Saturday, August 20, 2011

کیسے بچیںالیکٹرانک میڈیا کے مضرات سے


سارہ الیاسی
گزشتہ چند دہائیوں میں انسان نے سائنس اور ٹکنالوجی میں غیر معمولی ترقی کی ہے۔حیرت انگیز ایجادات اور دم بخود کردینے والے انکشافات منظر عام پر آئے ہیں جن میںریڈیو،ٹیلیویژن ، کمپیوٹر،موبائل فون ،ویڈیوگیم ،انٹرنیٹ وغیرہ شامل ہیں۔ان جدید ایجادات کی وجہ سے انسانی زندگی میں بہت سی سہولتیں فراہم ہوئیں ۔بطور خاص ابلاغ وترسیل کے ایک سے زائد آسان ترین، سہولت بخش طریقے حاصل ہوئے ۔ الیکٹرانک میڈیا ٹی وی اور انٹرنیٹ وغیرہ کے ذریعہ لمحہ بھر میں ایک شخص اپنا پیغام ساری دنیا کو سناتاہے ۔ اس کی وجہ سے رابطہ کے لئے مشرق ومغرب ، شمال وجنوب کا کوئی مسئلہ نہیں رہا۔دوریاں ختم ہوگئیں ، ایسا معلوم ہوتاہے گویاآمنے سامنے معاملات ہورہے ہیں۔ اسی عالمی ارتباط کی وجہ سے تجارتی تعلقات بھی ایک علاقہ اور ایک ملک سے نکل کر عالمی حیثیت اختیار کرچکے ہیں ۔ سرمایہ کاروں کے لئے دنیا کی تمام کمپنیوں کی تفصیلات ، اسکیمیں اور شرائط نظروں کے سامنے ہیں ۔ وہ شرعی حدود کی رعایت کرتے ہوئے جس تجارت میں چاہیں سرمایہ کاری کریں ۔ مال وزر کے تبادلہ کی صعوبتیں باقی نہ رہیں۔ اس کے تبادلہ کے لئے نہ سفر کے اخراجات برداشت کرنے کی ضرورت ہے اور نہ دوران سفر مال ضائع ہونے کا اندیشہ ہے۔انٹرنیٹ ترقی یافتہ ذرائع ابلاغ سے ایک بڑا ذریعہ ہے ۔دنیا کے کسی بھی علاقہ کے باشندگان سے رابطہ کرنا،انہیں پیغام بھیجنا ،ان کی تعلیم وتربیت کرنا،بین الاقوامی سطح پر تجارت کرنا نیزبنکوں اور تجارتی ادا روں کا باہم عالمی پیمانہ پرربط وضبط، انٹرنیٹ کے ذریعہ قائم ہوتاہے۔ علاوہ ازیں آدمی ایک مقام پر بیٹھ کر انٹر نٹ کے ذریعہ ویب سرورپرموجود دنیا کی تمام لائبریریوں کا مطالعہ کرتاہے۔اس طرح انٹر نٹ کے کئی انفرادی اجتماعی ، تعلیمی ومعاشی فوائد ہیں بلکہ یہ ایک عالمی ضرورت بن چکا ہے۔الیکٹرانک میڈیا کے یہ فوائد تو ضرور ہیں لیکن اسی طرح بلکہ اس سے بڑھ کر اس کے نقصانات وتباہ کن نتائج ہیں ، ریڈیو، ٹی وی ،موبائل فون اور انٹرنیٹ کے ذریعہ ابلاغ وترسیل کے امور تیزترین ہوچکے ہیں ، یہ ذرائع ہیں جن کا استعمال ،مقاصد پر موقوف ہوتاہے ، خیر کےلئے استعمال کیاجائے تو یہ بھلائی کے ذرائع ثابت ہوتے ہیں اور شر کے لئے استعمال کیا جائے تو برائی کے وسائل قرار پاتے ہیں۔ٹی وی چونکہ ابلاغ وترسیل کا اہم ذریعہ ہے ، اس کے ذریعہ عریانیت پر مشتمل ، مخرب اخلاق پروگرام بھی نشر کئے جاتے ہیں، مذہبی وتعلیمی ، ثقافتی وتربیتی پروگرام بھی ، اگر مخرب اخلاق، حیاءسوز پروگراموں سے بالکلیہ اجتناب کرتے ہوئے خالص دینی تعلیمی وثقافتی پروگرام ، اسلامی دروس وغیرہ کی حد تک ہی اس سے استفادہ کیا جائے تو ٹی وی رکھنے اور دیکھنے میں کوئی مضائقہ نہیں ۔اس کا یہ پہلو مفید ہے لیکن فلمیں ، فحش مناظر اور عریانیت پر مبنی پروگرام دیکھے جائیں تو یہ دینی ودنیوی ہر دو لحاظ سے مضر ونقصاندہ ، ناجائز وحرام ہے ۔