید اضافہ ہوگیا۔‘
مصیبت کو برداشت کر لینا ایک انسانی کمال ہے لیکن اس شان سے استقبال کرنا گویا اسی کا انتظار کر رہے تھے اور پھر اس کو صداقت خدا اور رسول کی بنیاد قرار دے کر اپنے ایمان و تسلیم میں اضافہ کر لینا وہ اخلاقی کمال ہے جسے قرآن مجید اپنے ماننے والوں میں پیدا کرنا چاہتا ہے۔ ’وکاین من .... یحبّ الصابرین“ (آل عمران ۱۴۶) ’اور جس طرح بعض انبیاءکے ساتھ بہت سے اللہ والوں نے جہاد کیا ہے اور اس کے بعد راہ خدا میں پڑنے والی مصیبتوں نے نہ ان میں کمزوری پیدا کی اور نہ ان کے ارادوں میں ضعف پیدا ہوا اور نہ ان میں کسی طرح کی ذلّت کا احساس پیدا ہوا کہ اللہ صبر کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔‘آیت سے صاف واضح ہوتا ہے کہ اس واقعہ کی ذریعہ ایمان والوں کواخلاقی تربیت دی جا رہی ہے اور انہیں ہر طرح کے ضعف و ذلت سے اس لیے الگ رکھا جا رہا ہے کہ ان کے ساتھ خدا ہے اور وہ انہیں دوست رکھتا ہے اور جسے خدا دوست رکھتا ہے اسے کوئی ذلیل کرسکتا ہے اور نہ بیچارہ بنا سکتا ہے۔ یہی ارادی اخلاق ہے جواسلام کا طرہ امتیاز ہے اور جس سے دنیا کے سارے مذاہب و اقوام بے بہرہ ہیں۔ ’وعباد الرحمن الذین یمشون علی الارض ہوناً واذا خاطبہم الجاہلون قالوا سلاماً...... فیہا تحیہ وسلاما“ ( فرقان ۶۳)’اور اللہ کے بندے وہ ہیں جو زمین پر آہستہ چلتے ہیں اور جب کوئی جاہلانہ انداز سے ان سے خطاب کرتا ہے تو اسے سلامتی کا پیغام دیتے ہیں۔۔ یہی وہ لوگ جنہیں ان کے صبر کی بنا پر جنت میں غرفے دیے جائیں گے اور تحیہ اور سلام کی پیش کش کی جائے گی۔
 اس آیت میں بھی صاحبان ایمان اور عباد الرحمن کی علامت قوت تحمل و برداشت کو قرار دیا گیا ہے لیکن قالوا سلاماًکہہ کراس کی ارادیت اور شعوری کیفیت کا اظہار کیا گیا ہے کہ یہ سکوت بر بنائے بزدلی اور بے حیائی نہیں ہے بلکہ اس کے پیچھے ایک اخلاقی فلسفہ ہے کہ وہ سلامتی کا پیغام دے کر دشمن کو بھی راہ راست پر لانا چاہتا ہیں۔واضح رہے کہ ان تمام آیات میں صبر کرنے والوں کی جزا کا اعلان تربیت کا ایک خاص انداز ہے کہ اس طرح قوت تحمل بیکار نہ جانے پائے اور انسان کو کسی طرح کے خسارہ اور نقصان کا خیال نہ پیدا ہو بلکہ مزید تحمل و برداشت کا حوصلہ پیدا ہوجائے کہ اس طرح خدا کی معیت، محبت، فضل عظیم اورتحیہ و سلام کا استحقاق پیدا ہوجاتا ہے جو بہترین راحت وآرام اور بے حساب دولت و ثروت کے بعد بھی نہیں حاصل ہوسکتاہے۔اسلام کا سب سے بڑا امتیاز یہی ہے کہ وہ اپنی تعلیمات میں اس عنصر کونمایاں رکھتا ہے اور مسلمان کو ایسا با اخلاق بنانا چاہتا ہے جس کی اخلاقیات صرف افعال، اعمال اور عادات نہ ہوں بلکہ ان کی پشت پر فکر، فلسفہ، عقیدہ اور نظریہ ہو اور وہ عقیدہ و نظریہ اسے مسلسل دعوت عمل دیتا رہے اور اس کی اخلاقیات کو مضبوط سے مضبوط تر بناتا رہے۔
