Friday, March 9, 2012

hazrat iesa alaihisslaam ki zubani hazrat muhammad ki basharat حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی زبانی حضرت محمدﷺ کی بشارت

سارہ الیاسی
by sarailliyasi

ایسے دور میں جبکہ پورے عالم میں مسلمانوں کے خلاف عیسائی غلبہ کے تحت اہل مغرب کا رویہ ان کے مذہب، تہذیب اور تاریخ کے متعلق غیرہمدردانہ ہی نہیںبلکہ ایجاباً مخاصمانہ ہوچکا ہے‘ترکی میں قدیم آرامی زبان میں مکتوب انجیل مقدس کا ایک نایاب نسخہ (مخطوطہ) دریافت ہوا ہے جس میں حضرت مسیح علیہ السلام کی زبانی ان کے بعد حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور کی بشارت دی گئی ہے۔ مذکورہ نادر و نایاب نسخہ 1500 قبل مسیح کا بتایا جاتا ہے۔ برطانوی اخبار ’ڈیلی میل‘ کے مطابق انجیل کا یہ نسخہ آج سے بارہ سال قبل دریافت کیا گیا تھا جو ابھی تک عیسائیوں کے مذہبی مرکز وٹیکن میں موضوع بحث رہا تاہم اسے منظر عام پر نہیں لانے دیا گیا۔ اب اسے عیسائیوں کے مذہبی پیشوا پوپ بینیڈکٹ شانزدہم نے معائنے کیلئے منگوا لیا ہے۔اہل علم کے نزدیک اسلام سے پہلے کے تمام مذاہب کی تعلیمات چونکہ ایک خاص دور، خاص علاقے اور خاص قوموں تک محدود ہوتی تھیں ،اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان پرنازل کی جانے والی کتابوں اور صحائف کی حفاظت کا خصوصی اہتمام نہیں کیا۔ آخری ، مکمل اور ہمیشہ رہنے والے مذہب کے باعث اسلام کو یہ سعادت حاصل ہوئی کہ اللہ نے اس کی کتاب اور اس کے رسول کی سنت کو قیامت تک کیلئے محفوظ کر دیا۔ دیگر مذاہب کی کتب میں وقت کے ساتھ ساتھ اور ان کے پیروکاروں کی خواہشات نفس کے باعث بے شمار تبدیلیاں ہوتی رہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ کے ذریعے بعض ایسی نشانیاں ان میں بھی باقی رہنے دیں جو حضرت محمد ﷺ کی رسالت کے بارے میں تھیں۔
واضح رہے کہ مسلمان حضرت موسیٰ و ہارون علیہم السلام اور تمام انبیاے بنی اسرائیل اور حضرت عیسٰی اور یحییٰ علیہم السلام کو خدا کا پیغمبر مانتے ہیں، اور ان پر ایمان لانا ویسا ہی ضروری سمجھتے ہیں جیسا حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانا۔ وہ تورات اور زبور و انجیل کو بھی خدا کی کتاب مانتے ہیں اور قرآن کے ساتھ تمام آسمانی کتابوں پر ایمان لانا ان کا بنیادی عقیدہ ہے۔ وہ حضرت مریم علیہا السلام کو اتنا ہی مقدس و محترم مانتے ہیں، جتنا اپنی امہات المومنین کو۔ ان کی طرف سے یہودیوں اور عیسائیوں کے بزرگوں کی توہین کی کوئی مثال نہیں ملتی لیکن یہودیوں اور عیسائیوں کے معاملے میں صورتحال اس کے برعکس ہے۔ وہ حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے اصحاب اور ازواج کو نہ صرف یہ کہ بزرگ نہیں مانتے بلکہ وہ ان کی صداقت پر، ان کی سیرت و کردار پر، اور ان کے اخلاق پر حملے کرنے سے باز نہیں رہتے۔حتی کہ رشدی اور تسلیمہ جیسی شخصیتوں کی حوصلہ افزائی کا کوئی موقع نہیں گنواتے‘ ان کی طرف سے مسلمانوں کے جذبات پر مسلسل دست درازیاں ہوتی رہی ہیں۔