Monday, April 25, 2011

Medal of Honor: Game Controversy


برقیہ چھاپیے
Medal of Honor: Game ControversySara Illiyasi
Similar to other forms of media, video games have been the subject of argument between leading professionals and restriction and prohibition. Often these bouts of criticism come from use of debated topics such as video game graphic violence, virtual sex, violent and gory scenes, partial or full nudity, portrayal of criminal behavior or other provocative and objectionable material. Video games have also been studied for links to addiction and aggression. Several studies have found that video games do not contribute to these problems. Furthermore, several groups have argued that there are few if any scientifically proven studies to back up these claims, and that the video game industry has become an easy target for the media to blame for many modern day problems. Furthermore, numerous researchers have proposed potential positive effects of video games on aspects of social and cognitive development and psychological well-being. It has been shown that action video game players have better hand-eye coordination and visuo-motor skills, such as their resistance to distraction, their sensitivity to information in the peripheral vision and their ability to count briefly presented objects, than non-players.

The game Medal of Honor (MoH) follows the exploits of Special Forces troops battling insurgents in Afghanistan in 2002. The video game has gone on sale despite calls by the UK defence secretary to ban it.

In August, Defence Secretary Dr Liam Fox called for the game to be banned after it emerged that users could fight as The Taliban. Its developer EA said the game was meant to be realistic, but eventually renamed The Taliban "The Opposition". This edition, the latest in EA's long running series of games bearing the MoH title, has dispensed with its World War II theme and opted to recreate modern combat in the ongoing conflict in Afghanistan. But with 150,000 American, British and Allied troops fighting in Afghanistan, many felt taking on the role of the Taliban was a step too far. Dr Fox described the game as "un-British" and said it was "shocking that someone would think it acceptable to recreate the acts of the Taliban against British soldiers".

EA weathered the storm for a few weeks, but in early October the firm bowed to pressure and took the term "Taliban" out of the multiplayer option. Despite the change, the game is still banned from sale on military bases, although troops can purchase it elsewhere and play it on station.

Over two hundred studies have been published which examine the effects of violence in entertainment media and which at least partially focus on violence in video games in particular. Some psychological studies have shown a correlation between children playing violent video games and suffering psychological effects, though the vast majority stop short of claiming behavioral causation.
sarailliyasi@gmail.com
منگل, 19 اکتوبر 2010 16:06 

متنازع ویڈیو گیم :میڈل آف آنر


برقیہ چھاپیے
Medal of Honor: Game Controversyسارہ الیاسی
یہ ایک ناقابل تردیدسماجی حقیقت ہے کہ انسان ابتداءہی سے فرصت کے اوقات میں تفریحی سرگرمیوں کا شوقین رہا ہے۔پرانے زمانے میںآؤٹ ڈور یعنی گھر سے باہر تیر اندازی، گھڑ دوڑ، کسرت، شہہ زوری جیسے جسمانی صحت کے کھیلوں کے ساتھ ساتھ ان ڈوریعنی گھر کے اندرشطرنج، ڈرافٹ، لوڈو، بیت بازی، پہیلیاں بوجھنا جیسے ذہانت اور حاضر دماغی والے کھیل بھی کھیلے جاتے تھے۔ آج کے جدید ترقی یافتہ دور میں جہاں انسانی سہولت کے لیے بے شمار ایجادات وجود میں آئی ہیں وہیں کھیلوں نے بھی جدید روپ اختیار کرلیا اور کمپیوٹر کی مفید ایجاد نے ان کھیلوں کو ڈیجٹلائزڈ کرکے گھر گھر پہنچادیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ آج لاکھوں کی تعداد میں ویڈیو گیموں کو ٹی وی اور کنسول سے کمپیوٹر تک ہر سہولت کے مطابق بازار میں بآسانی دستیاب ہیں ۔