Friday, March 9, 2012

hazrat iesa alaihisslaam ki zubani hazrat muhammad ki basharat حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی زبانی حضرت محمدﷺ کی بشارت

سارہ الیاسی
by sarailliyasi

ایسے دور میں جبکہ پورے عالم میں مسلمانوں کے خلاف عیسائی غلبہ کے تحت اہل مغرب کا رویہ ان کے مذہب، تہذیب اور تاریخ کے متعلق غیرہمدردانہ ہی نہیںبلکہ ایجاباً مخاصمانہ ہوچکا ہے‘ترکی میں قدیم آرامی زبان میں مکتوب انجیل مقدس کا ایک نایاب نسخہ (مخطوطہ) دریافت ہوا ہے جس میں حضرت مسیح علیہ السلام کی زبانی ان کے بعد حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور کی بشارت دی گئی ہے۔ مذکورہ نادر و نایاب نسخہ 1500 قبل مسیح کا بتایا جاتا ہے۔ برطانوی اخبار ’ڈیلی میل‘ کے مطابق انجیل کا یہ نسخہ آج سے بارہ سال قبل دریافت کیا گیا تھا جو ابھی تک عیسائیوں کے مذہبی مرکز وٹیکن میں موضوع بحث رہا تاہم اسے منظر عام پر نہیں لانے دیا گیا۔ اب اسے عیسائیوں کے مذہبی پیشوا پوپ بینیڈکٹ شانزدہم نے معائنے کیلئے منگوا لیا ہے۔اہل علم کے نزدیک اسلام سے پہلے کے تمام مذاہب کی تعلیمات چونکہ ایک خاص دور، خاص علاقے اور خاص قوموں تک محدود ہوتی تھیں ،اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان پرنازل کی جانے والی کتابوں اور صحائف کی حفاظت کا خصوصی اہتمام نہیں کیا۔ آخری ، مکمل اور ہمیشہ رہنے والے مذہب کے باعث اسلام کو یہ سعادت حاصل ہوئی کہ اللہ نے اس کی کتاب اور اس کے رسول کی سنت کو قیامت تک کیلئے محفوظ کر دیا۔ دیگر مذاہب کی کتب میں وقت کے ساتھ ساتھ اور ان کے پیروکاروں کی خواہشات نفس کے باعث بے شمار تبدیلیاں ہوتی رہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ کے ذریعے بعض ایسی نشانیاں ان میں بھی باقی رہنے دیں جو حضرت محمد ﷺ کی رسالت کے بارے میں تھیں۔
واضح رہے کہ مسلمان حضرت موسیٰ و ہارون علیہم السلام اور تمام انبیاے بنی اسرائیل اور حضرت عیسٰی اور یحییٰ علیہم السلام کو خدا کا پیغمبر مانتے ہیں، اور ان پر ایمان لانا ویسا ہی ضروری سمجھتے ہیں جیسا حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانا۔ وہ تورات اور زبور و انجیل کو بھی خدا کی کتاب مانتے ہیں اور قرآن کے ساتھ تمام آسمانی کتابوں پر ایمان لانا ان کا بنیادی عقیدہ ہے۔ وہ حضرت مریم علیہا السلام کو اتنا ہی مقدس و محترم مانتے ہیں، جتنا اپنی امہات المومنین کو۔ ان کی طرف سے یہودیوں اور عیسائیوں کے بزرگوں کی توہین کی کوئی مثال نہیں ملتی لیکن یہودیوں اور عیسائیوں کے معاملے میں صورتحال اس کے برعکس ہے۔ وہ حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے اصحاب اور ازواج کو نہ صرف یہ کہ بزرگ نہیں مانتے بلکہ وہ ان کی صداقت پر، ان کی سیرت و کردار پر، اور ان کے اخلاق پر حملے کرنے سے باز نہیں رہتے۔حتی کہ رشدی اور تسلیمہ جیسی شخصیتوں کی حوصلہ افزائی کا کوئی موقع نہیں گنواتے‘ ان کی طرف سے مسلمانوں کے جذبات پر مسلسل دست درازیاں ہوتی رہی ہیں۔ایسے پرفتن ماحول میں ’العربیہ ڈاٹ نیٹ‘کے مطابق ترک وزیر ثقافت و سیاحت ارط گل غونائے کا کہنا ہے کہ اس نادر و نایاب مقدس نسخے کی قیمت 22 ملین ڈالر بتائی گئی ہے۔ اس میں بہت سی بشارتیں شامل ہیں۔ جن میں اہم ترین یہ ہے کہ اس میں حضرت عیسٰی مسیح کی زبانی اپنے بعد حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور مسعود کی پیشن گوئی کی گئی ہے لیکن عیسائی چرچ اور پادریوں نے اسے اسلئے پوشیدہ رکھا کیونکہ اس میں بیان کردہ پیش گوئیاں قرآن کریم میں بیان کردہ حقائق سے کافی حد تک مماثلت رکھتی ہیں۔ رپورٹ کے مطابق قدیم ترین انجیلی نسخے کی عبارات اور اس کی پیش گوئیاں اسلام کے عقیدہ نبوت کے عین مطابق ہیں۔ اس نسخے میں حضرت مسیح کو خدا کی بجائے بشر قرار دیا گیا۔ عقیدہ تثلیث کی نفی کئی ہے اور حضرت عیسیٰ کے بعد حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی خوشخبری سنائی گئی ہے۔ آرامی زبان میں تحریر کردہ اس انجیلی نخسے میں لکھا ہے کہ ایک دفعہ ایک کاھن نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے اپنے بعد آنے والے نبی کے بارے میں دریافت کیا توعیسیٰ علیہ السلام نے جواب میں فرمایا کہ ’اس کا نام محمد ہو گا اور وہ برکت والا نام ہو گا۔‘ ترک وزیر غونائے کا کہنا ہے کہ انجیل کے اس نایاب نسخے کو 2000میں عیسائیوں نے بحر متوسط کے قریب ایک علاقے میں چھپا دیا تھا۔ تاہم ابھی یہ نسخہ ترک حکومت ہی کے قبضے میں ہے۔ بارہ سال پیشتر جب یہ نسخہ دریافت ہوا تو اس کے کچھ ہی عرصے بعد وہ گم ہو گیا تھا۔ اس کی گمشدگی کے بارے میں یہ کہا گیا تھا کہ اسے آثار قدیمہ کے اسمگلروں نے چوری کر لیا ۔ ترکی میں ایک عیسائی مذہبی رہنماءاحسان ازبک نے ترک اخبار ’زمان‘کو بتایا کہ انجیل مقدس کا یہ نایاب نسخہ حضرت مسیح علیہ السلام کے ان بارہ ساتھیوں، جنہیں "قدیس برنابا" کے نام سے جانا جاتا ہے، کے پیروکاروں کے دور میں پانچویں یا چھٹی صدی عیسویٰ میں لکھا گیا کیونکہ قدیس برنابا پہلی صدی عیسوی میں موجود تھے۔ انقرہ میں علم لاھوت کے ماہر پروفیسر عمرفاروق ہرمان کے بقول مخطوطے کی علمی جانچ پرکھ ہمیں اس کی صحیح عمر کے تعین میں مدد دے گی۔ ہمیں یہ معلوم ہو سکے گا کہ آیا کہ قدیس برنابا نے لکھا یا ان کے کسی پیروکار نے رقم کیا تھا۔ خیال رہے کہ یہ نادر نسخہ جلد پر سنہری حروف میں لکھا گیا ہے جس کی قیمت 2.4 ملین ڈالر بتائی جاتی ہے۔