قوت تحمل کے ساتھ اسلام نے ایمانی جذبات کے بھی مرقع پیش کیے ہیں جن سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ وہ تحمل و حلم کو صرف منفی حدوں تک نہیں رکھنا چاہتا ہے بلکہ مصائب و آفات کے مقابلہ میں ایک مثبت رخ دینا چاہتا ہے۔ ’فالقی السحرة ..... وما اکرہتنا علیہ من السحر واللہ خیر و ابقی“ (طہ ۰۷ تا۷۳)پس جادو گر سجدے میں گر پڑے اور انہوں نے کہا کہ ہم ہارون اور موسیٰ کے رب پر ایمان لے آئے تو فرعون نے کہا کہ ہماری اجازت کے بغیر کس طرح ایمان لے آئے بے شک یہ تم سے بڑا جادو گر ہے جس نے تم لوگوں کو جادو سکھایا ہے تو اب میں تمہارے ہاتھ پاو ¿ں کاٹ دوں گا اور تمہیں درخت خرما کی شاخوں پر سولی پر لٹکا دوں گا تاکہ تمھیں معلوم ہو جائے کہ کس کا عذاب زیادہ سخت تر ہے اور زیادہ باقی رہنے والا ہے۔ ان لوگوں نے کہا کہ ہم تیری بات کو موسیٰ کے دلائل اور اپنے پروردگار مقدم نہیں کرسکتے ہیں اب تو جو فیصلہ کنا چاہے کر لے تو صرف اسی زندگانی دنیا تک فیصلہ کر سکتا ہے اور ہم اس لیے ایمان لے آئے ہیں کہ خدا ہماری غلطیوں کو اور اس جرم کو معاف کردے جس پر تونے ہمیں مجبور کیاتھا اور بے شک خدا ہی عین خیر اور ہمیشہ باقی رہنے والا ہے۔’الا تنصروہ فقد نصرہ اللہ ..... کفرو السفلیٰ و کلمة اللہ ہی العلیا اللہ عزیز حکیم۔‘(توبہ ۰۴)
 ’اگر اتم ان کی نصرت نہیں کروگے تو خدا نے ان کی نصرت کی ہے جب انہیں کفار نے دو کا دوسرا بنا کروطن سے نکال دیا اور وہ اپنے ساتھی سے کہہ رہے تھے کہ رنج مت کرو خدا ہمارے ساتھ ہے تو خدا نے ان پر اپنی طرف سے سکون نازل کردیااور ان کی تائید اسے لشکروں کے ذریعہ کی جن کا مقابلہ نا ممکن تھا اور کفار کے کلمہ کو پست قرار دیا اور اللہ کا کلمہ تو بہر حال بلند ہے اور اللہ صاحب عزت بھی ہے اور صاحب حکمت بھی ہے۔‘
 آیت اولیٰ میں فرعون کے دور کے جادوگروں کے جذبہ ایمانی کی حکایت کی گئی ہے جہاں فرعون جیسے ظالم و جابر کے سامنے بھی اعلان حق میں کسی ضعف و کمزوری سے کام نہیں لیا گیا اور اسے چیلنج کر دیا گیاکہ تو جو کرنا چاہے کرلے۔ تیرا اختیار زندگانی دنیا سے آگے نہیں ہے اور صاحبان ایمان آخرت کے لیے جان دیتے ہیں انہیں دنیا کی راحت کی فکر یا مصائب کی پروا نہیں ہوتی ہے۔