ان گیموںنے مقبولیت کے ساتھ متنازع حیثیت بھی اختیار کرلی ہے اور یہ بحث بھی جاری ہے کہ کمپیوٹر گیمز کا استعمال تفریح و معلومات اور ذہنی تربیت کرتا ہے یا بچوں میں طبی، نفسیاتی، معاشرتی اور تعلیمی مسائل پھیلارہا ہے جبکہ ایک فوجی بن کرمیدان جنگ میں اترنایا ایک جیٹ جہاز پرواز کرتے ہوئے یا خون آشام بلاؤں کو ختم کرکے دنیا کو بچانابچوں کو ہی نہیں بڑوں کو بھی دلچسپ لگتا ہے۔ جن حالات کسی نے کبھی دیکھا نہیں سنا نہیں ویڈیو گیم کے ذریعہ وہ امیجین کرسکتاہے اور یہ امیجینشن خیالی پلاؤ پکانے سے بہتر ہے۔ سمز گیم کے خالق ول رائٹ کے مطابق گیمرز ایک بالکل نئے طریقے سے سیکھ رہے ہوتے ہیں ۔وہ دنیا کو کی تخلیق کے بارے میں سوچ رہے ہوتے ہیں نہ کہ خاتمہ کے۔یہ سچ ہے ویڈیو گیمز کا اثر ہماری ثقافت پر بھی پڑے گا۔
ایسا ہی ایک یہ ویڈیو گیم ہے’میڈل آف آنر‘(MoH)۔یہ گیم 2002 میں افغانستان میں طالبان کے خلاف سرگرم خصوصی افواج کی کارروائیوں کے بارے میں ہے جو ان دنوں خبروں میں چھایا ہوا ہے۔برطانوی سیکرٹری دفاع کی جانب سے ’میڈل آف آنر‘ نامی ویڈیو گیم پر پابندی کے مطالبے کے باوجود اس گیم کی فروخت شروع ہوگئی ہے۔دراصل رواں برس اگست میں برطانوی سیکرٹری دفاع ڈاکٹر لیئم فاکس نے ان اطلاعات کے بعد اس گیم پر پابندی کا مطالبہ کیا تھا کہ اس گیم میں صارف طالبان کی جانب سے بھی لڑائی میں حصہ لے سکتا ہے۔ڈاکٹر فاکس نے اس کھیل کو’غیر برطانوی‘ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’یہ چونکا دینے والی بات ہے کہ برطانوی فوجیوں کے خلاف طالبان کی کارروائیوں کی دوبارہ منظر کشی کسی کے لیے قابلِ قبول ہو سکتی ہے‘۔پابندی کے مطالبے پر گیم بنانے والی کمپنی الیکٹرونکس آرٹس نے کہا تھا کہ وہ اس گیم کو حقیقت کے قریب تر بنانا چاہتے ہیں تاہم بعد ازاں اکتوبر کے آغاز میں انہوں نے طالبان کے لفظ کو حزبِ مخالف سے بدل دیا تھا۔اس تبدیلی کے باوجود یہ گیم اب بھی فوجی اڈوں پر فروخت نہیں کیا جا سکے گا تاہم فوجی اسے باہر سے خرید کر فوجی اڈوں میں لا کر کھیل سکیں گے۔گیمنگ ویب سائٹ یوروگیمر کے لیے کام کرنے والے صحافی جان منکلے نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کے خیال میں الیکٹرونکس آرٹس کی جانب سے اپنے صارفین کو طالبان کی جانب سے گیم میں حصہ لینے کی اجازت دینا ایک تشہیری حربہ تھا۔ان کا کہنا تھا کہ ’وہ یعنی الیکٹرونکس آرٹس جانتے تھے کہ یہ متنازع ہوگا لیکن انہیں توجہ حاصل کرنے کے لیے سب کچھ کرنا تھا اور خصوصاً اس وقت جب ان کا مقابلہ کال آف ڈیوٹی: ماڈرن وارفیئر جیسے دنیا کے سب سے بڑے برانڈ سے ہو‘۔
واضح رہے کہ محض ’میڈل آف آنر‘ پر ہی موقوف نہیں بلکہ اس سے قبل تمام ویڈیو گیم تنقید کا نشانہ بنے ہیں۔ان گیموں پر سب سے زیادہ تنقید یہ ہے کہ اس کے ذریعہ نوجوانوں میں حد سے زیادہ تشدد کو فروغ دیا جارہا ہے، اس تنقید پر کئی اہم اداروں مثلاً ہارورڈ میڈیکل سینٹر فار مینٹل ہیلتھ ، جرنل آف ایڈولسینٹ ہیلتھ اور برٹش میڈیکل جرنل نے بھی ویڈیو گیمز کے استعمال سے پیدا ہونے والی پر تشدد سرگرمیوں کے درمیان لنک ظاہر کیا ہے۔ ان کے مطابق حالیہ تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ زیادہ تر گیموں میں دکھائے جانے والے تشدد کو بچے اور نوجوان اسکول یا گھر سے باہر اسی طرح نقل کرنے کی کوشش ہی نہیں کرتے بلکہ ان کے رویوں میں ماردھاڑ کے شامل ہونے حتی کہ گالی گلوچ اور سگریٹ نوشی تک کی لت وہ گیمز سے سیکھتے ہیں۔ان اسٹڈیز سے پتہ چلتا ہے کہ جارحیت اور تشدد پر مبنی ویڈیو گیمز پرتشدد رویے اور مجرمانہ سوچ اور محسوسات، اسکولوں اور کھیل کے میدانوں میں لڑائی جھگڑا، بڑھتے ہوئے جسمانی طاقت کے استعمال کا رجحان اور بہتر سماجی رویوں کی کمی میں گہرا تعلق ہے، پرتشدد گیمز ٹی وی اور فلموں میں دکھائے جانے والے پرتشدد مناظرات سے زیادہ خطرناک ہوتے ہیں کیوں کے اس میں ہونے والی پرتشدد کاروائیوں میں بچہ خود بھی انوالو ہوتاہے۔ ان گیموں میں جنسی بداخلاقی کے پہلو بھی کسی حد تک نمایاں رکھے جاتے ہیں جبکہ بعض گیوںسے بچہ معصوم راہ گیروں، پولیس کو بے دردی سے مارنا سیکھتے ہیں اور اس کے لئے مختلف ہتھیاروں چاقو یا خنجر، بندوقوں اور آتشی اسلحہ، تلواروں اور بیس بال بیٹ کا استعمال کرتے ہیں گیم کھیلنے والا خود کو مجرم کی جگہ تصور کرتے ہوئے کھیلتا ہے۔
منگل, 19 اکتوبر 2010 16:06 

Sunday, April 24, 2011

بے خوفی: قدرت کا بیش قیمت عطیہ!