ایسے پرفتن ماحول میں ’العربیہ ڈاٹ نیٹ‘کے مطابق ترک وزیر ثقافت و سیاحت ارط گل غونائے کا کہنا ہے کہ اس نادر و نایاب مقدس نسخے کی قیمت 22 ملین ڈالر بتائی گئی ہے۔ اس میں بہت سی بشارتیں شامل ہیں۔ جن میں اہم ترین یہ ہے کہ اس میں حضرت عیسٰی مسیح کی زبانی اپنے بعد حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور مسعود کی پیشن گوئی کی گئی ہے لیکن عیسائی چرچ اور پادریوں نے اسے اسلئے پوشیدہ رکھا کیونکہ اس میں بیان کردہ پیش گوئیاں قرآن کریم میں بیان کردہ حقائق سے کافی حد تک مماثلت رکھتی ہیں۔ رپورٹ کے مطابق قدیم ترین انجیلی نسخے کی عبارات اور اس کی پیش گوئیاں اسلام کے عقیدہ نبوت کے عین مطابق ہیں۔ اس نسخے میں حضرت مسیح کو خدا کی بجائے بشر قرار دیا گیا۔ عقیدہ تثلیث کی نفی کئی ہے اور حضرت عیسیٰ کے بعد حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی خوشخبری سنائی گئی ہے۔ آرامی زبان میں تحریر کردہ اس انجیلی نخسے میں لکھا ہے کہ ایک دفعہ ایک کاھن نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے اپنے بعد آنے والے نبی کے بارے میں دریافت کیا توعیسیٰ علیہ السلام نے جواب میں فرمایا کہ ’اس کا نام محمد ہو گا اور وہ برکت والا نام ہو گا۔‘ ترک وزیر غونائے کا کہنا ہے کہ انجیل کے اس نایاب نسخے کو 2000میں عیسائیوں نے بحر متوسط کے قریب ایک علاقے میں چھپا دیا تھا۔ تاہم ابھی یہ نسخہ ترک حکومت ہی کے قبضے میں ہے۔ بارہ سال پیشتر جب یہ نسخہ دریافت ہوا تو اس کے کچھ ہی عرصے بعد وہ گم ہو گیا تھا۔ اس کی گمشدگی کے بارے میں یہ کہا گیا تھا کہ اسے آثار قدیمہ کے اسمگلروں نے چوری کر لیا ۔ ترکی میں ایک عیسائی مذہبی رہنماءاحسان ازبک نے ترک اخبار ’زمان‘کو بتایا کہ انجیل مقدس کا یہ نایاب نسخہ حضرت مسیح علیہ السلام کے ان بارہ ساتھیوں، جنہیں "قدیس برنابا" کے نام سے جانا جاتا ہے، کے پیروکاروں کے دور میں پانچویں یا چھٹی صدی عیسویٰ میں لکھا گیا کیونکہ قدیس برنابا پہلی صدی عیسوی میں موجود تھے۔ انقرہ میں علم لاھوت کے ماہر پروفیسر عمرفاروق ہرمان کے بقول مخطوطے کی علمی جانچ پرکھ ہمیں اس کی صحیح عمر کے تعین میں مدد دے گی۔ ہمیں یہ معلوم ہو سکے گا کہ آیا کہ قدیس برنابا نے لکھا یا ان کے کسی پیروکار نے رقم کیا تھا۔ خیال رہے کہ یہ نادر نسخہ جلد پر سنہری حروف میں لکھا گیا ہے جس کی قیمت 2.4 ملین ڈالر بتائی جاتی ہے۔
دراصل اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت محمد ﷺتک ہر علاقے اور ہر زمانے میں ، انسانوں کی راہ نمائی کے لیے اپنے انبیاءبھیجے۔ان عظیم المرتبت ہستیوں نے انسانوں تک خدا کا پیغام پہنچایا اور انھیں شیطانی نافرمانیوں سے بچاکر اللہ کا مطیع وفرمانبردا ربنانے کی کوشش کی۔جب تک انسانیت عالم بلوغ تک نہیں پہنچی اللہ تعالیٰ ، اپنے انبیاءکے ذریعے سے ، ایک بچے کی مانند انگلی پکڑ پکڑ کر اس کی راہ نمائی کرتے رہے۔جب دنیا ذہنی و مادی ترقی کے ایک خاص مقام پر پہنچ گئی تو اللہ نے حضرت محمد ﷺ کو خاتم النبیین بنا کر بھیجا اور آسمانی ہدایت کی تکمیل کر کے انبیاءو رسل کا سلسلہ ہمیشہ کیلئے ختم کر دیا۔