دراصل اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت محمد ﷺتک ہر علاقے اور ہر زمانے میں ، انسانوں کی راہ نمائی کے لیے اپنے انبیاءبھیجے۔ان عظیم المرتبت ہستیوں نے انسانوں تک خدا کا پیغام پہنچایا اور انھیں شیطانی نافرمانیوں سے بچاکر اللہ کا مطیع وفرمانبردا ربنانے کی کوشش کی۔جب تک انسانیت عالم بلوغ تک نہیں پہنچی اللہ تعالیٰ ، اپنے انبیاءکے ذریعے سے ، ایک بچے کی مانند انگلی پکڑ پکڑ کر اس کی راہ نمائی کرتے رہے۔جب دنیا ذہنی و مادی ترقی کے ایک خاص مقام پر پہنچ گئی تو اللہ نے حضرت محمد ﷺ کو خاتم النبیین بنا کر بھیجا اور آسمانی ہدایت کی تکمیل کر کے انبیاءو رسل کا سلسلہ ہمیشہ کیلئے ختم کر دیا۔اللہ نے ہر نبی کو نبی آخر الزمان کی حقیقت سے آگاہ کیا اور تمام آسمانی کتب میں واضح طور پر آپ ﷺ کی آمد کی اطلاع دی گئی۔ان انبیاءٓنے اپنے مخاطبین کو حضورﷺ کا زمانہ پانے کی صورت میں آپ پر ایمان لانے کی ہدایت دی۔جبکہ دیگرمذاہب کی مقدس کتب میں ملنے والی ان نشانیوں اورپیش گوئیوں کا ذکر کیا ہے جن کا تعلق نبی آخرالزمان سے جوڑ ا جا سکتا ہے اور جواللہ تعالیٰ نے ان مذاہب کے پیروکاروں کی تحریف سے محفوظ رکھی ہیں۔دور حاضر کے چار اہم مذاہب، یہودیت، نصرانیت، ہندوازم، سکھ مذہب اور بدھ مت کی کتب میں مذکوران مقامات کا جائزہ لیا ہے ، جن کا تعلق حضورﷺ سے جوڑ ا جا سکتا ہے۔اللہ تعالیٰ کے عظیم الشان پیغمبر او ر اطاعت و فرمانبرداری میں اپنی مثال آپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جب اللہ تعالیٰ نے مختلف باتوں میں آزمایا اور انھوں نے تسلیم ورضا اور اطاعت و فرمانبرداری کے ہر امتحان میں کامیابی حاصل کی تو اللہ نے ان کو اپنا خلیل قرار دیا اور خلیل کے ہر عمل کی تقلید قیامت تک کے انسانوں پر فرض کر دی۔چنانچہ خلیل اللہ اور ذبیح اللہ نے کعبہ کی تعمیر کرتے وقت اللہ تعالیٰ سے دعا کی جس کی قبولیت کا عندیہ بھی اللہ تعالیٰ نے دے دیا۔حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پیروکاروں کا نام یہودہے۔ان کی مذہبی کتاب، جسے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے منسوب کیا جاتا ہے وہ تورات یا عہد نامہ قدیم ہے۔موجودہ عبرانی تورات انتالیس کتابوں پر مشتمل ہے۔ان میں سے پانچ کتب حضرت موسیٰ علیہ السلام کی شریعت پر مشتمل ہیں۔ یہ پیدائش ، خروج ، احبار، گنتی اور استثنا ءہیں۔باقی چونتیس کتب بھی مختلف انبیاءاور شخصیات سے منسوب ہیں۔ تورات کا یونانی نسخہ مزید سات کتب کے اضافے کے ساتھ چھیالیس کتابوں پر مشتمل ہے۔ تورات میں متعدد مقامات پر نہایت واضح الفاظ میں ایک آنے والے نبی کا ذکر موجود ہے ۔
 غور طلب ہے کہ سابقہ تمام مذاہب کی کتابوں میں تاریخ میں وقوع پزیر ہونے والے معمولی واقعات کی پیش گوئیاں بھی موجود ہیں اور وہ نہایت واضح الفاظ میں نام و مقامات کی تعیین کے ساتھ موجود ہیں۔حضرت محمد ﷺکی بعثت کوئی معمولی واقعہ نہیں ہے۔ آپ کی آمد نے تاریخ کا نقشہ ہی بدل دیا تھا۔ کروڑ وں لوگوں نے آپ کے پیغام پر لبیک کہا اور دنیا کے بہت بڑ ے حصے پر آپ ﷺ اور آپ کے پیروکاروں کی حکومت قائم ہوئی۔یہ کیسے ممکن ہے کہ اس عظیم الشان واقعے کا ذکر سابقہ انبیا نے نہ کیا ہو۔صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ان کتب میں بیان کردہ ایسی پیش گوئیوں کو عمدا غائب کیا گیا ہے۔کتاب پیدائش میں حضرت اسماعیل علیہ السلام کے بارے میں ہے کہ ’اور اسماعیل کے حق میں بھی میں نے تیری دعا سنی۔میں یقینا اسے برکت دوں گا۔میں اسے برومند کروں گا اور اسے بہت بڑ ھاوں گا۔اس سے بار ہ سردار پیدا ہوں گے اور میں اسے بڑ ی قوم بناوں گا۔‘عربی زبان کے بعض پرانے تراجم میں ان الفاظ کا اضافہ بھی موجود ہے :’اور اسے برومند کروں گا اور ”ماد ماد ‘کے ذریعے اسے بڑ ا بناوں گا۔‘قاضی عیاض نے ’مادماد‘ کوعبرانی زبان میں نبی کریم کے ناموں میں سے ایک نام کے طورپر ذکر کیا ہے۔ہندو مذہب اگرچہ، مختلف النوع بتوں ، دیویوں اور دیوتاو?ں پر مشتمل بت پرستی کے عقائد باطلہ سے بھر پور ہے ، لیکن اس کی مذہبی کتب ویدوں میں کئی مقامات پر ایسی حکیمانہ باتیں اور آخری زمانے میں آنے والی ایک ایسی شخصیت کا ذکر موجود ہے ، جس کی علامتیں حضرت محمد کے علاوہ کسی پر پوری نہیں اترتیں مولانا شمس نوید عثمانی کی معروف کتاب ’اگراب بھی نہ جاگے تو‘ ترجمہ عبداللہ طارق میں کافی تفصیل پائی جاتی جسے جسیم بک ڈپو، دہلی نے 1989کے دوران شائع کیا تھا۔