سارہ الیاسی
گذشتہ دنوں سائنسدانوں نے پتہ چلایا ہے کہ ڈر اور خوف کا تعلق دماغ کی خرابی سے ہے جس کے تئت انسان بے خوف ہوجاتا ہے۔گویا بہادری خوبی نہیں بلکہ دماغ کی خرابی ہے جبکہ اسلام کی روشنی مےںبزدلی اچھے اخلاق میں شمار نہیں ہوتی۔دراصل اخلاق دراصل ان صفات اور افعال کو کہا جاتا ہے جو انسان کی زندگی میں اس قدر رچ بس جاتے ہیں کہ غیر ارادی طورپربھی ظہور پذیر ہونے لگتے ہیں۔ موقع پڑنے پربہادرشخص فطری طور پر میدا ن کی طرف بڑھنے لگتا ہے جبکہ بزدل طبیعی انداز سے پرچھائیوں سے ڈرنے لگتا ہے۔ کریم کا ہاتھ خود بخود جیب کی طرف بڑھ جاتا ہے اور بخیل کے چہرے پر سائل کی صورت دیکھ کر ہوائیاں اڑنے لگتی ہیں۔ اسلام نے غیر شعوری اور غیر ارادی اخلاقیات کو شعوری اور ارادی بنانے کا کام بھی انجام دیاہے اور اس کا مقصد یہ ہے کہ انسان ان صفات کو اپنے شعور اور ارادہ کے ساتھ پیدا کرے تاکہ ہر اہم سے اہم موقع پر صفت اس کا ساتھ دے ورنہ اگر غیر شعوری طور صفت پیدا بھی کرلی ہے تو حالات کے بدلتے ہی اس کے متغیر ہو جانے کا خطرہ رہتا ہے۔ اسلام نے صاحب ایمان کی اخلاقی تربیت کاسامان فراہم کیا ہے اور یہ چاہا ہے کہ انسان میں اخلاقی جوہر بہترین تربیت اور اعلیٰ ترین شعور کے زیر اثر پیدا ہو۔
سخت ترین حالات میں قوت برداشت کا باقی رہ جانا ایک بہترین اخلاقی صفت ہے لیکن یہ صفت بعض اوقات بزدلی اور نافہمی کی بنا پر پیدا ہوتی ہے اور بعض اوقات مصائب و مشکلات کی صحیح سنگینی کے اندازہ نہ کرنے کی بنیاد پر۔ اسلام نے یہ چاہا ہے کہ یہ صفت مکمل شعور کے ساتھ پیدا ہو اور انسان یہ سمجھے کہ قوت تحمل کا مظاہرہ اس کا اخلاقی فرض ہے جسے بہر حال ادا کرنا ہے۔ تحمل نہ بزدلی اور بے غیرتی کی علامت بننے پائے اور نہ حالات کے صحیح ادراک کے فقدان کی علامت قرار پائے۔ ولنبلونکم بشئی من الخوف و الجوع .........من ربہم و رحمة و اولئک ہم المہتدون‘’ یقینا ہم تمہارا امتحان مختصر سے خوف اور بھوک اور جان، مال اور ثمرات کے نقص کے ذریعہ لیں گے اور پیغمبر آپ صبر کرنے والوں کو بشارت دے دیں جن کی شان یہ ہے کہ جب ان تک کوئی مصیبت آتی ہے تو کہتے ہیں کہ ہم اللہ کے لیے ہیں اور اسی کی بارگاہ میں پلٹ کر جانے والے ہیں۔ انہیں افراد کے لیے پروردگار کی طرف سے صلوات اور رحمت ہے اور یہی ہدایت یافتہ لوگ ہیں۔‘گویاخوف خرابی نہیں بلکہ امتحان ہے۔جبکہ امتحان اس لئے درپیش آتے ہیں تاکہ کامیاب لوگوں کے درجے بلند کرائیں۔
 آیت کریمہ سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اسلام قوت تحمل کی تربیت دینا چاہتا ہے اور مسلمان کو ہر طرح کے امتحان کے تیار کرنا چاہتا ہے اور پھر تحمل کو بزدلی سے الگ کرنے کے لیے ’انا للہ و انا الیہ راجعون ‘کی تعلیم دیتا ہے اور نقص اموال اور انفس کو خسارہ تصور کرنے کے جواب میں صلوات اور رحمت کا وعدہ کرتا ہے تاکہ انسان ہر مادی خسارہ اور نقصان کے لیے آمادہ رہے اور اسے یہ احساس رہے کہ مادی نقصان، نقصان نہیں ہے بلکہ صلوات اور رحمت کا بہترین ذریعہ ہے۔ انسان میں یہ احساس پیدا ہوجائے تو وہ عظیم قوت تحمل کا حامل ہوسکتا ہے اور اس میں یہ اخلاقی کمال شعوری اور ارادی طور پر پیدا ہوسکتا ہے اور وہ ہر آن مصائب کا استقبال کرنے کے لیے اپنے نفس کو آمادہ کر سکتا ہے۔ ’الذین قال لہم الناس ان الناس قد جمعوا لکم فاخشو ہم........ وابتعوا رضوان اللہ واللہ ذو فضل عظیم‘’وہ لوگ جن سے کچھ لوگوں نے کہا کہ دشمنوں نے تمہارے لیے بہت بڑا لشکر جمع کر لیا ہے تو ان کے ایمان میں اور اضافہ ہوگیا اور انہوں نے کہا کہ ہمارے لیے خدا کافی ہے اور وہی بہترین محافظ ہے جس کے بعد وہ لوگ نعمت و فضل الہی کے ساتھ واپس ہوئے اور انہیں کسی طرح کی تکلیف نہیں ہوئی اور انہوں نے رضائے الہی کا اتباع کیا، اور اللہ بڑے عظیم فضل کا مالک ہے۔‘
آیت کریمہ کے ہر لفظ میں ایک نئی اخلاقی تربیت پائی جاتی ہے اور اس سے مسلمان کے دل میں ارادی اخلاق اور قوت برداشت پیدا کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔ دشمن کی طرف سے بے خوف ہوجانا شجاعت کا کمال ہے لیکن حسبنا اللہ کہہ کر بے خوفی کا اعلان کرنا ایمان کا کمال ہے۔ بے خوف ہوکر نامناسب اور متکبرانہ انداز اختیار کرنادنیاوی کمال ہے اور رضوان الہی کا اتباع کرتے رہنا اسلامی کمال ہے۔اسلام ایسے ہی اخلاقیات کی تربیت کرنا چاہتا ہے اور مسلمان کو اسی منزل کمال تک لے جانا چاہتا ہے۔ ’ولما..... و صدق اللہ و رسولہ و ما زاداہم الا ایماناً تسلیماً‘(احزاب ۲۲)’اور جب صاحبان ایمان نے کفار کے گروہوں کو دیکھا تو برجستہ یہ اعلان کردیا کہ یہی وہ بات ہے جس کا خدا و رسول نے ہم سے وعدہ کیا تھا اور ان کا وعدہ بالکل سچا ہے اور اس اجتماع سے ان کے ایمان اور جذبہ تسلیم میں مزید اضافہ ہوگیا۔‘
مصیبت کو برداشت کر لینا ایک انسانی کمال ہے لیکن اس شان سے استقبال کرنا گویا اسی کا انتظار کر رہے تھے اور پھر اس کو صداقت خدا اور رسول کی بنیاد قرار دے کر اپنے ایمان و تسلیم میں اضافہ کر لینا وہ اخلاقی کمال ہے جسے قرآن مجید اپنے ماننے والوں میں پیدا کرنا چاہتا ہے۔ ’وکاین من .... یحبّ الصابرین“ (آل عمران ۱۴۶) ’اور جس طرح بعض انبیاءکے ساتھ بہت سے اللہ والوں نے جہاد کیا ہے اور اس کے بعد راہ خدا میں پڑنے والی مصیبتوں نے نہ ان میں کمزوری پیدا کی اور نہ ان کے ارادوں میں ضعف پیدا ہوا اور نہ ان میں کسی طرح کی ذلّت کا احساس پیدا ہوا کہ اللہ صبر کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔‘آیت سے صاف واضح ہوتا ہے کہ اس واقعہ کی ذریعہ ایمان والوں کواخلاقی تربیت دی جا رہی ہے اور انہیں ہر طرح کے ضعف و ذلت سے اس لیے الگ رکھا جا رہا ہے کہ ان کے ساتھ خدا ہے اور وہ انہیں دوست رکھتا ہے اور جسے خدا دوست رکھتا ہے اسے کوئی ذلیل کرسکتا ہے اور نہ بیچارہ بنا سکتا ہے۔ یہی ارادی اخلاق ہے جواسلام کا طرہ امتیاز ہے اور جس سے دنیا کے سارے مذاہب و اقوام بے بہرہ ہیں۔ ’وعباد الرحمن الذین یمشون علی الارض ہوناً واذا خاطبہم الجاہلون قالوا سلاماً...... فیہا تحیہ وسلاما“ ( فرقان ۶۳)’اور اللہ کے بندے وہ ہیں جو زمین پر آہستہ چلتے ہیں اور جب کوئی جاہلانہ انداز سے ان سے خطاب کرتا ہے تو اسے سلامتی کا پیغام دیتے ہیں۔۔ یہی وہ لوگ جنہیں ان کے صبر کی بنا پر جنت میں غرفے دیے جائیں گے اور تحیہ اور سلام کی پیش کش کی جائے گی۔