اسی لئے دین اسلام نے فتنوں کے سد باب کے لئے ان تمام ذرائع سے اجتناب کرنے کا حکم فرمایا جن سے فتنے وقوع پذیر ہوتے ہیں۔ٹی وی استعمال کے اعتبار سے بمنزل آنکھ ہے جس طرح آنکھ سے جائز ومباح اشیاءکو دیکھنا جائز ہے اور یہ اس کے استعمال کا درست طریقہ ہے ۔ برخلاف اس کے اگر آنکھ سے حرام مناظر اور فحش چیزیں دیکھی جائیں تو یہ ناجائز وحرام ہے اور اس کا غلط استعمال ہے۔ اسی طرح ٹی وی ، انٹرنیٹ وغیرہ کا حکم بھی ان کے استعمال پر ہے ۔ اگر محل مشروع میں استعمال کیا جائے تو جائز اور محل حرام میں استعمال کیا جائے تو ناجائز ہے ۔اصول فقہ کا ایک مسلمہ قاعدہ ہے:الامور بمقاصدہا‘جس کاترجمہ ہے :معاملات ان کے مقاصد کے ساتھ ہیں۔الاشباہ والنظائر- ص22۔جس قدر تیزی کے ساتھ یہ ذرائع امور خیر میں استعمال کئے جارہے ہیں معاشرہ کی اصلاح اور اقدار انسانی کی حفاظت کے لئے کار آمد ثابت ہورہے ہیں ، اس سے کئی گنا زیادہ الیکٹرانک ذرائع ابلاغ کو بداخلاقی وبدکرداری کی اشاعت کے لئے استعمال کیا جارہاہے ، اس کے ذریعہ اخلاق سوز لٹریچر عام کیا جارہاہے ، فحاشی وبے حیائی کی ترویج کی جارہی ہے ، عریانیت کا ننگا ناچ ہورہاہے ، الیکٹرانک میڈیا کی دنیا میں کوسوں دورتک حیاءکا نام ونشان نظر نہیں آتا۔الیکٹرانک میڈیا کے آنے سے یہ غلغلہ مچا کہ دنیا سمٹ کر ایک گاوں کی طرح ہو گئی ہے۔سوال یہ ہے کہ انسانی معاشرہ نے اس سے کس قدر فوائد حاصل کئے ؟ اس کی وجہ سے مغربی تہذیب عام ہوئی۔ جن لوگوں تک مغربی تہذیب کے جراثیم پہنچے نہیں تھے اس کے ذریعہ آسانی سے ان کے ماحول میں سرایت کرگئے۔الیکٹرانک میڈیا کے بے ہنگم اور غیر شرعی استعمال کے بہت سے نقصانات ہوئے ہیں ۔انسانی اقدارتباہ ہوئیں، پاکیزہ تہذیب آلودہ ہوئی ، صالح معاشرہ متاثر ہوا، سوسائٹی کا اخلاقی معیار پستی سے دوچار ہوا، فکری یکسوئی پراگندگی وانتشار میں تبدیل ہوگئی۔
ریڈیو کی تباہ کاری:
الکٹرنک ذائع ابلاغ میں سے ہر ذریعہ اپنے دائرے میں فائدہ مند ثابت ہونے سے زیادہ نقصاندہ اور تباہ کن ثابت ہورہا ہے ۔ گلوبلائزیشن کے اس دور میں ان الیکٹرانک ذرائع کی تباہ کاریوں سے حفاظت ایک صالح معاشرہ اور پاکیزہ سوسائٹی کے لئے ناگزیرہے۔ آج کل ریڈیو دوبارہ استعمال کیا جانے لگا ہے ، ایف ایم ریڈیوکی مقبولیت تقریباً ہرملک میں ہے۔آدمی جب فرصت میں ہوتی ہے خواہ بس یا ٹرین میں سفر کررہاہو یا طویل وقت کے لئے کہیں بیٹھا ہو، یاویٹنگ روم میں انتطارکرہاہو، ایسے وقت اس کا استعمال کیا جاتا ہے ۔یہ کم قیمت میں بہ آسانی میسر آتاہے ، اس لئے کوئی شخص بھی اسے حاصل کرلیتاہے ۔ مختلف مواقع پر نوجوان اپنے قیمتی اوقات کووقت گزاری کے نام پر ریڈیو چینلوں میں صرف کررہے ہیںجس کے نتیجہ میں اپنے فرائض وذمہ داریوں سے غفلت کا شکار نظر آتے ہیں اور گانا سننے اور غلط افسانوں میں وقت عزیز قربان کررہے ہیں۔
ٹی وی چینلوں کی تباہ کاری