اللہ نے ہر نبی کو نبی آخر الزمان کی حقیقت سے آگاہ کیا اور تمام آسمانی کتب میں واضح طور پر آپ ﷺ کی آمد کی اطلاع دی گئی۔ان انبیاءٓنے اپنے مخاطبین کو حضورﷺ کا زمانہ پانے کی صورت میں آپ پر ایمان لانے کی ہدایت دی۔جبکہ دیگرمذاہب کی مقدس کتب میں ملنے والی ان نشانیوں اورپیش گوئیوں کا ذکر کیا ہے جن کا تعلق نبی آخرالزمان سے جوڑ ا جا سکتا ہے اور جواللہ تعالیٰ نے ان مذاہب کے پیروکاروں کی تحریف سے محفوظ رکھی ہیں۔دور حاضر کے چار اہم مذاہب، یہودیت، نصرانیت، ہندوازم، سکھ مذہب اور بدھ مت کی کتب میں مذکوران مقامات کا جائزہ لیا ہے ، جن کا تعلق حضورﷺ سے جوڑ ا جا سکتا ہے۔اللہ تعالیٰ کے عظیم الشان پیغمبر او ر اطاعت و فرمانبرداری میں اپنی مثال آپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جب اللہ تعالیٰ نے مختلف باتوں میں آزمایا اور انھوں نے تسلیم ورضا اور اطاعت و فرمانبرداری کے ہر امتحان میں کامیابی حاصل کی تو اللہ نے ان کو اپنا خلیل قرار دیا اور خلیل کے ہر عمل کی تقلید قیامت تک کے انسانوں پر فرض کر دی۔چنانچہ خلیل اللہ اور ذبیح اللہ نے کعبہ کی تعمیر کرتے وقت اللہ تعالیٰ سے دعا کی جس کی قبولیت کا عندیہ بھی اللہ تعالیٰ نے دے دیا۔حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پیروکاروں کا نام یہودہے۔ان کی مذہبی کتاب، جسے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے منسوب کیا جاتا ہے وہ تورات یا عہد نامہ قدیم ہے۔موجودہ عبرانی تورات انتالیس کتابوں پر مشتمل ہے۔ان میں سے پانچ کتب حضرت موسیٰ علیہ السلام کی شریعت پر مشتمل ہیں۔ یہ پیدائش ، خروج ، احبار، گنتی اور استثنا ءہیں۔باقی چونتیس کتب بھی مختلف انبیاءاور شخصیات سے منسوب ہیں۔ تورات کا یونانی نسخہ مزید سات کتب کے اضافے کے ساتھ چھیالیس کتابوں پر مشتمل ہے۔ تورات میں متعدد مقامات پر نہایت واضح الفاظ میں ایک آنے والے نبی کا ذکر موجود ہے ۔
 غور طلب ہے کہ سابقہ تمام مذاہب کی کتابوں میں تاریخ میں وقوع پزیر ہونے والے معمولی واقعات کی پیش گوئیاں بھی موجود ہیں اور وہ نہایت واضح الفاظ میں نام و مقامات کی تعیین کے ساتھ موجود ہیں۔حضرت محمد ﷺکی بعثت کوئی معمولی واقعہ نہیں ہے۔ آپ کی آمد نے تاریخ کا نقشہ ہی بدل دیا تھا۔ کروڑ وں لوگوں نے آپ کے پیغام پر لبیک کہا اور دنیا کے بہت بڑ ے حصے پر آپ ﷺ اور آپ کے پیروکاروں کی حکومت قائم ہوئی۔یہ کیسے ممکن ہے کہ اس عظیم الشان واقعے کا ذکر سابقہ انبیا نے نہ کیا ہو۔صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ان کتب میں بیان کردہ ایسی پیش گوئیوں کو عمدا غائب کیا گیا ہے۔کتاب پیدائش میں حضرت اسماعیل علیہ السلام کے بارے میں ہے کہ ’اور اسماعیل کے حق میں بھی میں نے تیری دعا سنی۔میں یقینا اسے برکت دوں گا۔میں اسے برومند کروں گا اور اسے بہت بڑ ھاوں گا۔اس سے بار ہ سردار پیدا ہوں گے اور میں اسے بڑ ی قوم بناوں گا۔