نیزبدھ مت کی تعلیمات میں حضرت محمد ﷺکا ذکر:جس طرح باقی مذاہب میں ایک آنے والی عظیم الشان ہستی کے بارے میں پیش گوئیاں موجود ہیں جو آخری زمانے میں آئے گی ، اسی طرح بدھ مت کی تعلیمات میں بھی ایسی شخصیت کے بارے میں بتایا گیا ہے جس کی علامات حضرت محمد ﷺکے علاوہ کسی اور پر پوری نہیں اترتیں۔بدھ مت کی زبان میں رسول کو بدھ کہا جاتا ہے۔لفظ بدھ ، بدھی سے ہے جس کا معنیٰ عقل و دانش ہے۔گوتم بدھ نے اپنے شاگرد نندا کو تلقین کرتے ہوئے فرمایا تھا:’نندا ! اس دنیا میں ، میں نہ تو پہلا بدھ ہوں اور نہ آخری۔اس دنیا میں حق وصداقت اور فلاح و بہبود کی تعلیم دینے کیلئے ، اپنے وقت پر ایک اور بدھ آئے گا۔وہ پاک باطن ہو گا۔اس کادل مصفی ہو گا۔علم و دانش سے بہرہ ور اور سرور عالم ہو گا۔جس طرح میں نے دنیا کو حق کی تعلیم دی ہے ، اسی طرح وہ بھی دنیا کو حق کی تعلیم دے گا۔ اور وہ دنیا کو ایسی شاہراہ حیات دکھائے گا جو صاف اور سیدھی ہو گی۔نندا ، اس کا نام’ میترئے ‘ ہو گا۔‘اگر کوئی چاہے تو نر اشنسا اور آخری رسول، پنڈت وید پرکاش اپادھیائے ‘ترجمہ وصی اقبال کا ص53 دیکھ سکتا ہے جسے مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز، نئی دہلی نے دسمبر1999 میں شائع کیا۔قدیم ترین ایرانی مذہب مجوسیت، جس کے بانی زرتشت(یا زردشت) ہیں اور ان کی مقدس کتا ب کا نام ’اوستا‘ ہے۔ اس کتاب میں بھی ایک آنے والی ہستی کی پیش گوئیاں موجود ہیں۔اوستا میں لکھا ہے کہ ایک مرد سرزمین نازیان سے جو ہاشم کی ذریت سے ہو گا، خروج کرے گا۔اپنے جد کے دین اور فراوان لشکر کے ہمراہ ایران کی طرف آئے گا، زمین کو آباد کرے گا اور اس کو عدل سے بھر دے گا۔‘حوالے کیلئے منجی عالم بشریت دین یہود اور زردشت کی روشنی میں ، میرزا ظہیرکا رقم کردہ مقالہ دیکھا جاسکتا ہے۔
sarailliyasi@gmail.com+919811254615
010312 hazrat iesa alaihisslaam ki zubani hazrat muhammad ki basharat by sarailliyasi

kese ruke gi taqreebaat me khane ki badhti hui barbadi? کیسے رکے گی تقریبات میں کھانے کی بڑھتی ہوئی بربادی؟

سارہ الیاسی
 by sara iliiyasi

دین سے دوری کے سبب تقریبات میں کھانے کی بربادی بڑھتی جا رہی ہے۔ دہلی اےن سی آر اس معاملے میں بھی کافی آگے ہیں۔ یہاں شادی، پارٹی، سیمینار جیسی معاشرتی تقریبات میں 25 فیصد کھانا برباد ہو جاتا ہے۔ کھانے کی بربادی روکنے کیلئے حکومت بھی سنجیدہ ہے۔ رواں سال سے اسکولوں میں بچوں کو پڑھایا جائے گا کہ کھانا ضائع نہیں کرنا چاہئے۔ایک آر ٹی آئی کے جواب میںوزارت امور صارفین نے بتایا کہ کھانے کی بربادی کیسے روکی جائے، اس کیلئے بنائی گئی کمیٹی تمام لوگوں سے رائے لے کر رہنما: خطوط تیار کر رہی ہے۔ آرٹی آئی کارکن سبھاش چندر اگروال نے آر ٹی آئی کے تحت مذکورہ موضوع پر معلومات طلب کی تھیں۔ جواب میں بتایاگیا ہے کہ رواں برس سے اسکولوں میں بھی بچوں کو اس سلسلے میں تعلیم دی جائے گی۔ اےن سی ای آرٹی اور سی بی اےس ای سے اس سلسلے میں بات کی گئی تھی۔ تیسری اور پانچویں جماعت تک علم ماحولیات ای وی ایس کے نصاب میں اور چھٹی سے دسویں جماعت تک کے سائنس مضامین کے کامن تھیم میں ’فوڈ‘ کو بھی شامل کر دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ11 ویں اور 12 ویں جماعت میں ہیلتھ اینڈفزیکل ایجوکیشن میں کھانے کی بربادی کے بارے میں بھی پڑھایا جائے گا۔ اس کے ساتھ ہی تمام ریاستوں کی حکومتوں نے بھی اسے سلےبس میں شامل کرنے کی حامی بھری ہے۔ حالانکہ میزورم، دمن دیو اور ناگر حویلی انتظامیہ نے کہا ہے کہ بچوں کو اس سلسلے میں بیدار کیا جائے گا لیکن اس مرتبہ سلےبس میں اسے شامل کرنا مشکل ہے لہذا آئندہ سال سے اسے شامل کیا جائے گا۔
اس سلسلے میںحال ہی میںانڈین انسٹی ٹیوٹ آف پبلک ایڈمنسٹریشن نے کھانے کی بربادی پر دہلی، غازی آباد، فرید آباد اور گڑگاوں میں سروے کیا تھاجس کی رپورٹ میں کہا گیاہے کہ کھانے کی بربادی ایک شہری عادت ہے جوشہروں میں جاری دیگر طرز زندگی کی طرح بتدریج دیہی علاقوں میں بھی پھیلتی جا رہی ہے۔ شادی میں نمائش اور تصنع کو فرغ ملاہے، اس وجہ سے کھانے کی بربادی بھی اضافہ ہوا ہے۔ سروے میں 93.4 فیصد لوگوں نے کہا کہ سوشل گےدرنگ میں کھانا برباد ہوتا ہے۔ 72.6 فیصد لوگوں نے کہا کہ سب سے زیادہ کھانااور وقت برباد ہوتا ہے ‘ خصوصا اس صورت میں جب ڈشیںزیادہ ہوتی ہیں۔لوگ انواع و اقسام کے کھانوں کی بھڑ میں سمجھ نہیں پاتے کہ کیا کھائیں اور کیا چھوڑیں۔ سروے میں67.9 فیصد شرکاءنے اعتراف کیا کہ لوگ زیادہ کھانا اپنی پلیٹوں میںلے تو لیتے ہیں لیکن اتنا کھا نہیں پاتے جب کہ پلیٹ کا بچا ہوا کھانے کا رواج نہیں ہے اور اسے توہین سمجھا جاتا ہے جس وجہ سے غذا کی بربادی ہوتی ہے۔ 67.3 فیصد نے کہا کہ لوگ اس کے تئیں لاپروا ہوجاتے ہیں ‘ اس لئے انہیں فرق نہیں پڑتا کہ کھانا برباد ہو رہا ہے۔ 