 اس آیت میں بھی صاحبان ایمان اور عباد الرحمن کی علامت قوت تحمل و برداشت کو قرار دیا گیا ہے لیکن قالوا سلاماًکہہ کراس کی ارادیت اور شعوری کیفیت کا اظہار کیا گیا ہے کہ یہ سکوت بر بنائے بزدلی اور بے حیائی نہیں ہے بلکہ اس کے پیچھے ایک اخلاقی فلسفہ ہے کہ وہ سلامتی کا پیغام دے کر دشمن کو بھی راہ راست پر لانا چاہتا ہیں۔واضح رہے کہ ان تمام آیات میں صبر کرنے والوں کی جزا کا اعلان تربیت کا ایک خاص انداز ہے کہ اس طرح قوت تحمل بیکار نہ جانے پائے اور انسان کو کسی طرح کے خسارہ اور نقصان کا خیال نہ پیدا ہو بلکہ مزید تحمل و برداشت کا حوصلہ پیدا ہوجائے کہ اس طرح خدا کی معیت، محبت، فضل عظیم اورتحیہ و سلام کا استحقاق پیدا ہوجاتا ہے جو بہترین راحت وآرام اور بے حساب دولت و ثروت کے بعد بھی نہیں حاصل ہوسکتاہے۔اسلام کا سب سے بڑا امتیاز یہی ہے کہ وہ اپنی تعلیمات میں اس عنصر کونمایاں رکھتا ہے اور مسلمان کو ایسا با اخلاق بنانا چاہتا ہے جس کی اخلاقیات صرف افعال، اعمال اور عادات نہ ہوں بلکہ ان کی پشت پر فکر، فلسفہ، عقیدہ اور نظریہ ہو اور وہ عقیدہ و نظریہ اسے مسلسل دعوت عمل دیتا رہے اور اس کی اخلاقیات کو مضبوط سے مضبوط تر بناتا رہے۔
قوت تحمل کے ساتھ اسلام نے ایمانی جذبات کے بھی مرقع پیش کیے ہیں جن سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ وہ تحمل و حلم کو صرف منفی حدوں تک نہیں رکھنا چاہتا ہے بلکہ مصائب و آفات کے مقابلہ میں ایک مثبت رخ دینا چاہتا ہے۔ ’فالقی السحرة ..... وما اکرہتنا علیہ من السحر واللہ خیر و ابقی“ (طہ ۰۷ تا۷۳)پس جادو گر سجدے میں گر پڑے اور انہوں نے کہا کہ ہم ہارون اور موسیٰ کے رب پر ایمان لے آئے تو فرعون نے کہا کہ ہماری اجازت کے بغیر کس طرح ایمان لے آئے بے شک یہ تم سے بڑا جادو گر ہے جس نے تم لوگوں کو جادو سکھایا ہے تو اب میں تمہارے ہاتھ پاو ¿ں کاٹ دوں گا اور تمہیں درخت خرما کی شاخوں پر سولی پر لٹکا دوں گا تاکہ تمھیں معلوم ہو جائے کہ کس کا عذاب زیادہ سخت تر ہے اور زیادہ باقی رہنے والا ہے۔ ان لوگوں نے کہا کہ ہم تیری بات کو موسیٰ کے دلائل اور اپنے پروردگار مقدم نہیں کرسکتے ہیں اب تو جو فیصلہ کنا چاہے کر لے تو صرف اسی زندگانی دنیا تک فیصلہ کر سکتا ہے اور ہم اس لیے ایمان لے آئے ہیں کہ خدا ہماری غلطیوں کو اور اس جرم کو معاف کردے جس پر تونے ہمیں مجبور کیاتھا اور بے شک خدا ہی عین خیر اور ہمیشہ باقی رہنے والا ہے۔’الا تنصروہ فقد نصرہ اللہ ..... کفرو السفلیٰ و کلمة اللہ ہی العلیا اللہ عزیز حکیم۔‘(توبہ ۰۴)