ٹی وی چینلوںکا ایک طویل سلسلہ ہے جس کی ہرکڑی عریانیت سے آلودہ ہے ۔فحاشی کے آلائش میں ملوث ہے ۔ الیکٹرانک میڈیا کا ہرڈرامہ ، ہرفلم ،ہرکارٹون ، اجنبی لڑکے اور لڑکی کی محبت اور ان کے تعلق کے گرد گھومتاہے ، اس کی وجہ سے معاشرہ کے نوجوانوں میں جنسی انتشار پھیل چکا ہے۔کارٹون چینل جو محض کمسن بچوں کے لئے لانچ کئے جاتے ہیں ‘ان میں بھی لڑکے اور لڑکی کے کردار دکھائے جاتے ہیں ، جنسی فکر کو برانگیختہ کرنے والی تصویریں پیش کی جاتی ہیں جبکہ بچپن کے سنہری دور میںجو منظر دیکھا جاتا ہے وہ قلب میں جاگزین اور دماغ میں مرتسم ہوجاتاہے ، وہ جو الفاظ سنے جاتے ہیں انھیںدہرایاجاتاہے ۔حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کمسن بچوں کے لئے احتیاطی تدابیر کا حکم فرمایا، لڑکپن سے ہی ان کابستر علٰحدہ کرنے کا حکم فرمایا جیساکہ حدیث پاک وارد ہے ؛مروا ....المَضَاجِعِ۔یعنی تم اپنی اولاد کو نماز کا حکم دو جبکہ ان کی عمرسات سال ہو اور اس میں کوتاہی پر انہیں سزادو!جبکہ ان کی عمر دس سال ہو ‘ان کے بستروں کو علحدہ کردو۔سنن ابی داود، کتاب الصلوص71، باب متی یومر الغلام بالصل ، حدیث نمبر :495۔سات سال کی عمر ہونے پر گوکہ بچے مکلف نہیں ہوتے لیکن تربیت کے طور پر انہیں نماز و دیگر عبادات کا حکم دینا چاہئے تاکہ انہیں عبادت کرنے کا مزاج بنے‘ عادتیں صالح ہوں،کمسنی سے رب کے حضور کھڑے رہنے، سربسجود ہونے ، اپنے مولی کی بندگی کا ثبوت دینے کا سلیقہ حاصل ہواور اگروہ دس سال کی عمرمیں عبادتوں سے غفلت برتیں اور پابندی کے ساتھ نمازیں نہ پڑھیں توان پرسختی کرنی چاہئے اور تادیب کے طور پر مارناچاہئے۔مذکورہ حدیث شریف میں بچوں کے بستر الگ کرنے کابھی حکم دیا گیاہے۔اس حکم سے معلوم ہوتا ہے کہ بچوں کونیک اعمال کا حکم دینے کے ساتھ ساتھ انہیں تمام قسم کی برائیوں سے بچانے کا اہتمام کیا جائے تاکہ بچہ عفت و پارسائی کی خصلت کے ساتھ پروان چڑھے اور شرافت وپاکیزگی کے سا تھ زندگی گزارتا رہے۔ اس میں دورائے نہیں کہ بچوں کی اخلاقی تربیت کی ضرورت اور اہمیت بلا لحاظ مذہب و ملت ہر شخص جانتا ہے، چونکہ اخلاق کے نہ ہونے سے معاشرہ میں فتنہ و فساد، جھگڑا اور لڑائی تک نوبت پہنچتی ہے،خاندان میں پھوٹ پڑجاتی ہے اور خودبچوں کی ذات میں برائیاں پنپنے لگتی ہیں جس کا سدباب صالح کردار اور صحیح افکار کے بغیر ناممکن ہے۔لہٰذا انتہائی ضروری ہے کہ بہترین اخلاق کی تربیت کے ساتھ بچوں کو مذموم اخلاق اوربری عادات سے دور رکھا جائے، انہیں جنسی بے راہ روی، بدنگاہی، فلم بینی سے کلیةبچایا جائے،اگر بچے بدنگاہی بالخصوص فلم بینی میں مبتلاہوجائیں تو اس کا دینی نقصان تو یقیناہوگااورانکا باطن بھی داغدار ہوجائیگالیکن ا سکے ساتھ یہ بچے دنیاکی نظروں میں بے وقعت ہوجائیں گے۔کمسنی کے اس دور میں اگر ہمارے نونہال کارٹون پروگراموں کے ذریعہ جنسی فکر سے کسی قدر آشنا ہوجائیں یا نیم عریاں لباس سے بھی مانوس ہوجائیں تو یہ بعید نہیں کہ سن بلوغ کو پہنچنے تک وہ تباہی کے دہانے پر پہنچ چکے ہوں گے ۔گناہ سمجھتے ہوئے گناہ کا ارتکاب کیا جائے تو وہ گناہ ہے لیکن جب عورت کی آزادی کے نام سے جسمانی نمائش کا کاروبار کیا جائے تو گناہ کی قباحت اور جرم کی سنگینی بہت بڑھ جاتی ہے۔