83.2 فیصد لوگوں کا خیال ہے کہ تصنع اور فیشن کے چکر میں زیادہ کھانا برباد ہو رہا ہے۔ رپورٹ کے مطابق جس طرح کھانا پیش کیا جاتا ہے وہ بھی بربادی کی وجہ ہے جبکہ 75 فیصد لوگوں نے کہا کہ بفے سسٹم کی وجہ سے کھانازیادہ برباد ہوتا ہے۔ 44.1 فیصد لوگوں نے کہا کہ جہاں کنبہ کے اراکین کھانا بناتے ہیں اور پیش کرتے ہیںتو وہاں کھانا برباد نہیں ہوتا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ درمیانی زمرے کی تقریبات میں کھانے کے دوران 10سے12 ڈشیں ہوتی ہیں جبکہ اعلی طبقہ کے مینو میں 100سے150تک اشیاءکھانے کیلئے پیش کی جاتی ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ قانون بنا کر اسے نہیں روکا جا سکتا کیونکہ اس سے بدعنوانی بڑھے گی بلکہ لوگوں کو بیدار کرکے اور مذہب کی بنیاد پر کنٹرول کر کے ہی کھانے کی بربادی روکی جا سکتی ہے۔ کھانے کی بربادی کیسے روکی جائے اس کیلئے وزارت نے مئی 2011 میں ایک کمیٹی بنائی تھی۔ پہلے یہ دو ماہ کیلئے ہی بنی تھی لیکن اب اس کی مدت بڑھا دی گئی ہے۔ فی الحال اس کی مدت میں رواں مہینے کے آخر تک توسیع کی گئی ہے۔واضح رہے کہ مسلم شریف میں سیدنا جابر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ جب تم میںسے کسی کا لقمہ گر جائے تو چاہئے کہ وہ اسے اٹھاکر گندگی دور کرکے کھالے اور شیطان کیلئے اسے نہ چھوڑے اور اپنا ہاتھ رومال سے نہیں پونچھے یہاں تک کہ اپنی انگلیاں چاٹ لے کیونکہ وہ نہیں جانتا کہ برکت کھانے کے کس حصہ میں ہے۔لہٰذا سمجھنا چاہئے کہ اسباب خوردونوش اور کھانے پینے کے سامان قدرت کے بیش بہا عطایا ہیں، ان کی قیمت واہمیت ان سے پوچھ لیجیے‘ جو محروم ہیں۔ اگر کسی کے پاس نعمتیں میسر ہیں تو وہ اس کی تنگی سے ناواقف ہے جس سے وہ بے خبر ہے۔ سب کی بات بھی چھوڑ دیجیے ، زندگی میں کبھی کبھار ایک دانہ اور ایک قطرہ آب بھی اپنی اہمیت جتاتا ہے۔ سامان خورد ونوش کی اہمیت تو ایک عام انسان کو بھی معلوم ہے چہ جائیکہ بات خاص مسلمان کی ہو۔ جو اللہ و رسول کا فرمانبردار ہوتا ہے اور جس کی ہر ادا اسلامی سانچے میں ڈھلی ہوتی ہے۔ وہ اپنے مالک ورازق کی دی ہوئی نعمت کا قدرداں ہوتا ہے اور شکرگزاربھی۔ آخر کیوںنہیں؟ جبکہ’ لئن شکرتم لازیدنکم‘ اگر تم شکرگذاری کروگے تو ہم مزید کریںگے۔پھر دانہ تو اسی کو ملتا ہے جو اس کی قدر کرتا ہے۔گھر میں ڈھیرسارے غلے اور اناج ہوں یاپھر دسترخوان پر لگے نوع بہ نوع ماکولات ومشروبات یاپھر کوئی محدود ومقررغذا۔ قدر تو ہونی ہی چاہئے۔ زیادہ ہونے کا یہ مطلب قطعاً نہیں کہ اس کو برباد کیا جائے اور شیطان کو موقع دیاجائے۔ جو انسان کا ازلی دشمن اسی کی تلاش میں رہتا ہے جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سکھایا ہے کہ کھانا کھاتے وقت اگر کوئی لقمہ کسی کے ہاتھ سے گر جائے توگندہ اورخراب سمجھ کر اسے چھوڑ نہیں دے بلکہ اٹھاکر صاف کرے اور پھر کھاجائے مگر شیطان کیلئے نہیں چھوڑے جس کیلئے انسان ہرآن خود پریشان ہے۔ آخر شیطان لعین کیلئے اس کو کیوں چھوڑ دے وہ تو ہرجگہ برباد کرنے اور کرانے کیلئے ہی پہنچتا ہے۔ پھر موقع پاتے ہی یہ کرگزرتا ہے۔مسلم شریف میں حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ سے ہی مروی ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ شیطان تم میں سے ہر کسی کے ہرکام کے وقت یہاں تک کہ کھانے کے وقت بھی پہنچ جاتا ہے ۔ اس لئے وہ کھانا کھاتے وقت کچھ نہ کچھ تو برباد کرے گا ہی۔ وہ چاہے گا ہی کہ دانہ اور کھانا برباد ہو ، جو گرے وہ نہ اٹھے اور انسان اسے چھوڑ دے۔ مگر اسلامی ادب یہ ہے کہ اٹھاکر اسے صاف کرنے کے بعد کھا لینا ہے۔ اس سے شیطان کو منہ کی کھانی پڑتی ہے ، دوسری جانب اسے کھانے والے کے مزاج میں انکساراور تواضع بھی آتی ہے ، ہوسکتا ہے کہ برکت اسی لقمے میں ہو ، جو نیچے گرگیا۔ اسی لئے آپ نے تعلیم دی کہ کھانا کھانے کے بعد کوئی شخص فوری طور پر اپنا ہاتھ رومال وغیرہ سے نہیں پونچھے بلکہ اپنی انگلیاں اچھی طرح چاٹ لے کیونکہ وہ نہیں جانتا کہ برکت کھانے کے کس حصے میں ہے۔ بخاری ومسلم میںحضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا ہے کہ جب کوئی کھانا کھائے تو اپنی انگلیاں نہیں پونچھے ، یہاں تک کہ ان کو چاٹ لے یا چٹادے۔اسلام کا بتلایا ہوا یہ ادب بھی کتنا لطیف ہے۔ اس کی پیروی سنت پر عمل ہے اور سچ پوچھئے تو کھانا کھانے کے بعد اس کا اپنا ایک الگ لطف اور مزہ ہوتا ہے۔
sarailliyasi@gmail.com+919811254615
+919654778803
120312 kese ruke gi taqreebaat me khane ki badhti hui barbadi by sara iliiyasi

Monday, January 23, 2012

rango ki ahmiyat aur zaroorat ko kiyo nahi samajhe ham?رنگوں کی اہمیت اور ضرورت کو کیوں نہیں سمجھتے ہم؟



سارہ الیاسی
by sara illiyasi