اور دوسری آیت میں سرکار دو عالم کے حوصلہ کا تذکرہ کیا گیا ہے اور صورت حال کی سنگینی کو واضح کرنے کے لیے ساتھی کا بھی ذکر کیا گیا جس پر حالات کی سنگینی اور ایمان کی کمزوری کی بنا پر حزن طاری ہو گیا اور رسول اکرم کو سمجھانا پڑا کہ ایمان و عقیدہ صحیح رکھو۔ خدا ہمارے ساتھ ہے اور جس کے ساتھ خدا ہوتا ہے اسے کوئی پریشانی نہیں ہوتی ہے اور وہ ہر مصیبت کا پورے سکون اور اطمینان کے ساتھ مقابلہ کرتا ہے۔ اس کے بعد خدائی تائید اور امداد کا تذکرہ کرکے یہ بھی واضح کردیاگیا کہ رسول اکرم کا ارشاد صرف تسکین قلب کے لیے نہیں تھا بلکہ اس کی ایک واقعیت بھی تھی اور یہ آپ کے کمال ایمان کا اثر تھا کہ آپ پر کسی طرح کا حزن و ملال طاری نہیں ہوا اور آپ اپنے مسلک پر گامزن رہے اور اسی طرح تبلیغ دین اور خدمت اسلام کرتے رہے جس طرح پہلے کر رہے تھے بلکہ اسلام کا دائرہ اس سے زیادہ وسیع تر ہو گیا کہ نہ مکہ کا کام انسانوں کے سہارے شروع ہوا تھا اور نہ مدینہ کا کام انسانوں کے سہارے شروع ہونے والا ہے۔ مکہ کا صبر و تحمل بھی خدائی امداد کی بنا پر تھا اور مدینہ کا فاتحانہ انداز بھی خدائی تائید و نصرت کے ذریعہ ہی حاصل ہو سکتا ہے۔
میدان جہاد میں زور بازو کا مظاہرہ کرنا یقینا ایک عظیم انسانی کارنامہ ہے لیکن بعض روایات کی روشنی میں اس سے بالاتر جہاد سلطان جابر کے سامنے کلمہ حق کا زبان پر جاری کرنا ہے اور شاید اس کا راز یہ ہے کہ میدان جنگ کے کارنامے میں بسا اوقات نفس انسان کی ہمراہی کرنے کے لیے تیار ہوجاتا ہے اور انسان جذباتی طور بھی دشمن پر وار کرنے لگتاہے جس کا کھلا ہوا ثبوت یہ ہے کہ مولائے کائنات حضرت علی علیہ السلام نے عمرو بن عبدود کی بے ادبی کے بعد اس کا سر قلم نہیں کیا اور سینے سے اتر آئے جہاد راہ خدا میں جذبات کی شمولیت کا احساس نہ پیدا ہوجائے لیکن سلطان جائر کے سامنے کلمہ حق کے بلند کرنے میں نفس کی ہمراہی کے بجائے شدید ترین مخالفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے جہاں نفس انسانی کبھی ضائع ہوتے ہوئے مفادات کی طرف متوجہ کرتا ہے اور کبھی آنے والے خطرات سے آگاہ کرتا ہے اور اس طرح یہ جہاد ’جہاد میدان‘سے زیادہ سخت تر اور مشکل تر ہوجاتا ہے جسے روایات ہی کی زبان میں جہاد اکبر سے تعبیر کیا گیاہے۔ جہاد باللسان بظاہر جہاد نفس نہیں ہے لیکن غور کیا جائے تو یہ جہاد نفس کا بہترین مرقع ہے خصوصیت کے ساتھ اگر ماحول ناسازگار ہواور تختہ دار سے اعلان حق کرنا پڑے۔
اسلام نے مرد مسلم میں اس ادبی شجاعت کو پیدا کرنا چاہا ہے اور اس کا منشاءیہ ہے کہ مسلمان اخلاقیات میں اس قدر مکمل ہو کہ اس کے نفس میں قوت تحمل و برداشت ہو۔ اسکے دل میں جذبہ ایمان و یقین ہو اور اس کی زبان، اس کی ادبی شجاعت کا مکمل مظاہرہ کرے جس کی تربیت کے لیے اس نے ان واقعات کی طرف اشارہ کیا ہے۔ ’قال رجل مومن من آل فرعون..... اللہ لا یہدی من ہو مسرف مرتاب۔“ (غافر۶۲)