 ’اگر اتم ان کی نصرت نہیں کروگے تو خدا نے ان کی نصرت کی ہے جب انہیں کفار نے دو کا دوسرا بنا کروطن سے نکال دیا اور وہ اپنے ساتھی سے کہہ رہے تھے کہ رنج مت کرو خدا ہمارے ساتھ ہے تو خدا نے ان پر اپنی طرف سے سکون نازل کردیااور ان کی تائید اسے لشکروں کے ذریعہ کی جن کا مقابلہ نا ممکن تھا اور کفار کے کلمہ کو پست قرار دیا اور اللہ کا کلمہ تو بہر حال بلند ہے اور اللہ صاحب عزت بھی ہے اور صاحب حکمت بھی ہے۔‘
 آیت اولیٰ میں فرعون کے دور کے جادوگروں کے جذبہ ایمانی کی حکایت کی گئی ہے جہاں فرعون جیسے ظالم و جابر کے سامنے بھی اعلان حق میں کسی ضعف و کمزوری سے کام نہیں لیا گیا اور اسے چیلنج کر دیا گیاکہ تو جو کرنا چاہے کرلے۔ تیرا اختیار زندگانی دنیا سے آگے نہیں ہے اور صاحبان ایمان آخرت کے لیے جان دیتے ہیں انہیں دنیا کی راحت کی فکر یا مصائب کی پروا نہیں ہوتی ہے۔
اور دوسری آیت میں سرکار دو عالم کے حوصلہ کا تذکرہ کیا گیا ہے اور صورت حال کی سنگینی کو واضح کرنے کے لیے ساتھی کا بھی ذکر کیا گیا جس پر حالات کی سنگینی اور ایمان کی کمزوری کی بنا پر حزن طاری ہو گیا اور رسول اکرم کو سمجھانا پڑا کہ ایمان و عقیدہ صحیح رکھو۔ خدا ہمارے ساتھ ہے اور جس کے ساتھ خدا ہوتا ہے اسے کوئی پریشانی نہیں ہوتی ہے اور وہ ہر مصیبت کا پورے سکون اور اطمینان کے ساتھ مقابلہ کرتا ہے۔ اس کے بعد خدائی تائید اور امداد کا تذکرہ کرکے یہ بھی واضح کردیاگیا کہ رسول اکرم کا ارشاد صرف تسکین قلب کے لیے نہیں تھا بلکہ اس کی ایک واقعیت بھی تھی اور یہ آپ کے کمال ایمان کا اثر تھا کہ آپ پر کسی طرح کا حزن و ملال طاری نہیں ہوا اور آپ اپنے مسلک پر گامزن رہے اور اسی طرح تبلیغ دین اور خدمت اسلام کرتے رہے جس طرح پہلے کر رہے تھے بلکہ اسلام کا دائرہ اس سے زیادہ وسیع تر ہو گیا کہ نہ مکہ کا کام انسانوں کے سہارے شروع ہوا تھا اور نہ مدینہ کا کام انسانوں کے سہارے شروع ہونے والا ہے۔ مکہ کا صبر و تحمل بھی خدائی امداد کی بنا پر تھا اور مدینہ کا فاتحانہ انداز بھی خدائی تائید و نصرت کے ذریعہ ہی حاصل ہو سکتا ہے۔
میدان جہاد میں زور بازو کا مظاہرہ کرنا یقینا ایک عظیم انسانی کارنامہ ہے لیکن بعض روایات کی روشنی میں اس سے بالاتر جہاد سلطان جابر کے سامنے کلمہ حق کا زبان پر جاری کرنا ہے اور شاید اس کا راز یہ ہے کہ میدان جنگ کے کارنامے میں بسا اوقات نفس انسان کی ہمراہی کرنے کے لیے تیار ہوجاتا ہے اور انسان جذباتی طور بھی دشمن پر وار کرنے لگتاہے جس کا کھلا ہوا ثبوت یہ ہے کہ مولائے کائنات حضرت علی علیہ السلام نے عمرو بن عبدود کی بے ادبی کے بعد اس کا سر قلم نہیں کیا اور سینے سے اتر آئے جہاد راہ خدا میں جذبات کی شمولیت کا احساس نہ پیدا ہوجائے لیکن سلطان جائر کے سامنے کلمہ حق کے بلند کرنے میں نفس کی ہمراہی کے بجائے شدید ترین مخالفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے جہاں نفس انسانی کبھی ضائع ہوتے ہوئے مفادات کی طرف متوجہ کرتا ہے اور کبھی آنے والے خطرات سے آگاہ کرتا ہے اور اس طرح یہ جہاد ’جہاد میدان‘سے زیادہ سخت تر اور مشکل تر ہوجاتا ہے جسے روایات ہی کی زبان میں جہاد اکبر سے تعبیر کیا گیاہے۔ جہاد باللسان بظاہر جہاد نفس نہیں ہے لیکن غور کیا جائے تو یہ جہاد نفس کا بہترین مرقع ہے خصوصیت کے ساتھ اگر ماحول ناسازگار ہواور تختہ دار سے اعلان حق کرنا پڑے۔