قدرت نے کائنات کی ذرے ذرے کو رنگوں سے سجایا ہے۔ رنگ میں ذائقہ کو پنہاں رکھا۔ ظاہرکا باطن اپنی حکمت سے عیا ں رکھا۔ اخلاق کو الفاظ کے سنگ سے نوازا۔ سیرت کو صورت کے ڈھنگ میں رکھا۔ حکمت سے سب کھلا رکھا۔ مرد کا قول،عورت کا انتخاب ہی حسن سیرت میںچھپاہی نہیںرکھاہے بلکہ کائنات میں رنگ رنگ کے لوگوں سے رنگینی فرمائی۔کائنات قدرت میں رنگوں کا حسین امتزاج،ہر شے کو بامعنی بناتا ہے۔علم کا زاویہ حکمت کھول کردانائی بخشتا ہے۔ اس نے رنگوںمیں پہچان عطاءکی۔دنیاکی ہرشے شمار رنگوں سے مزین ہے۔ ہر رنگ میں مزید کئی رنگ ، زندگی کے بکھیڑوںمیںرنگ ، حسن ترتیب سے بکھر کر بکھرے خیالات کو مسلسل اِک ترتیب عطا ءکر رہے ہیں۔ان رنگوں کو دیکھنا جمال ہے تو ان کا سمجھنا بھی کمال ہے۔رنگوں کے انتخاب کے معاملے میں دنیا بھر میں لڑکیاں زیادہ تر گلابی اور لڑکے نیلے رنگ کو ترجیح دیتے ہیں اوریہ رنگ ان دونوں جنسوں کی پہحان سمجھے جاتے ہیںلیکن دوسری جنگ عظیم تک پسند اور شناخت کا میعار بالکل الٹ تھا اور گلابی رنگ لڑکوں اور نیلا لڑکیوں سے منسوب کیا جاتا تھا۔ رنگ رنگ کی مخلوقات کو زندگی بخشی۔ فطرت انسانی یک رنگی سے بیزار رہی۔قوم اسرائیل من و سلوی سے آزار ہوئی۔ رب نے کائنات میں حسین چہرے تخلیق فرمائے۔ خیالات کورنگین مناظرسے فرح بخش نظارنصیب بنائے۔ بیش بہاءذائقوں کے پھل، سبزیاںاورمشروبات ،موسم کی مناسبت سے ملائے۔ پہاڑ، میدان، صحرا ،جزائراور سمندر ان کی حد میں پھیلائے۔ حسن کوحسن کے رنگ ہی میں گرمائے۔ہر موسم کو رنگ دئے۔ موسم کی مناسبت سے ذائقے بخشے۔ جو مزاج کی فرحت بنے۔انسان کی صحت ٹھہرے۔خالق نے پرندوں میں پہچان پرواز، آوازاور رنگ میں فرمائی۔آواز کے سر کی طرح لباس کی رنگینی بھی بخشی۔ماتھے پہ رنگت کے فرق سے جنس کی پہچان رکھی۔انداز پرواز سے حکمت کی گرہ کھلی۔مزاج ان خالص رنگوں کی مانند ہے جو اپنی تاثیر اِک مخصوص حلقہ تک رکھتے ہیں۔ ہر فرد کا مزاج جدا ہے، قوم کا مزاج، خاندان کا مزاج، قبیلہ کا مزاج ، نسل کا مزاج رفتہ رفتہ چند قدرے مختلف ہوتے ہوئے بھی مشترک رکھتے ہیں۔ مزاج پہ ماحول، موسم، حالات، لب ولہجہ اثر انداز ہوتے ہوئے ایک رنگ بخشتے ہیں۔
گلابی رنگ شاید تمام لڑکیوں کا پسندیدہ نہ ہو اوردوسرے رنگ بھی ان کیلئے کشش رکھتے ہوں مگر دنیا بھر عموماً گلابی رنگ کوخواتین بالخصوص لڑکیوں سے منسوب کیا جاتا ہے اوران کے ملبوسات اور عام استعمال کی اکثر اشیاءمیں گلابی رنگ کی جھلک نمایاں ہوتی ہے۔کپڑوں کی دکانوں پر آپ کو لڑکیوں کے ملبوسات میں گلابی رنگ واضح طورپر دکھائی دے گا۔ نوزائیدہ اور شیر خوار بچیوں کے زیادہ تر ملبوسات تو ہوتے ہی گلابی رنگ کے ہیں۔ اسی طرح لڑکیوں کے استعمال کی دوسری چیزیں، مثلاً ان کے اسکول بیگ، کاپیوں کے کور، پنسلیں ، قلم اور اسٹیشنری کی اکثر چیزوں میں گلابی رنگ زیاد ہ نظر آئے گا۔اسی پر بس نہیں بلکہ مغربی ممالک میںتو لڑکیوں کے کمروں میں گلابی پینٹ کیا جاتا ہے اور اس کمرے کا فرنیچر اور روزمرہ ضرورت کی دوسری اشیاءبھی گلابی یا اس کے ملتے جلتے رنگوں کی ہوتی ہیں۔
ایسے والدین بھی ایک بڑی تعداد میں موجود ہیں جو اپنی بچیوں کو پیار سے پنکی یا روزی یا گلابو کہہ کر پکارتے ہیں۔رنگ کی شناخت صرف لڑکیوں اور خواتین تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ اس دائرے میں لڑکے اور مرد بھی آتے ہیں اور نیلے رنگ کو ان سے منسوب کیا جاتا ہے۔کپڑے کی دکانوں میں مردوں کے زیادہ تر لباس نیلے یا اس سے ملتے جلتے رنگوں میں ہوتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ اچھے گرم مردانہ سوٹ زیادہ تر گہرے سے ہلکے اور سیاہی مائل نیلے رنگوں میں ہی میسر ہوتے ہیں۔ برانڈ کمپنیاں مردوں کی شیونگ کریمیں ،جل ، شیمپو اور روزہ مرہ استعمال کی دوسری اشیاءزیادہ تر نیلی پیکنگ میں ہی فروخت کیلئے پیش کرتی ہیں۔
اکثر گھروں میں لڑکوں کے کمروں میں نیلا رنگ کیا جاتا ہے۔ ان کی اسٹیشنری کی زیادہ تر اشیاءبھی اسی رنگ کی ہوتی ہیں۔
کیا جنس کے اعتبار سے رنگوں کی پسند انسان کے جین میں شامل ہے؟ اس کی وجہ نفسیاتی ہے یا اس کا تعلق ثقافتی روایات اور تاریخ سے ہے؟دلچسپ بات یہ ہے کہ ان سب باتوں کاجواب نفی میں ہے۔ زیادہ دور پرے کی بات نہیں ہے رنگوں کی یہ تخصیص بالکل الٹ تھی۔ آج سے صرف چھ دہائی پہلے تک یہ سمجھاجاتاتھا کہ گلابی اور سرخ رنگ لڑکوں اور مردوں کیلئے ہوتے ہیں جبکہ لڑکیوں کو نیلا رنگ پہننا چاہئے۔اس سوچ میں تبدیلی کا آغاز غالباً پچھلی صدی کے ابتدائی برسوں میں ہواجس کی بڑے پیمانے پر مخالفت کی گئی۔ خاص طور پر لڑکیوں کو گلابی رنگ کے کپڑے پہنانے کے خلاف اخبارات نے مہم چلائی۔ ایک امریکی اخبار’ سنڈے سینٹی نل‘مارچ 1914 کی اشاعت میں لکھا کہ اگر آپ اپنے چھوٹے بچوں کو رنگوں کی شناخت دینا چاہتے ہیں تو لڑکوں کیلئے گلابی اور لڑکیوں کیلئے نیلے رنگ کاانتخاب کریں۔