کسی قوم کا اثاثہ اس کی نوجوان نسل ہوتی ہے ۔ کمسن بچے مستقبل میں بہت کچھ کرسکتے ہیں لیکن طاقت وصلاحیت نہیں رکھتے جبکہ قوم کے نوجوان ہی اس کی مکمل طاقت ہیں کہ کسی مہم کو سرانجام دیں ۔ مشکل ترین نشانہ تک پہنچنا ان کے لئے کوئی مشکل نہیں ، موسم سرما کی ٹھنڈک وبرودت یا موسم گرما کی حرارت وسوزش ان کی ہمت وحوصلہ کو کم نہیں کرتی ۔رات کی تاریکی یا ہواوں کی سختی سے ان کے پایہ استقامت میں فرق نہیں آتا لیکن یہ نوجوان نسل اگر اپنی ذمہ داریوں سے بے بہرہ ہوجائے تو پھر قوم کا کیا انجام ہوگا؟ ٹی وی چینلوں میں نوجوانوں کے لئے ہر وہ چیز موجود ہوتی ہے جو ان کے اخلاق کو مکمل طور پر تباہ کردے۔ ڈرامے اور فلمیں ہوں یااشتہارات اور خبریں ، ان ٹی وی چیلوں پر اجنبی لڑکیاں بن سنورکر ، عریاں یا نیم عریاں مناظر میں دکھائی جاتی ہیں۔ٹی وی اسکرین شاید ہی کوئی لمحہ اس بے حیائی سے خالی رہتاہو جبکہ اللہ تعالی نے بے حیا،ی اور فحاشی کے قریب جانے سے بھی منع فرمایاہے ارشاد الہی ہے: وَلَ.... بَطَنَ۔ترجمہ: اور بے حیائی کے کاموں کے قرب نہ جاو (چاہے) ظاہر ہوں (چاہے) پوشدہ ہوں- (سورة الانعام-151)جو لوگ بے حیائی اور فحاشی کی اشاعت کو پسند کرتے ہیں ان کے لئے سخت عذاب کی وعید سنائی گئی ہے۔ ارشاد الہی ہے کہ ترجمہ: بیشک جو لوگ اس بات کو پسند کرتے ہیں کہ ایمان والوں میں بے حیائی پھیلے ان کے لئے دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب ہے، اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے (سورة النور-19)بدنظری چونکہ بے حیائی اور بڑے گناہوں کی طرف لے جاتی ہے ،اسی لئے اللہ تعالی نے اس سے بچے رہنے کی تاکید فرمائی۔ارشاد الہی ہے کہ اے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم! ایمان والے مردوں سے فرمادیجئے کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں۔اور خواتین کے لئے علیحدہ ارشاد فرمایاکہ:وَقل....روجَھنَّ۔ ترجمہ: اور ایمان والی عورتوں سے فرمادیجئے کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اوراپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں۔ (سورالنور۔ 30)مسند امام احمد میں حدیث پاک ہے کہ عن ابی ھریر....و یکذبہ۔ترجمہ: سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: زنا میں انسان کے ہر عضو کا حصہ ہوتا ہے، آنکھیں زنا کرتی ہیں اور ان کا زنا دیکھنا ہے، ہاتھ زنا کرتے ہیں اور ان کا زنا پکڑنا اور گرفت کرنا ہے، پیر زنا کرتے ہیں اور ان کا زنا چلنا ہے، منہ زنا کرتا ہے اس کا زنا بوس وکنار ہے ، دل خواہش کرتا اور تمنا وآرزو کرتا ہے جب کہ شرمگاہ اس کی تصدیق کرتی ہوئی زنا میں مبتلا ہوتی ہے یا اسے جھٹلاکر زنا سے باز رہتی ہے۔ مسند امام احمد ، حدیث نمبر8752۔ایک نوجوان فطری طور پر صنف نازک کی طرف مائل رہتاہے ، جب اس کی نظر کے سامنے یہ منظر آتاہے تو اس کی ذہنی کیفیت متاثر ہوجاتی ہے ، ٹی وی چینلوں کے یہ فحش مناظر دن میں کئی مرتبہ اس کے ذہن ودماغ پر حملہ کرتے ہیں ۔ روزانہ کے حملوں سے وہ اس کا عادی ہوجاتاہے ۔ان طاقت سوز مناظر کو وہ اپنے سکون کا سامان اور دل لگی کا ذریعہ سمجھ بیٹھتاہے۔ نتیجے کے طور پر قوت ناقص ہوجاتی ہے اورحافظہ کمزور ہوجاتا ہے۔
انٹرنیٹ کی تباہ کاریاں
انٹرنیٹ کے فوائد یقینا بہت زیادہ اور بڑے پیمانہ پر ہیں،اس کے باوجود یہ بے حیائی وفحاشی کا ایک غیر معمولی بڑا ذریعہ ہے ، انٹرنیٹ کے ذریعہ ایک لڑکی اجنبی لڑکے سے بے تکلف تعلق قائم کرتی ہے اور ایک لڑکا اجنبی لڑکی سے بہ آسانی ربط پیدا کرلیتا ہے ، ای میل اور چیٹنگ سے دونوں کے تعلقات بڑھتے جاتے ہیں ، افراد خاندان بھی اس قدر تفصیلات سے واقف نہیں ہوتے جس قدر تفصیل سے یہ دو اجنبی ایک دوسرے سے واقفیت حاصل کرتے ہیں جبکہ اسلام نے اجنبی لڑکا لڑکی کی گفتگو کو ممنوع ٹہرایا ہے ، کلام سے پہلے سلام کا درجہ ہے لیکن نوجوان لڑکی کو سلام کرنے سے تک فقہاءکرام نے منع کیا ہے ۔محض اس لئے کہ فتنہ کا دروازہ کھلنے نہ پائے۔عورت کی آواز بھی پردہ ہے لیکن وائس چیٹنگ کے ذریعہ اجنبی لڑکا لڑکی ایک دوسرے کی آواز بے تکلف سنتے ہیں اور باہم گفتگو کرنے میں ان کے لئے حیاءمانع نہیں ہوتی۔یہی نہیں چیٹنگ کے دوران ویب کیم کے ذریعہ یہ دونوں ایک دوسرے کوبے محابا دیکھتے ہیں ، حیاءکی چادر تارتار ہوئی جاتی ہے لیکن ان کی نگاہیں پست نہیں ہوتیں ۔انٹرنیٹ کے اس بدترین طریقہ استعمال سے تو بادیہ نشینی بہترہے ، اس طرح کے ترقی یافتہ افراد سے دیہات کے سادہ لوح افراد کئی درجہ بہترہیں۔اسی طرح موبائل فون کے ذریعہ ویڈیو کالنگ کی مدد سے ایک دوسرے کو دیکھا جارہا ہے ، اس کے لئے نہ سسٹم اور لیپ ٹاپ کی ضرورت ہے اور نہ کسی اورکنکشن کی ۔جبکہ بدنظری وبدنگاہی سے متعلق وعیدیں آئی ہیں۔امام طبرانی کی معجم کبیر ،امام سیوطی کی جامع الاحادیث اورامام علی متقی ہندی رحمة للہ تعالی علیہ کی کنزالعمال میں حدیث شریف ہے:لتغضن ....ترجمہ:سیدناابو امامہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا:تم ضرور اپنی نگاہوں کو نیچی رکھو اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرو !ورنہ اللہ تعالی تمہارے چہروں کوبدل دے گا۔(معجم کبیر طبرانی ، حدیث نمبر: 7746-جامع الاحادیث، حرف اللام،حدیث نمبر: 18309- ?نز العمال، حدیث نمبر:13082۔حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے :مَن....ترجمہ:جوکوئی شہوت کے ساتھ کسی اجنبی عورت کے مقاماتِ زینت کودیکھتا ہے تو قیامت کے دن اس کی آنکھوں میں سیسہ پگھلا کر ڈالا جائے گا۔ ہدایہ ،کتاب الکراہی ،ج4،ص458۔