 ’فرعون والوں میں سے ایک مرد مومن نے کہا جو اپنے ایمان کو چھپائے ہوئے تھا کہ کیا تم کسی شخص کو صرف اس بات پرقتل کرناچاہتے ہو کہ جو اللہ کو اپنا پروردگار کہتا ہے جب کی وہ اپنے دعوے پر کھلی ہوئی دلیلیں بھی لا چکا ہے۔ تو آگاہ ہوجاو اگر وہ جھوٹا ہے تو اپنے جھوٹ کا ذمہ دار ہے لیکن اگر سچا ہے تو بعض وہ مصیبتیں آسکتی ہیں جن کا وہ وعدہ کر رہا ہے۔ بے شک خدا زیادتی کرنے والے اور شک کرنے والے انسان کی ہدایت نہیں کرتا ہے۔
 اس آیت کریمہ میں مرد مومن نے اپنے صریحی ایمان کی پردہ داری ضرور کی ہے لیکن چند باتوں کا واضح اعلان بھی کر دیا ہے جس کی ہمت ہر شخص میں نہیں ہو سکتی۔ یہ بھی اعلان کردیا ہے کہ یہ شخص کھلی ہوئی دلیلیں لے کر آیا ہے۔ یہ بھی اعلان کر دیا ہے کہ وہ اگر جھوٹا ہے تو تم اس کے جھوٹ کے ذمہ دار نہیں ہو، اور نہ تمہیں قتل کرنے کا کوئی حق ہے۔ یہ بھی اعلان کردیا ہے کہ وہ اگر سچا ہے تو تم پر عذاب نازل ہو سکتا ہے۔ یہ بھی اعلان کردیا ہے کہ یہ عذاب اس کی وعید کا ایک حصہ ہے ورنہ اس کے بعد عذاب جہنم بھی ہے۔ یہ بھی اعلان کردیا ہے کہ تم لوگ زیادتی کرنے والے اور حقائق میں تشکیک کرنے والے ہو ، اور ایسے افراد کبھی ہدایت یافتہ نہی ہوسکتے۔ اور ادبی شجاعت کا اس سے بہتر کوئی مرقع نہیں ہو سکتاہے کہ انسان فرعونیت جیسے ماحول میں اس قدر حقائق کے اظہار اور اعلان کے اظہار کی جرا ¿ت و ہمت رکھتا ہو۔واضح رہے کہ اس آیت کریمہ میں پروردگار عالم نے اس مرد مومن کو مومن بھی کہا ہے اور اس کے ایمان کے چھپانے کا بھی تذکرہ کیا ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ ایمان ایک قلبی عقیدہ ہے اور حالات و مصالح کے تحت اس کے چھپانے کو کتمان حق سے تعبیر نہیں کیا جاسکتا ہے جیسا کہ بعض دشمنان حقائق کا وطیرہ بن گیا ہے کہ ایک فرقہ کی دشمنی میں تقیہ کی مخالفت کرنے کرنے کے لئے قرآن مجید کے صریحی تذکرہ کی مخالفت کرتے ہیں اور اپنے لیے عذاب جہنم کا سامان فراہم کرتے ہیں۔ قال ماخطبکن اذراودتن یوسف .....عن نفسہ و انہ لمن الصادقین“ (یوسف ۵۱)
 ’جب مصر کی عورتوں نے انگلیاں کاٹ لیں اور عزیز مصر نے خواب کی تعبیر کے لئے جناب یوسف کو طلب کیا تو انہوں نے فرمایاکہ عورتوں سے دریافت کروکہ انہوں نے انگلیاں کاٹ لیں اور اس میں میری کیا خطا ہے؟....عزیز مصر نے ان عورتوں سے سوال کیا تو انہوں نے جواب دیاکہ خدا گواہ ہے کہ یوسف کی کوئی خطا نہیں ہے۔۔ توعزیز مصر کی عورتوں نے کہاکہ یہ سب میرا اقدام تھا اور یوسف صادقین میں سے ہیں اوراب حق بالکل واضح ہوچکاہے۔‘اس مقام پر عزیز مصر کی زوجہ کا اس جرا ¿ت وہمت سے کام لینا کہ بھرے مجمع میں اپنی غلطی کا اقرار کرلیا اور زنان مصر کا بھی اس جرا ¿ت کا مظاہرہ کرنا کہ عزیز مصرکی زوجہ کی حمایت میں غلط بیانی کرنے کی بجائے صاف صاف اعلان کر دیاکہ یوسف میں کوئی برائی اور خرابی نہےںہے۔