اسی طرح ایک اور جریدے’ لیڈیز ہوم جرنل‘ نے جون 1918کے دوران اپنے ایک مضمون میں لکھا کہ اگرچہ رنگوں کے چناو کے مسئلے پر کافی تنوع پایا جاتا ہے مگر ایک تسلیم شدہ اصول یہ ہے کہ گلابی رنگ لڑکوں کیلئے ہے جبکہ نیلا لڑکیوں کیلئے ہے۔اس دور کے کئی ناولوں اور کہانیوں میں بھی جہاں کرداروں کے لباس کا ذکر کیا گیا ہے، وہاں زیادہ تر لڑکیاں نیلے اور لڑکے گلابی رنگوں میں ملبوس دکھائی دیتے ہیں۔گلابی اور نیلے رنگ کی یہ بحث قریب چار دہائی تک جاری رہی لیکن 1950 کے دوان رنگوں کی مروجہ ترتیب الٹ گئی جس کے بعد یہ تسلیم کرلیا گیا کہ گلابی لڑکیوں اور نیلا لڑکوں کا رنگ ہے۔اس تبدیلی میں دو چیزوں نے اہم کردار ادا کیا۔ پہلا ہٹلر کی نازی حکومت اور دوسرا ریڈی میڈ گارمنٹس بنانے والی برانڈ کمپنیوں نے لیکن اس سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ کئی سوسال تک نیلے کو لڑکیوں اور گلابی کو لڑکوں کا رنگ کیوں سمجھا جاتا رہا۔ مغربی معاشرے میں اس کی کڑیاں قبل از مسیح کے دور سے ملتی ہیں۔ روایات کے مطابق حضرت مریم نیلالباس پہنتی تھیں۔ ان سے عقیدت کے اظہار کیلئے عیسائی معاشرے میں لڑکیوں کو نیلالباس پہنایا جاتاتھا۔ ماضی میں یہ تصور بھی عام تھا کہ چونکہ آسمان نیلا ہوتا ہے اس لئے یہ رنگ تقدس اور پاکیزگی کی علامت ہے۔چنانچہ لوگ اپنی بچیوں کو نیلے لباس میں دیکھنا پسند کرتے تھے۔جبکہ لڑکیوں کے اکثر اسکولوں کا یونیفارم آج بھی نیلاہوتا ہے نیزدنیا کے اکثر ملکوں میں گرل کائیڈ ز نیلا لباس پہنتی ہیں جس کی بنا پر ہمارے ہاں انہیں نیلی چڑیا بھی کہاجاتا ہے۔تاریخ گواہ ہے کہ ماضی میں گلابی رنگ کی کوئی اپنی علیحدہ حیثیت نہیں تھی اور اسے سرخ رنگ کے طورپر دیکھا جاتاتھا۔ چونکہ جنگوں میں مرد حصہ لیتے تھے اور اپنا خون بہاتے تھے جس کا اظہار وہ سرخ لباس پہن کرکرتے تھے۔ ماضی کی پینٹنگوںمیں اعلیٰ سرکاری عہدے داروں ، فوجیوں اور معززین کے ملبوسات میں سرخ رنگ کی جھلک نمایاں طورپر دکھائی دیتی ہے لیکن چین کا ماضی ایک مختلف تصویر پیش کرتا ہے۔ قدیم چین میں لڑکوں کو نیلے اور لڑکیوں کو سرخ کپڑے پہنائے جاتے تھے جس کی وجہ خالصتاً معاشی تھی۔ ماضی میں کپڑے کو نیلا رنگ دینا خاصا مہنگا تھا جبکہ اس کے مقابلے میں سرخ رنگ پر سب سے کم خرچ آتاتھا۔اکثر مشرقی معاشروں کی طرح چین میں بھی لڑکوں کو لڑکیوں پر فوقیت دی جاتی تھی اسلئے لڑکوں کو نیلے اور لڑکی کو سرخ کپڑے پہنائے جاتے تھے۔اس قدیم روایت کو ماوزئے تنگ نے توڑ کر پوری قوم کو نیلی یونیفارم پہنا دی۔اس تبدیلی میں جرمن نازیوں نے غیر دانستہ طورپر اہم کردار ادا کیا۔ نازیوں نے اپنی جیلوں میں قیدیوں کے لیے مختلف رنگوں کے لباس مقرر کررکھے تھے تاکہ دور سے ہی پہچان لیا جائے کہ وہ کس جرم کی سزا کاٹ رہے ہیں۔ مثلاً وہ یہودیوں کو نیلا اور ہم جنس پرستوں کو گلابی یونیفارم پہناتے تھے۔ چنانچہ رفتہ رفتہ گلابی رنگ نسوانیت کی علامت بن گیا اور یورپ اورمغربی ممالک کے ہم جنس پرستوں نے اس رنگ کو اپنی شناخت کے طورپر تسلیم کرلیا۔اب ان کی تقریبات میں یہ رنگ نمایاں دکھائی دیتا ہے اور ان کی معاشی سرگرمیوں کو پنک برنسpink business یعنی گلابی کاروبار کہاجاتا ہے۔غالباً 1950کے قریب ریڈی میڈ ملبوسات کی کمپنیوں نے لڑکیوں کے لباس ڈیزائن کرتے ہوئے گلابی رنگ کو ترجیح دینی شروع کردی، پھر گڑیاں ، کھلونے اور بچیوں کے استعمال کی چیزیں تیار کرنے والی کمپنیاں بھی اس جانب راغب ہونے لگیں اوراس کے بعد کے برسوں میں گلابی رنگ نے تقربیاً دو ہزار سال سے مروج نیلے رنگ کو نکال کر دنیا بھر میں قبولیت اور مقبولیت کی سند
 حاصل کرلی۔
لیکن ذرا سوچئے کہ آخر خوشی کے مواقع پر سرخ و شوخ رنگ پہنانے کی رسم کیوں ہے؟ غمی کے سانحہ پرسیاہ و ماتمی رنگ پہننے کی روایت کیوںہے؟سادھو،فقرا ور درویش کو سبز اور گیروا رنگ کیوں پسندہیں؟سن رسیدہ بزرگوںکو سفید رنگ کیوںآنند ہے؟بچے سرخ رنگ کی طرف کیوں لپکتے ہیں؟انسان نے وسیع پیمانہ پر رنگ استعمال کئے ہیں۔اسکے استعمال کی تمام اشیاءمیں پسندیدہ رنگ شامل ہوتے ہیں۔رنگ انسانی طبع پر اثر ڈالتے ہیں۔ رنگ انسانی تہذیب و تمدن کے ساتھ بدلتے ہیں۔آواز کا لہجہ ایسا رنگ ہے جو شخصیت کے تمدن کا آئینہ دار بنتاہے۔ انسان کے رنگوں کا انتخاب ہی اس کے اندرونی خیالات اور ارادوں کی پاسداری کا مظہرٹھہرتا ہے۔انسان کے پسندیدہ،ناپسندیدہ رنگ ہی اسکی ذہنی اور قلبی کیفیات کی عکاسی کرتے ہیں۔ رنگوں کے علوم انسانی افسردگی،فرخندگی ، تفکرات کا گہراپن ،خیالات کا گھنا پن، کمزور اور طاقتور قوت فیصلہ جیسی شخصیت و خیالات کی ترجمانی رکھتے ہیں۔رنگ زندگی کے بیش بہاءپہلووں کے عکاس ہیں۔ زندگی پررنگوں کے تاثرات روشنی کے کردارسے واقفیت کا احساس ہیں۔اسلام میں رنگوں کے استعمال کی سائنسی بنیاد ریاضی اور جیومیٹری کے علوم سے رکھی گئی۔ جن میںجذبات،روح اور مادہ ہر تخلیق کے پس منظر میںسمجھی گئی۔ان میںہوشِ عقل کا ٹھہراو،جوشِ عمل کا بہاو اوراعتدال کابناو۔ان کا بالترتیب سیاہ،سفید اور صندل کے رنگ سے مزین ہے۔