ان احادیث شریفہ میں غیر مرد کے اجنبی عورت کودیکھنے پر جو وعید آئی ہے وہ اس عورت کے حق میں بھی ہے جو اجنبی مردوں کے سامنے اپنے محاسن کو ظاہر کرتی ہے اور ان کودیکھنے کا موقع دیتی ہے-انٹرنیٹ چیٹنگ ، وائس چیٹنگ اور ویب کیم کے ذریعہ لڑکا لڑکی کے درمیان قائم ہونے والے یہ تعلقات اس قدر قوی اور مستحکم ہوجاتے ہیں کہ معاملہ محض ہمکلامی اور نظر بازی پر ہی ختم نہیں ہوتا بلکہ نوبت میل ملاپ سے لے کر جنسی تعلقات تک پہنچ جاتی ہے۔ جو معاملہ غیر شرعی طریقہ پر وقت گزاری اور دل لگی سے شروع ہوا تھا اس کی انتہاءسنگین طور پر شرعی حدود کی پامالی اور اسلامی قانون کی بھیانک خلاف ورزی پر ہوتی ہے۔اجنبی لڑکیوں اور لڑکوں کا آپس میں جنسی تعلقات رکھنا خواہ کسی نوعیت سے بھی ہوں سخت ناجائز وشدید حرام ہے۔ انٹرنیٹ کا استعمال ہو یا کوئی اور طریقہ کار کسی صورت میں قوانین اسلامیہ واحکام شرعیہ کے حدود کو نہیں توڑا جاسکتا۔تِلک.... الظَّالِمونَ۔ترجمہ: یہ اللہ کی (مقرر کی ہوئی) حدیں ہیں ،تم ان سے آگے نہ بڑھو اور جو اللہ کی حدوں سے آگے بڑھے تو وہی لوگ ظالم ہیں:سورة البقرة،229۔نیز ارشاد الہی ہے:وقد خاب من حمل ظلما۔ترجمہ: اور یقینا وہ شخص نامراد ہوا جس نے تھوڑا بھی ظلم کیا ہو۔صحیح بخاری وصحیح مسلم میں حدیث پا ک ہے کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ترجمہ:جب کوئی زانی زنا کررہا ہوتا ہے تووہ اس وقت کامل مومن نہیں ہوتا۔بحوالہ صحیح بخاری شریف ،کتاب الجمعة ،باب من انتظرحتی تدفن ،حدیث نمبر: 2475۔ مسلم شریف ،کتاب الایمان ،باب بیان نقصان الایمان بالمعاصی ،حدیث نمبر:211 ۔زنا کاری کے مفاسد اور اس کی قباحت وشناعت کو ظاہرکرتے ہوئے حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نےزناکو شرک کے بعد سب سے بڑا گناہ قرار دیا۔ارشاد فرمایا: ما من ذنب بعد .... ترجمہ: شرک کے بعد کوئی گناہ اس نطفہ سے بڑھ کر نہیں جس کو کوئی شخص کسی ایسے رحم میں رکھے جو شرعاً اس کے لئے حلال نہ تھا۔جامع الاحادیث للسیوطی ، حرف الم،حدیث نمبر: 20456۔نکاح کے بغیراجنبیوں سے جنسی تعلقات رکھنا سخت ترین گناہ اورغضب الہی کی آگ کو بڑھکا نے والا سنگین جرم ہے ۔نکاح کے بغیرناجائز تعلقات قائم کرنے پر آمادہ کرنے والی چیزیں:(1)دینی تعلیم سے دوری(2)تربیت میں لاپروائی(3) اوباشوں کی صحبت(4)اسکولوں میں جنسی تعلیم کا فروغ(5) ٹی وی اور فلم بینی(6)انٹرنیٹ کا غلط استعمال(7)وائس چیٹنگ کا ناجائز استعمال(8)ویب کیم کے ذریعہ اجنبی نامحرم کو دیکھنا(9)موبائل فون کے ذریعہ ویڈیوکالنگ ۔اگر جنسی بے راہ روی بدنگاہی سے کلیةً پرہیز نہ کیا جائے تو دینی نقصان کے علاوہ اس کی وجہ سے قسم قسم کی مہلک بیماریوں میں مبتلا ہونے کا قوی اندیشہ ہے۔ چنانچہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:لم تظہر الفاحشة.... الذین مضوا ۔ترجمہ: جب کسی قوم میں فحاشی کا رواج بڑھتا ہے یہاں تک کہ وہ علانیہ بے حیائی کرنے لگتی ہے تو ان لوگوں کے درمیان طاعون اور ایسی بیماریاں پھیل جاتی ہیں جو ان کے اسلاف کے زمانہ میں موجود نہیں تھیں۔