ادبی جرا ¿ت وشجاعت کے بہترین مناظر میں جنکا تذکرہ کر کےاسلام مسلمان کی ذہنی اور نفسیاتی تربیت کرنا چاہتا ہے۔’وجاءمن اقصی المدینةرجل یسعیٰ ..... اذا لفی ضلال مبین انی آمنت بربکم فاسمعون۔“(یس۰۲)
 ’اور شہرکے آخر سے ایک شخص دوڑتا ہواآیااور اسنے کہا کہ اے قوم!مرسلین کا اتباع کرو،اس شخص کا اتباع کروجوتم سے کوئی اجر بھی نہیں مانگتاہے اور وہ سب ہدایت یافتہ بھی ہیں،اور مجھے کیا ہو گیا ہے کہ میں اس خدا کی عبادت نہ کروں جس نے مجھے پیدا کیا ہے اور تم سب اسی کی طرف پلٹ کر جانے والے ہو۔کیا میں اس کے علاوہدوسرے خداوں کو اختیار کر لوں جب کہ رحمٰن کوئی نقصان پہونچانا چاہے توان کی سفارش کسی کام نہیں آسکتی ہے اور نہ یہ بچا سکتے ہیں،میں تو کھلی گمراہی میں مبتلا ہوجاو ¿ں گا۔بےشک میں تمہارے خدا پر ایمان لا چکا ہوں لھذاتم لوگ بھی میری بات سنو۔‘ !
آیت کریمہ میں اس مرد مومن کے جن فقروں کا تذکرہ کیا گیا ہے وہ ادبی شجاعت کا شاہکار ہیں۔ اس نے ایک طرف داعی حق کی بے نیازی کا اعلان کیا کہ وہ زحمت ہدایت بھی برداشت کرتا ہے اور اجرت کا طلبگار بھی نہیں ہے۔ پھر اس کے خدا کو اپنا خالق کہہ کر متوجہ کیا کہ تم سب بھی اسی کی بارگاہ میں جانے والے ہو تو ابھی سے سوچ لو کہ وہاں جا کر اپنی ان حرکتوں کا کیا جواز پیش کروگے۔ پھر قوم کے خداو ¿ں کی بے بسی اور بے کسی کا اظہار کیا کہ یہ سفارش تک کرنے کے قابل نہیں ہیں ، ذاتی طور پر کونسا کام انجام دے سکتے ہیں۔ پھر قوم کے ساتھ رہنے کو ضلال مبین اور کھلی ہوئی گمراہی سے تعبیر کر کے یہ بھی واضح کردیا کہ میں جس پر ایمان لایا ہوں وہ تمہارا بھی پروردگار ہے۔ لہذا مناسب یہ ہے کہ اپنے پروردگار پر تم بھی ایمان لے آو ¿اور مخلوقات کے چکر میں نہ پڑو۔ ’ان قارون کان من قوم موسیٰ .....الارض ان اللہ لا یحب المفسدین۔‘ (قصص ۷۶۔۷۷)’بے شک قارون موسیٰ ہی کی قوم میں سے تھا لیکن اس نے قوم پر زیادتی کی اور ہم نے اسے اس قدر خزانے عطا کئے کہ بڑی جماعت بھی اس کا بار اٹھا نے سے عاجز تھی تو قوم نے اس سے کہا کہ غرور مت کر کہ خدا غرور کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا ہے۔آیت سے صاف واضح ہوتا ہے کہ قارون کے بے تحاشہ صاحب دولت ہونے کے با وجود قوم میں اس قدر ادبی جرا ¿ت موجود تھی کہ اسے مغرور اور مفسد قرار دے دیا ، اور یہ واضح کر دیا کہ خدا مغرور اور مفسد کو نہیں پسند کرتا ہے اور یہ بھی واضح کردیا کہ دولت کا بہترین مصرف آخرت کا گھر حاصل کر لینا ہے ورنہ دنیا چند روزہ ہے اور فنا ہو جانے والی ہے۔
 sarailliyasi@gmail.com
9873517531