اسلام نے مرد مسلم میں اس ادبی شجاعت کو پیدا کرنا چاہا ہے اور اس کا منشاءیہ ہے کہ مسلمان اخلاقیات میں اس قدر مکمل ہو کہ اس کے نفس میں قوت تحمل و برداشت ہو۔ اسکے دل میں جذبہ ایمان و یقین ہو اور اس کی زبان، اس کی ادبی شجاعت کا مکمل مظاہرہ کرے جس کی تربیت کے لیے اس نے ان واقعات کی طرف اشارہ کیا ہے۔ ’قال رجل مومن من آل فرعون..... اللہ لا یہدی من ہو مسرف مرتاب۔“ (غافر۶۲)
 ’فرعون والوں میں سے ایک مرد مومن نے کہا جو اپنے ایمان کو چھپائے ہوئے تھا کہ کیا تم کسی شخص کو صرف اس بات پرقتل کرناچاہتے ہو کہ جو اللہ کو اپنا پروردگار کہتا ہے جب کی وہ اپنے دعوے پر کھلی ہوئی دلیلیں بھی لا چکا ہے۔ تو آگاہ ہوجاو اگر وہ جھوٹا ہے تو اپنے جھوٹ کا ذمہ دار ہے لیکن اگر سچا ہے تو بعض وہ مصیبتیں آسکتی ہیں جن کا وہ وعدہ کر رہا ہے۔ بے شک خدا زیادتی کرنے والے اور شک کرنے والے انسان کی ہدایت نہیں کرتا ہے۔
 اس آیت کریمہ میں مرد مومن نے اپنے صریحی ایمان کی پردہ داری ضرور کی ہے لیکن چند باتوں کا واضح اعلان بھی کر دیا ہے جس کی ہمت ہر شخص میں نہیں ہو سکتی۔ یہ بھی اعلان کردیا ہے کہ یہ شخص کھلی ہوئی دلیلیں لے کر آیا ہے۔ یہ بھی اعلان کر دیا ہے کہ وہ اگر جھوٹا ہے تو تم اس کے جھوٹ کے ذمہ دار نہیں ہو، اور نہ تمہیں قتل کرنے کا کوئی حق ہے۔ یہ بھی اعلان کردیا ہے کہ وہ اگر سچا ہے تو تم پر عذاب نازل ہو سکتا ہے۔ یہ بھی اعلان کردیا ہے کہ یہ عذاب اس کی وعید کا ایک حصہ ہے ورنہ اس کے بعد عذاب جہنم بھی ہے۔ یہ بھی اعلان کردیا ہے کہ تم لوگ زیادتی کرنے والے اور حقائق میں تشکیک کرنے والے ہو ، اور ایسے افراد کبھی ہدایت یافتہ نہی ہوسکتے۔ اور ادبی شجاعت کا اس سے بہتر کوئی مرقع نہیں ہو سکتاہے کہ انسان فرعونیت جیسے ماحول میں اس قدر حقائق کے اظہار اور اعلان کے اظہار کی جرا ¿ت و ہمت رکھتا ہو۔واضح رہے کہ اس آیت کریمہ میں پروردگار عالم نے اس مرد مومن کو مومن بھی کہا ہے اور اس کے ایمان کے چھپانے کا بھی تذکرہ کیا ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ ایمان ایک قلبی عقیدہ ہے اور حالات و مصالح کے تحت اس کے چھپانے کو کتمان حق سے تعبیر نہیں کیا جاسکتا ہے جیسا کہ بعض دشمنان حقائق کا وطیرہ بن گیا ہے کہ ایک فرقہ کی دشمنی میں تقیہ کی مخالفت کرنے کرنے کے لئے قرآن مجید کے صریحی تذکرہ کی مخالفت کرتے ہیں اور اپنے لیے عذاب جہنم کا سامان فراہم کرتے ہیں۔ قال ماخطبکن اذراودتن یوسف .....عن نفسہ و انہ لمن الصادقین“ (یوسف ۵۱)