سیاہ اور سفید ٹائلوں کے فرش صوفیانہ عمل کا پیغام دیتی ہیں۔سفیدرنگ خالص روشنی ہے ،جو پاکیزگی اوراللہ سے مضبوط تعلق رکھتی تھی، سیاہ حکمت کی پوشیدگی ہے،نقش و نگار میں صندل رنگ زمین کی تزئین کاری تھی۔اسلامی تعمیرات میں یہ رنگوں کا پہلا بنیادی گروہ تھا۔ ثانوی درجہ سرخ،زرد،سبز اور نیلا رنگ کو حاصل ہوا۔ان چاررنگوں سے قدرتی خصوصیات گرم،خشک ،سرد اور گیلا کوتعمیربنایا۔مادی عناصر آگ،پانی ،ہوااور زمین سے بالترتیب تعبیر کیا۔سبزفطرتی رنگ اور امید ٹھہرا۔ نیلا رنگ اسلامی فن تعمیر یعنی مساجد، مقابر،مدارس میں سب سے زیادہ استعمال ہوا۔قدیم لوگوں نے اِسکوآسیب و بلا سے تحفظ کی علامت سمجھا۔یہ آسمان اور سمندر کی عمیق و دقیق وسعت کے ساتھ ساتھ فراق کی ترجمانی ٹھہرا۔نقش و نگار اور بیل بوٹوں میں سبز رنگ کو فوقیت ملی۔ پیلا اور نیلامیں تناسبِ مقدار یکساں رہی۔چونکہ سبزاِن کے یکساں باہمی ملاپ سے وجود میں تھا۔ لہذااِنکا انفراد ی استعمال بھی وزن کو مساوی رکھتا۔سرخ کو نسبتاً کم فوقیت ملی۔ زرد مستقبل،سرخ حال، نیلا ماضی اور سبز فطرتی رنگت ٹھہری۔
فن تعمیر میں رنگوں کا امتزاج اقوام کی معاشرتی نشوونما کا ترجمان بنتا ہے،دیگر اقوام کے اثرات کاادواری غلبہ بھی ظاہر ہوتا ہے۔آسمانی نیلا رنگ اور نیلے رنگ کی چینہ کاری ایرانی اثرات کا غماز ہے تو صندل،زرد اورگہرا بھورا رنگ ہندوستانی مندروں اور گوردواروں کی پہچان ٹھہرے۔ہلکا سبز رنگ کشمیر کی ثقافت کا حصہ بنا۔ وسط ایشیا میں نیلا اور سفید رنگ کا امتزاج شاہی رنگ ہوا۔سفید اور سرخ کے اشتراک کو جنوب مشرقی ایشیائی ممالک نے اپنی پہچان بنا لیا، شمالی ایشیائی اقوام کی تعمیرات، ثقافت میںسرخ رنگ خوشی کا آئینہ دار ٹھہرا تو دنیا کے کسی اور خطہ میں قربانی کا علمبردار بنا۔یہ قومی رنگ نہ صرف قوموں کے مزاج اور ماضی کے عکاس بنتے ہیں بلکہ تاریخی و جغرافیائی تحقیق کیلئے معاون اوراہم ثبوت ثابت ہوتے ہیں۔ جنوب مشرقی ایشیائی اورمڈغاسگر کی اقوام کے مزاج انکے مشترکہ رنگوں، طرز معاشرت سے نہ صرف عیاں ہوتے ہیں بلکہ انکی گمنام تاریخ کو آپس میں ملانے کا ایک ثبوت بھی فراہم کرتے ہیں۔ انکارہن سہن اور تمدن کچھ قدروں میں گہری وابستگی کا ربط رکھتا ہے۔تاریخی حقائق تحقیق کے طلبگار ہے۔انسانی مزاج کی طرح کچھ رنگ مل کر ایک نیا رنگ بناتے ہیں تو کچھ رنگ مل کر اپنا وجو د کھوتے ہیں۔پیلے اور جامن کا ملاپ سفیدی ہے تو پیلے اور سرخ کا سنگ نارنجی ہے۔انسانوں کے سنگ بھی ان رنگوں کی مانند اپنا انگ بدلتے ہیں۔رنگ مزاج تبدیل کرتے ہیں۔رنگ جیسی کیفیت طاری کرتے ہیں ،مزاج ویسے ہی بنتے ہیں۔ہر سیارہ کے مقابل اس کا رنگ مخصوص کیا گیا۔ ہر برج کا رنگ سیارے کے ماتحت رکھا گیا اور اسی سے شخصیت اور مہینے کے رنگ طے ہوئے۔ہفتہ وارہر یوم کے رنگ مقرر کئے۔جواہرات کا پہننا، اس ہی علم کے ماتحت ٹھہرا۔ اس ہی علم کے تحت شخصیت اور لباس نے اہمیت کو اپنایا۔
مذہب کے رنگ، پرچم کے رنگ معنی خیزرہتے ہیں۔سرخ رنگ کہیں انقلاب کی روداد ہے تو کہیں شاندار تاریخ بیان کر رہا ہے۔چند افریقی اور مشرقی وسطیٰ کے ممالک سیاہ رنگ کو افسوسناک ماضی سے تعبیر کرتے ہیں تو کچھ سیاہ کو چھپے خزائن کی دولت بتاتے ہیں۔اگر ایک سلطنت مذہب کے رنگ سے اپنی وابستگی کا اظہار کر رہی ہے تو کوئی ثقافتی رنگ کی علمبردار بنتی ہے۔ کسی بھی جھنڈا میں رنگ کا انتخاب بیش بہاءحکمت رکھتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ممالک کا طرز معاشرت اور رنگوں سے لگاوانکے تاریخی ربط پر تحقیق کا سوالیہ نشان قائم کرتا ہے۔انسان نے رنگوں کے استعمال کو موسم، حالات اور نوعیت کے ساتھ خوب پہچان لیا ہے بلکہ سیکھ لیا ہے مگر رنگوں کی تلاش میں چھپے رازوں کی پہچان سے ابھی مکمل واقف نہیں ہو پایا۔ جہاں خدا نے حکمت و دانائی کو آج بھی چھپا رکھا ہے۔سرخ مٹی میں سبزہ کے خود بخود اگ جانے کے قدرتی فرش میں کچھ پنہاں رکھا، سفید اور سرخ پانی کی تاثیر میں فرق رنگوںہی سے رکھا ہے۔پانی کے رنگ میںتفریق ذائقہ کا فرق ہے۔پودوں میں رنگ کے راز بڑے معنی رکھتے ہیں۔ گلاب کے پتوں کی کناری حد پھول کا رنگ بتاتے ہیں، کانٹے خوشبو کا اظہار ہیں۔سدا بہار پھول سمیت بیشتر پھولدار پودوںکی غالب رنگی ٹہنیاں کچھ بتانے پہ مامورہیں،کینا اور دیگر اس نوع کے نباتات کے پتوں کا بیرونی کنارہ پھول کی رنگت کے عکاس ہوتے ہیں۔تلسی کے پھول کا رنگ، چنبیلی کے پتوں کی
  تعداد میں فرق کا جہان۔اگر پھول کے رنگ کا فرق بتاتا ہے تو کہیں نسل کی پہچان۔
یہ علم نہیں کے پھل کاٹ کر ذائقہ چکھا جائے، یہ بھی علم نہیں کہ پکا کھانا چکھ کر اس کا ذائقہ بتا یا جائے بلکہ نگاہ کو رنگ
