Friday, June 17, 2011

موت کے منہ میں جارہی ہے دیہی آبادی


سارہ الیاسی
شہروں کی چمک دمک اور بارونق زندگی دیہات میں بسنے والوں کیلئے پرکشش رہی ہے جبکہ ان کی یہ منتقلی دراصل موت کی جانب سفر ہے۔دیہات گذشتہ روزاقوام متحدہ کے اعداد و شمار نے اس حقیقت پر سے پردہ اٹھایا ہے کہ ہندوستان کی شہری آبادی میں ہر سال 1.1 فیصد اضافہ ہو رہا ہے، جبکہ دیہی علاقوں میں آبادی میں کمی کی سالانہ شرح 0.37 فیصد ہے جبکہ ایک اندازے کے مطابق امریکہ میں شہری آبادی ہندوستان کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔ ہندوستان میں کل شہری آبادی 30 جبکہ امریکہ میں وہاں کی مجموعی آبادی کا 82فیصد بنتی ہے۔ہندوستان میں کی جانے والی اس ریسرچ میں محققین کی ٹیم نے دیہات میں زندگی بسر کرنے والے باشندوں کی صحت کا مقابلہ ان کے ایسے بھائی بہنوں کی صحت کے ساتھ کیا جو ہندوستان کے چار بڑے شہروں لکھنو، ناگپور، حیدر آباد یا بنگلور میں سے کسی ایک میں منتقل ہو گئے تھے اور وہیں رہتے ہیں۔اس طرح پتہ چلا ہے کہ ہندوستان میں دیہی آبادی کی شہروں کی طرف تیزی سے ہونے والی نقل مکانی دراصل عوامی صحت پر گہرے منفی اثرات مرتب کر رہی ہے۔اس رپورٹ کے مطابق دیہی علاقوں میں آباد باشندوں کے مقابلے میں شہروں میں طویل عرصے تک زندگی بسر کرنے والے افراد میں عارضہ قلب اور ذیابیطس کے خطرات کئی گنا زیادہ ہوتے ہیں۔ جسمانی چربی، بلڈ پریشر اور نہار منہ خون میں پائی جانے والی انسولین کی سطح سے ذیابیطس کے مرض کے خطرات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ان سب میں اضافہ ا ±ن افراد میں پایا گیا جنہیں دیہات سے شہروں میں آکر آباد ہوئے محض ایک عشرے کا عرصہ گزرا ہے۔ اس بارے میں امریکہ کے’جرنل آف ایپی ڈیمیولوجی‘ یعنی وبائی امراض کے بارے میں شایع ہونے والے ایک تحقیقی جریدے میں ایک رپورٹ شائع ہوئی ہے جس کے بعد سے دنیا بھر کی شہری آبادی کی صحت کو لاحق خطرات کو گہری تشویش کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے۔ اس حوالے سے کی جانے والی ریسرچ میں شامل محققین کے گروپ لیڈر سنجے کِنرا، جن کا تعلق ’لندن اسکول آف ہائجین اینڈ ٹروپیکل میڈیسن‘ سے ہے۔ ان کاماننا ہے کہ’تحقیق کے نتائج بتاتے ہیں کہ انسانی جسم میں فیٹ یا چربی کی مقدار میں ا ±سی وقت تیزی سے اضافہ شروع ہو جاتا ہے، جب کوئی شخص گاو ¿ں یا دیہہ سے شہری ماحول میں آتا ہے۔ ا ±س کے بعد رفتہ رفتہ اس کے اندرCardiometabolic risk factors یا قلبی فعلیات کے نقائص پیدا ہونے کے امکانات بڑھنا شروع ہو جاتے ہیں‘۔پتہ یہ چلا کہ جو سب سے طویل عرصے سے شہر میں رہ رہا ہے، ا ±س کا بلڈ پریشر سب سے زیادہ تھا۔ مثال کے طور پر ایسے مرد جو کسی بڑے شہر میں 30 سال سے زائد کے عرصے سے زندگی بسر کر رہے ہیں، ا ±ن کا کا بلڈ پریشر ا ±ن مردوں سے زیادہ تھا جو دس سے 20 سال کے درمیان کے عرصے سے شہروں میں آباد ہیں۔دیہات میں رہنے والے مردوں کے جسموں میں چربی کی اوسط مقدار 21 فیصد جبکہ کم از کم دس سال سے شہر وں میں زندگی سکونت اختیار کیے ہوئے مردوں کے جسموں میں چربی کی اوسط مقدار 24 فیصد پائی گئی۔محققین کے گروپ لیڈر’سنجے کِنرانے تاہم اپنی رپورٹ میں تحریر کیا ہے کہ مذکورہ بیماریوں کا تعلق عمر، جنس، ازدواجی حیثیت، رہن سہن کے طریقوں اور پیشے سے نہیں ہوتا۔ لیکن انہوں نے یہ ضرور کہا ہے کہ بدن میں چربی کی مقدار میں کمی بیشی،کمزور سماجی طبقات سے تعلق رکھنے والوں میں زیادہ پائی گئی ہے۔
sarailliyasi@gmail.com+919811254615
180611mot ke mo me ja rahi hey dehi aabadi by sara illiyasi