سنن ابن ماجہ ابواب الفتن، ص290، باب العقوبات حدیث نمبر4009۔یوروپی ممالک نے باہمی تعلقات میں جنسی بے راہ روی و عریانیت انتہائی عام کردی ہے، جس طرح تمام افراد خاندان خورد و نوش کے لیے ایک دسترخوان پر جمع ہوتے ہیں اسی طرح دوسرے جنسی امور کی تکمیل کے لیے ایک دوسرے کے سامنے ہونا کوئی عیب و عار نہیں سمجھتے۔ امریکی کالجوں اور یونیورسٹیوں کے طلباءو طالبات کے درمیان جنسی جرائم نت نئی شکل میں روز افزوں ہیں۔ چنانچہ اخبارات میں شائع شدہ خبروں کے بموجب معلوم ہوتا ہے کہ غیر شادی شدہ لڑکیاں لاکھوں ناجائز بچے جنم دے رہی ہیں جن لڑکیوں کی عمریں بیس سال سے زائد نہیں تھیں اور ان میں سے اکثر یونیورسٹیوں اور کالجوں کی طالبات ہیں۔
الیکٹرانک میڈیا اور وقت کی تباہی
ریڈیو،ٹی وی ہو یک موبائل ،انٹرنیٹ جب کوئی شخص اسے استعمال کرنے لگتا ہے تو اس کا غیر معمولی وقت ضائع ورائیگاں ہوتا ہے ۔ضرورت کے لئے استعمال یقینا روا ہے لیکن ضرورت سے زائد بے سود اور بے مقصد استعمال سے دیگر نقصانات کے علاوہ وقت کا ضائع ہونا بھی بہت بڑا نقصان ہے۔صحیح بخاری شریف میں حدیث پاک ہے:عَنِ ....فَرَاغ ۔ترجمہ:سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے آپ نے فرمایا کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: دونعمتیں ایسی ہیں کہ اکثر لوگ اس سے غفلت میں رہتے ہیں: (1)تندرسی اور(2) فرصت۔صحیح بخاری ،کتاب الرقاق، باب ما جاءفی الرقاق.... حدیث نمبر6412۔ ،ج4،کتاب الرقاق ،ص148۔حدیث پاک میں مذکور کلمہ’مغبون ‘کے دو معانی بتلائے گئے ہیں ، ایک یہ کہ ان دونعمتوں سے متعلق بہت سے لوگ نقصان وخسارہ میں ہیں کہ ان نعمتوں سے جیسا استفادہ کرنا چاہئے نہیں کرتے ، فرصت کے بیش قیمت لمحات کو ضائع کرتے ہوئے نقصان وزیاں سے دوچار ہوتے ہیں۔ حدیث پاک کا دوسرا مفہوم یہ ہے کہ بہت سے لوگ ان نعمتوں سے غفلت کا شکار ہیں ، انہیں ان نعمتوں کے نعمت ہونے کا احساس نہیں تبھی تو وہ ان اوقات کو بے سود وبے فائدہ چیز یں سننے میں صرف کرنے کے لئے تیار ہیں ۔لہٰذاوالدین کی اہم ذمہ داری ہے کہ اخلاق کی اصلاح کو پیش نظررکھتے ہوئے اپنے نونہالوں کو ایسی چیزیں نہ دیں جس سے وہ بے حیائی سے آشناہوجائیں ، ٹی وی کے عریاں ونیم عریاں مناظرسے ان کی آنکھوں کی حفاظت کریں ، اگرمذہبی وتعلیمی پروگرام کی خاطر ٹی وی دیکھیں تو ٹی وی سے ہونے والے شراورنقصان کودور کرنے کی تدبیر کریں، اس میں دکھائی دینے والے مناظرکا باقاعدہ سد باب کریں ۔بے حیائی والے چینلوں کی منصوبہ بندروک تھام کریں۔ اسی طرح انٹرنیٹ کے تباہ کن استعمال سے بچوں کو محفوظ رکھیں ، گھرمیں بلاضرورت انٹرنیٹ کنکشن اخلاق کے لئے انتہائی مضراور نقصاندہ ہے ، اگر انٹرنیٹ کے استعمال کی ضرورت ہوتو پاسورڈ وغیرہ سے اس طرح محفوظ رکھیں کہ بچہ والدین کی مرضی کے بغیرانٹرنیٹ استعمال نہ کرسکے۔ جب اسلامی اصول کے مطابق کڑی نگہداشت کی جائے تو بچے باشعورہونے تک ایسے بااخلاق ہونگیں کہ تنہائی میں بھی کسی بے حیائی والے منظر کو دیکھنے سے گریز کریں گے۔ اگر کسی طرح بے حیائی ان کی نگاہوں کے سامنے ہوجائے تو نگاہ جھک جائے گی ، دل ناپسند کرے گا اور تمام اعضاءپر نفرت کے مارے رونگٹے کھڑے ہوجائیں گے۔ الیکٹرانک میڈیا سے متعلق اہل اسلام کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ ریڈیو ، ٹی وی چینلوں ، انٹرنیٹ موبائل فون وغیرہ تمام الیکٹرانک ذرائع ابلاغ کو اسلامی قانون کے مطابق استعمال کریں ، اپنے نونہالوں اور ماتحت افراد کے ہاتھوں میں یہ الیکٹرانک ذرائع دے کر انہیں بے لگام نہ چھوڑیں۔آج ابلاغ و ترسیل کے عصری ذرائع ‘ روزنامے‘ ماہ نامے‘ سالانہ میگزینوں کے علاوہ موبائل فون‘ ٹی وی‘ انٹرنیٹ زیادہ مرکز توجہ ہیں۔ اگر ان ذرائع سے تخریبِ اخلاق ‘ بے حیائی و بے پردگی پھیلائی جارہی ہے تو ان ذرائع کو کلی طور پر چھوڑنے کا حکم نہیں دیا جاسکتا بلکہ دین اسلام ان کو صحیح طریقہ سے استعمال کرنے کی تعلیم دیتا ہے۔عرب کا طریقہ یہ تھا کہ جب کوئی اہم بات کہنا منظور ہو اور ساری قوم کو متوجہ کرنا مقصود ہو تو صفا پہاڑ پر چڑھ کر ندا دیتے اور ساری قوم متوجہ ہوجاتی۔ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اعلانیہ اسلام کی عمومی دعوت دینے کے لئے یہی مروجہ طریقہ اختیار فرمایا۔ صفا پہاڑ پر تشریف لے گئے اور قوم کو اسلام کی دعوت دی۔ حق کا پیغام سنایا۔صفا کے علاوہ جبلِ نور‘ کوہِ ابوقبیس‘ مروہ اور دیگر پہاڑبھی تھے ان کی بجائے کوہِ صفا کا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انتخاب فرمایا ۔ اپنے عمل مبارک سے امت کی رہنمائی فرمائی اور تعلیم دی کہ پیغام رسانی کے لئے وہ طریقہ اختیار کرنا چاہئے جو زیادہ لوگوں تک اپنی بات کوپہنچانے میں موثروکارآمدہو۔لہٰذا مسلمانوں کے لئے ضروری ہے کہ تمام عصری وسائل کو استعمال کریں ۔ اشاعتی اسباب‘ پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعہ تعلیم اتنی عام کردی جائے کہ یہ وسائل و اسباب کا استعمال خیر وبھلائی کے لئے کثرت سے استعمال ہونے لگیں۔مخربِ اخلاق ویڈیو‘ آڈیو اور مضامین و کتب کا جال جس نظم و نسق کے ساتھ پوری دنیا میں پھیل گیا ہے‘ اور اس کے لئے سینکڑوں ریڈیو اور ٹی وی چینل اور ہزاروں ویب سائٹیں کام کررہی ہیں۔دینی تعلیم کے فروغ کی غرض سے اور اصلاحی مقاصد کی تکمیل کے لئے اسی تعداد میں بلکہ اس سے زائد ‘ اخلاقی گندگیوں سے پاک چینل اور فحاشی سے محفوظ ویب سائٹیں مصروف عمل کی جائیں۔ ہر چینل ‘ ہرویب سائٹ ہر ذریعہ ابلاغ وترسیل کااستعمال دینی معلومات کی غیر معمولی تشہیرکیلئے ہو۔اس کے نتائج فوراً نہ سہی بتدریج سامنے آئیں گے ‘مقاصد حاصل ہوتے نظر آئیں گے ‘ ایک حد تک ان کی تکمیل ہوسکے گی نیزعالمی حالات میں مثبت سماجی و معاشرتی ‘ انفرادی و اجتماعی تبدیلی آئے گی۔
sarailliyasi@gmail.com+919811254615

200811 kaisey bachey electronic media ke muzirrat sey by sara illiyasi