 کی پہچان ہونی چاہئے۔ علم اور فن تو نگاہ میں اندر کی پہچان عطا کرتا ہے۔ مسمی، کینو، مالٹا، سنگترہ، مٹھا، کھٹا میں ذائقہ کا فرق رکھا۔ رنگ سے انکی پہچان میں تمیز فرمائی درخت نے انکو شناخت عطاءکی۔ ایک ہی باغ کے درختوں سے اتارے گئے ہر پھل کے ذائقہ کا فرق رنگ میں بھی ظاہر فرمایا۔اللہ نے رسوںمیں میٹھا، کھٹا، کھارا، کڑوا، چیرپرا اور کسیلا پن رکھا تو تاثیر میںگرم،سرد ،خشک اور تر جیسے اثرات کو بخشا۔ایک گاجر کو تین رنگوں میں تخلیق فر ما ئی اور انکے ذائقہ اور افادیت میں ترکیب کی تبدیلی رکھی۔ جانور کے گوشت میں رنگی تفریق ہی پہچان اورلذت میں تسکین کر رہی ہے، انسانی جلد کی رنگت اسکے بارے میں نہ جانے کیا کچھ بیان کر رہی ہے۔پھل کی ایک ہی نوع کے چھلکاکا رنگ ذائقہ کا اختلاف ظاہر کرتے ہیں، ساتھ ہی پھلوں کے رنگ انسانی بیماریوں کے علاج میں معاونت بھی رکھتے ہیں۔ سرخ رنگ دوران خون بڑھاتا ہے تو زرد عصبی نظام اور گردوں کیلئے کارگر ثابت ہوتا ہے ایسے ہی نارنجی پھیپھڑوں اور جسم کو توانائی بخشتاہے تو نیلا رنگ بیماری میں تسکین اور درد کی کمی سمجھا جاتا ہے۔ بنفشی عکس سے جلدی مسائل کا علاج چلتاہے جبکہ انسانی
 فضلات کے رنگ انسان کی بیماری کے اصل نقائص آگاہ کرتے ہیں۔
قوس قزح سات رنگوں سے مزین ہوتی ہے۔ سرخ ، نارنجی، زرد،سبز،آسمانی، نیلگوں اور بنفشی کی رنگین شعاعوں سے ہر چیز کی زندگی مرتب ہوتی ہے۔ سات ہزارسال قبل عراق کے اطباءانہی رنگین شعاعوں سے مریضوں کا علاج کرتے تھے۔آج کلر تھراپی،کلرگرافی کوئی نئی دریافت نہیں۔ قلب کیلئے زرد رنگ ہے جو جسم کے بایاں حصہ پر کارگر ہوتا ہے اور روح کیلئے جسم کے دائیں جانب سرخ رنگ،سفید رنگ سر پر شعور کیلئے، سیاہ رنگ ماتھا پرخیالات کا وارد ہونا پر،چھاتی کے وسط پر سبز رنگ شعور سے گہری وابستگی رکھتے ہیں۔ جن کی تحریکی ترتیب زرد،سرخ،سفید،سیاہ اور سبز سے بنتی ہے۔جس طرح انسان کو خواراک میں تمام وٹامنز،معدنیات و دیگر اجزاءکی ضرورت ہوتی ہے،گلینڈز کا بننا جسمانی نشوونما میں اہم کردار ادا کرتا ہے اور اِنکی کمی جسمانی صحت کو متاثر کرتی ہے۔ اسی طرح انسانی جسم کو بنیادی رنگوں کی ضرورت بھی ہوتی ہے۔ جو دیکھنے سے حاصل ہوتی ہے اور انکے استعمال سے جسم میں انکی ضرورت پوری ہوتی ہے۔ کسی رنگ کی کمی بھی انسان کو جسمانی اور شعوری بیماریوں میں لاحق کرتی ہے۔سبزہ ،پانی اور خوبصورت چہروں کو دیکھنے سے نگاہ میں تیزی پیدا ہوتی ہے۔ان سے ہی انسان کی سوچ اور خیال میں وسعت آتی ہے۔
جسمانی صحت کے ساتھ ساتھ ان رنگوں کا گہرا استعمال نفسیاتی بیماریوں میں ہمیشہ معاون کارہوتا ہے۔ سبز رنگ مشاہدہ کوقوت بخشتا ہے تو نیلا رنگ تخلیقی صلاحیتوں کو مزید نکھارتا ہے۔ نارنجی توجہ مبذول کرواتا ہے تو سرخ جذبات میں جوش عمل لاتا ہے۔ زرد افسردگی و بے چینی پیدا کرتا ہے تو گلابی نئی راہیں کھولتا ہے،سیاہ پردوں کی سیاہی ہٹاتا ہے تو سفیدسرد مہری وبے جاکیفی کا ذریعہ بنتا ہے۔انسان کا جسم ظاہری آنکھ سے کچھ اور دکھا ئی دیتا ہے جبکہ قدرت نے جلد سے باہر بھی اسکو ایک خول عطاءکر رکھا ہے۔ اِک ست رنگے خول نے ہر بدن کو گھیر ہواہوتا ہے جو دکھا ئی تو نہیں دیتا لیکن کائنات میں بکھرے ہوئے رنگوں سے اپنی خوراک حاصل کرتا ہے۔موسیقی میں سر اورآوازمیں ہم آہنگی اِک خوشگواررنگ بخشتے ہیں۔ پر فضا مقام پر ہوا کی سرسراہٹ ایک پر کشش رنگ مزاج پر چھوڑتی ہے۔بلب کی روشنی اور ٹیوب لائٹ کی روشنی ہمارے عصبی نظام پر کیا اثر ڈالتے ہیں۔سورج کی روشنی کا شیشے سے گزر کا آنا اور براہ راست روشنی کو محسوس کرنا مزاج میںکیسی تازگی لاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ چاند کی چاندنی عجب سماں ذہن پر طاری کرتی ہے۔چراغ‘موم بتی‘ لالٹین اور آگ کے رنگوں میں فرق ہے۔ آج انسانی زندگی اِن اندھیروں میں جلتی روشنی کی طرح بےرنگ ہوتی جارہی ہے۔ امید کی شعاع سے محروم مایوسیوں اور محرومیوں کا شکار انسان نفسیاتی امراض کا شکار ہورہا ہے۔ انسان خود کو قدرت کے حسن سے محروم کر رہا ہے۔قدرت انسان کی فطرت میں حقیقت کا رنگ بھرتی ہے۔ جو اسکو پائیدار انسان بناتی ہے۔ اصلی رنگوں کو اپنائیے، بناوٹی رنگ بناوٹ پیدا کرتے ہیں۔ایک چہرہ پہ خاص رنگ جچتا ہے تو کسی دوسرے فرد کے چہرہ پر وہی رنگ بجھتا ہے۔ رنگوں کی دوڑ میں انسان اپنا حقیقی رنگ بھول رہا ہے۔قدرت نے دنیا کی ہر شے بے رنگی،بے مقصد تخلیق نہیں کی۔اس نے کائنات میں ہر شے مربوط انداز سے ربط میں رکھی۔ ہر مخلوق کو اس کے رنگ میں حسن بخشا۔ فطرت کو اِن رنگوں سے ظاہر کیا۔ نگاہ سے دل کو تسکین ملی۔ نگاہ کی توجہ نے حکمت کے راز کھولے ہیں۔ رنگ کی پہچان میں اپنی تلاش کیجئے۔ ہر شے کو اسکے ڈھنگ سے سمجھئے تو زندگی کے معنی بدل جائیں گے۔لہذارنگوں کونظر انداز کرنا درست نہیں۔ آنکھیں بند کر کے رنگ استعمال نہ کیجیے ۔ ہر علاقہ کی اپنی شناخت ہوتی ہے۔ رنگ اسکے مطابق اپنائے گئے ہوتے ہیں۔ ہردوا فائدہ دیتی بھی اور نقصان کہیں اور پہنچا بھی سکتی ہے۔ فطرت کامشاہدہ کرنے پر انسان سب سمجھ لیتاہے‘ضرورت توجہ کی ہوتی ہے۔
sarailliyasi@gmail.com+919811254615

230112 rango ki ahmiyat aur zaroorat ko kiyo nahi samajhe ham by sara illiyasi