 ’جب مصر کی عورتوں نے انگلیاں کاٹ لیں اور عزیز مصر نے خواب کی تعبیر کے لئے جناب یوسف کو طلب کیا تو انہوں نے فرمایاکہ عورتوں سے دریافت کروکہ انہوں نے انگلیاں کاٹ لیں اور اس میں میری کیا خطا ہے؟....عزیز مصر نے ان عورتوں سے سوال کیا تو انہوں نے جواب دیاکہ خدا گواہ ہے کہ یوسف کی کوئی خطا نہیں ہے۔۔ توعزیز مصر کی عورتوں نے کہاکہ یہ سب میرا اقدام تھا اور یوسف صادقین میں سے ہیں اوراب حق بالکل واضح ہوچکاہے۔‘اس مقام پر عزیز مصر کی زوجہ کا اس جرا ¿ت وہمت سے کام لینا کہ بھرے مجمع میں اپنی غلطی کا اقرار کرلیا اور زنان مصر کا بھی اس جرا ¿ت کا مظاہرہ کرنا کہ عزیز مصرکی زوجہ کی حمایت میں غلط بیانی کرنے کی بجائے صاف صاف اعلان کر دیاکہ یوسف میں کوئی برائی اور خرابی نہےںہے۔
ادبی جرا ¿ت وشجاعت کے بہترین مناظر میں جنکا تذکرہ کر کےاسلام مسلمان کی ذہنی اور نفسیاتی تربیت کرنا چاہتا ہے۔’وجاءمن اقصی المدینةرجل یسعیٰ ..... اذا لفی ضلال مبین انی آمنت بربکم فاسمعون۔“(یس۰۲)
 ’اور شہرکے آخر سے ایک شخص دوڑتا ہواآیااور اسنے کہا کہ اے قوم!مرسلین کا اتباع کرو،اس شخص کا اتباع کروجوتم سے کوئی اجر بھی نہیں مانگتاہے اور وہ سب ہدایت یافتہ بھی ہیں،اور مجھے کیا ہو گیا ہے کہ میں اس خدا کی عبادت نہ کروں جس نے مجھے پیدا کیا ہے اور تم سب اسی کی طرف پلٹ کر جانے والے ہو۔کیا میں اس کے علاوہدوسرے خداوں کو اختیار کر لوں جب کہ رحمٰن کوئی نقصان پہونچانا چاہے توان کی سفارش کسی کام نہیں آسکتی ہے اور نہ یہ بچا سکتے ہیں،میں تو کھلی گمراہی میں مبتلا ہوجاو ¿ں گا۔بےشک میں تمہارے خدا پر ایمان لا چکا ہوں لھذاتم لوگ بھی میری بات سنو۔‘ !
آیت کریمہ میں اس مرد مومن کے جن فقروں کا تذکرہ کیا گیا ہے وہ ادبی شجاعت کا شاہکار ہیں۔ اس نے ایک طرف داعی حق کی بے نیازی کا اعلان کیا کہ وہ زحمت ہدایت بھی برداشت کرتا ہے اور اجرت کا طلبگار بھی نہیں ہے۔ پھر اس کے خدا کو اپنا خالق کہہ کر متوجہ کیا کہ تم سب بھی اسی کی بارگاہ میں جانے والے ہو تو ابھی سے سوچ لو کہ وہاں جا کر اپنی ان حرکتوں کا کیا جواز پیش کروگے۔ پھر قوم کے خداو ¿ں کی بے بسی اور بے کسی کا اظہار کیا کہ یہ سفارش تک کرنے کے قابل نہیں ہیں ، ذاتی طور پر کونسا کام انجام دے سکتے ہیں۔ پھر قوم کے ساتھ رہنے کو ضلال مبین اور کھلی ہوئی گمراہی سے تعبیر کر کے یہ بھی واضح کردیا کہ میں جس پر ایمان لایا ہوں وہ تمہارا بھی پروردگار ہے۔ لہذا مناسب یہ ہے کہ اپنے پروردگار پر تم بھی ایمان لے آو ¿اور مخلوقات کے چکر میں نہ پڑو۔ ’ان قارون کان من قوم موسیٰ .....الارض ان اللہ لا یحب المفسدین۔‘ (قصص ۷۶۔۷۷)’بے شک قارون موسیٰ ہی کی قوم میں سے تھا لیکن اس نے قوم پر زیادتی کی اور ہم نے اسے اس قدر خزانے عطا کئے کہ بڑی جماعت بھی اس کا بار اٹھا نے سے عاجز تھی تو قوم نے اس سے کہا کہ غرور مت کر کہ خدا غرور کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا ہے۔آیت سے صاف واضح ہوتا ہے کہ قارون کے بے تحاشہ صاحب دولت ہونے کے با وجود قوم میں اس قدر ادبی جرا ¿ت موجود تھی کہ اسے مغرور اور مفسد قرار دے دیا ، اور یہ واضح کر دیا کہ خدا مغرور اور مفسد کو نہیں پسند کرتا ہے اور یہ بھی واضح کردیا کہ دولت کا بہترین مصرف آخرت کا گھر حاصل کر لینا ہے ورنہ دنیا چند روزہ ہے اور فنا ہو جانے والی ہے۔
 sarailliyasi@gmail.com
9873517531