‘عربی زبان کے بعض پرانے تراجم میں ان الفاظ کا اضافہ بھی موجود ہے :’اور اسے برومند کروں گا اور ”ماد ماد ‘کے ذریعے اسے بڑ ا بناوں گا۔‘قاضی عیاض نے ’مادماد‘ کوعبرانی زبان میں نبی کریم کے ناموں میں سے ایک نام کے طورپر ذکر کیا ہے۔ہندو مذہب اگرچہ، مختلف النوع بتوں ، دیویوں اور دیوتاو?ں پر مشتمل بت پرستی کے عقائد باطلہ سے بھر پور ہے ، لیکن اس کی مذہبی کتب ویدوں میں کئی مقامات پر ایسی حکیمانہ باتیں اور آخری زمانے میں آنے والی ایک ایسی شخصیت کا ذکر موجود ہے ، جس کی علامتیں حضرت محمد کے علاوہ کسی پر پوری نہیں اترتیں مولانا شمس نوید عثمانی کی معروف کتاب ’اگراب بھی نہ جاگے تو‘ ترجمہ عبداللہ طارق میں کافی تفصیل پائی جاتی جسے جسیم بک ڈپو، دہلی نے 1989کے دوران شائع کیا تھا۔نیزبدھ مت کی تعلیمات میں حضرت محمد ﷺکا ذکر:جس طرح باقی مذاہب میں ایک آنے والی عظیم الشان ہستی کے بارے میں پیش گوئیاں موجود ہیں جو آخری زمانے میں آئے گی ، اسی طرح بدھ مت کی تعلیمات میں بھی ایسی شخصیت کے بارے میں بتایا گیا ہے جس کی علامات حضرت محمد ﷺکے علاوہ کسی اور پر پوری نہیں اترتیں۔بدھ مت کی زبان میں رسول کو بدھ کہا جاتا ہے۔لفظ بدھ ، بدھی سے ہے جس کا معنیٰ عقل و دانش ہے۔گوتم بدھ نے اپنے شاگرد نندا کو تلقین کرتے ہوئے فرمایا تھا:’نندا ! اس دنیا میں ، میں نہ تو پہلا بدھ ہوں اور نہ آخری۔اس دنیا میں حق وصداقت اور فلاح و بہبود کی تعلیم دینے کیلئے ، اپنے وقت پر ایک اور بدھ آئے گا۔وہ پاک باطن ہو گا۔اس کادل مصفی ہو گا۔علم و دانش سے بہرہ ور اور سرور عالم ہو گا۔جس طرح میں نے دنیا کو حق کی تعلیم دی ہے ، اسی طرح وہ بھی دنیا کو حق کی تعلیم دے گا۔ اور وہ دنیا کو ایسی شاہراہ حیات دکھائے گا جو صاف اور سیدھی ہو گی۔نندا ، اس کا نام’ میترئے ‘ ہو گا۔‘اگر کوئی چاہے تو نر اشنسا اور آخری رسول، پنڈت وید پرکاش اپادھیائے ‘ترجمہ وصی اقبال کا ص53 دیکھ سکتا ہے جسے مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز، نئی دہلی نے دسمبر1999 میں شائع کیا۔قدیم ترین ایرانی مذہب مجوسیت، جس کے بانی زرتشت(یا زردشت) ہیں اور ان کی مقدس کتا ب کا نام ’اوستا‘ ہے۔ اس کتاب میں بھی ایک آنے والی ہستی کی پیش گوئیاں موجود ہیں۔اوستا میں لکھا ہے کہ ایک مرد سرزمین نازیان سے جو ہاشم کی ذریت سے ہو گا، خروج کرے گا۔اپنے جد کے دین اور فراوان لشکر کے ہمراہ ایران کی طرف آئے گا، زمین کو آباد کرے گا اور اس کو عدل سے بھر دے گا۔‘حوالے کیلئے منجی عالم بشریت دین یہود اور زردشت کی روشنی میں ، میرزا ظہیرکا رقم کردہ مقالہ دیکھا جاسکتا ہے۔
sarailliyasi@gmail.com+919811254615
010312 hazrat iesa alaihisslaam ki zubani hazrat muhammad ki basharat by sarailliyasi

kese ruke gi taqreebaat me khane ki badhti hui barbadi? کیسے رکے گی تقریبات میں کھانے کی بڑھتی ہوئی بربادی؟

سارہ الیاسی
 by sara iliiyasi

دین سے دوری کے سبب تقریبات میں کھانے کی بربادی بڑھتی جا رہی ہے۔ دہلی اےن سی آر اس معاملے میں بھی کافی آگے ہیں۔ یہاں شادی، پارٹی، سیمینار جیسی معاشرتی تقریبات میں 25 فیصد کھانا برباد ہو جاتا ہے۔ کھانے کی بربادی روکنے کیلئے حکومت بھی سنجیدہ ہے۔ رواں سال سے اسکولوں میں بچوں کو پڑھایا جائے گا کہ کھانا ضائع نہیں کرنا چاہئے۔ایک آر ٹی آئی کے جواب میںوزارت امور صارفین نے بتایا کہ کھانے کی بربادی کیسے روکی جائے، اس کیلئے بنائی گئی کمیٹی تمام لوگوں سے رائے لے کر رہنما: خطوط تیار کر رہی ہے۔ آرٹی آئی کارکن سبھاش چندر اگروال نے آر ٹی آئی کے تحت مذکورہ موضوع پر معلومات طلب کی تھیں۔ جواب میں بتایاگیا ہے کہ رواں برس سے اسکولوں میں بھی بچوں کو اس سلسلے میں تعلیم دی جائے گی۔ اےن سی ای آرٹی اور سی بی اےس ای سے اس سلسلے میں بات کی گئی تھی۔ تیسری اور پانچویں جماعت تک علم ماحولیات ای وی ایس کے نصاب میں اور چھٹی سے دسویں جماعت تک کے سائنس مضامین کے کامن تھیم میں ’فوڈ‘ کو بھی شامل کر دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ11 ویں اور 12 ویں جماعت میں ہیلتھ اینڈفزیکل ایجوکیشن میں کھانے کی بربادی کے بارے میں بھی پڑھایا جائے گا۔ اس کے ساتھ ہی تمام ریاستوں کی حکومتوں نے بھی اسے سلےبس میں شامل کرنے کی حامی بھری ہے۔ حالانکہ میزورم، دمن دیو اور ناگر حویلی انتظامیہ نے کہا ہے کہ بچوں کو اس سلسلے میں بیدار کیا جائے گا لیکن اس مرتبہ سلےبس میں اسے شامل کرنا مشکل ہے لہذا آئندہ سال سے اسے شامل کیا جائے گا۔
اس سلسلے میںحال ہی میںانڈین انسٹی ٹیوٹ آف پبلک ایڈمنسٹریشن نے کھانے کی بربادی پر دہلی، غازی آباد، فرید آباد اور گڑگاوں میں سروے کیا تھاجس کی رپورٹ میں کہا گیاہے کہ کھانے کی بربادی ایک شہری عادت ہے جوشہروں میں جاری دیگر طرز زندگی کی طرح بتدریج دیہی علاقوں میں بھی پھیلتی جا رہی ہے۔ شادی میں نمائش اور تصنع کو فرغ ملاہے، اس وجہ سے کھانے کی بربادی بھی اضافہ ہوا ہے۔ سروے میں 93.4 فیصد لوگوں نے کہا کہ سوشل گےدرنگ میں کھانا برباد ہوتا ہے۔ 72.6 فیصد لوگوں نے کہا کہ سب سے زیادہ کھانااور وقت برباد ہوتا ہے ‘ خصوصا اس صورت میں جب ڈشیںزیادہ ہوتی ہیں۔لوگ انواع و اقسام کے کھانوں کی بھڑ میں سمجھ نہیں پاتے کہ کیا کھائیں اور کیا چھوڑیں۔ سروے میں67.9 فیصد شرکاءنے اعتراف کیا کہ لوگ زیادہ کھانا اپنی پلیٹوں میںلے تو لیتے ہیں لیکن اتنا کھا نہیں پاتے جب کہ پلیٹ کا بچا ہوا کھانے کا رواج نہیں ہے اور اسے توہین سمجھا جاتا ہے جس وجہ سے غذا کی بربادی ہوتی ہے۔ 67.3 فیصد نے کہا کہ لوگ اس کے تئیں لاپروا ہوجاتے ہیں ‘ اس لئے انہیں فرق نہیں پڑتا کہ کھانا برباد ہو رہا ہے۔ 83.2 فیصد لوگوں کا خیال ہے کہ تصنع اور فیشن کے چکر میں زیادہ کھانا برباد ہو رہا ہے۔ رپورٹ کے مطابق جس طرح کھانا پیش کیا جاتا ہے وہ بھی بربادی کی وجہ ہے جبکہ 75 فیصد لوگوں نے کہا کہ بفے سسٹم کی وجہ سے کھانازیادہ برباد ہوتا ہے۔ 44.1 فیصد لوگوں نے کہا کہ جہاں کنبہ کے اراکین کھانا بناتے ہیں اور پیش کرتے ہیںتو وہاں کھانا برباد نہیں ہوتا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ درمیانی زمرے کی تقریبات میں کھانے کے دوران 10سے12 ڈشیں ہوتی ہیں جبکہ اعلی طبقہ کے مینو میں 100سے150تک اشیاءکھانے کیلئے پیش کی جاتی ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ قانون بنا کر اسے نہیں روکا جا سکتا کیونکہ اس سے بدعنوانی بڑھے گی بلکہ لوگوں کو بیدار کرکے اور مذہب کی بنیاد پر کنٹرول کر کے ہی کھانے کی بربادی روکی جا سکتی ہے۔ کھانے کی بربادی کیسے روکی جائے اس کیلئے وزارت نے مئی 2011 میں ایک کمیٹی بنائی تھی۔ پہلے یہ دو ماہ کیلئے ہی بنی تھی لیکن اب اس کی مدت بڑھا دی گئی ہے۔ فی الحال اس کی مدت میں رواں مہینے کے آخر تک توسیع کی گئی ہے۔واضح رہے کہ مسلم شریف میں سیدنا جابر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ جب تم میںسے کسی کا لقمہ گر جائے تو چاہئے کہ وہ اسے اٹھاکر گندگی دور کرکے کھالے اور شیطان کیلئے اسے نہ چھوڑے اور اپنا ہاتھ رومال سے نہیں پونچھے یہاں تک کہ اپنی انگلیاں چاٹ لے کیونکہ وہ نہیں جانتا کہ برکت کھانے کے کس حصہ میں ہے۔لہٰذا سمجھنا چاہئے کہ اسباب خوردونوش اور کھانے پینے کے سامان قدرت کے بیش بہا عطایا ہیں، ان کی قیمت واہمیت ان سے پوچھ لیجیے‘ جو محروم ہیں۔ اگر کسی کے پاس نعمتیں میسر ہیں تو وہ اس کی تنگی سے ناواقف ہے جس سے وہ بے خبر ہے۔ سب کی بات بھی چھوڑ دیجیے ، زندگی میں کبھی کبھار ایک دانہ اور ایک قطرہ آب بھی اپنی اہمیت جتاتا ہے۔ سامان خورد ونوش کی اہمیت تو ایک عام انسان کو بھی معلوم ہے چہ جائیکہ بات خاص مسلمان کی ہو۔ جو اللہ و رسول کا فرمانبردار ہوتا ہے اور جس کی ہر ادا اسلامی سانچے میں ڈھلی ہوتی ہے۔ وہ اپنے مالک ورازق کی دی ہوئی نعمت کا قدرداں ہوتا ہے اور شکرگزاربھی۔ آخر کیوںنہیں؟ جبکہ’ لئن شکرتم لازیدنکم‘ اگر تم شکرگذاری کروگے تو ہم مزید کریںگے۔پھر دانہ تو اسی کو ملتا ہے جو اس کی قدر کرتا ہے۔گھر میں ڈھیرسارے غلے اور اناج ہوں یاپھر دسترخوان پر لگے نوع بہ نوع ماکولات ومشروبات یاپھر کوئی محدود ومقررغذا۔ قدر تو ہونی ہی چاہئے۔ زیادہ ہونے کا یہ مطلب قطعاً نہیں کہ اس کو برباد کیا جائے اور شیطان کو موقع دیاجائے۔ جو انسان کا ازلی دشمن اسی کی تلاش میں رہتا ہے جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سکھایا ہے کہ کھانا کھاتے وقت اگر کوئی لقمہ کسی کے ہاتھ سے گر جائے توگندہ اورخراب سمجھ کر اسے چھوڑ نہیں دے بلکہ اٹھاکر صاف کرے اور پھر کھاجائے مگر شیطان کیلئے نہیں چھوڑے جس کیلئے انسان ہرآن خود پریشان ہے۔ آخر شیطان لعین کیلئے اس کو کیوں چھوڑ دے وہ تو ہرجگہ برباد کرنے اور کرانے کیلئے ہی پہنچتا ہے۔ پھر موقع پاتے ہی یہ کرگزرتا ہے۔مسلم شریف میں حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ سے ہی مروی ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ شیطان تم میں سے ہر کسی کے ہرکام کے وقت یہاں تک کہ کھانے کے وقت بھی پہنچ جاتا ہے ۔ اس لئے وہ کھانا کھاتے وقت کچھ نہ کچھ تو برباد کرے گا ہی۔ وہ چاہے گا ہی کہ دانہ اور کھانا برباد ہو ، جو گرے وہ نہ اٹھے اور انسان اسے چھوڑ دے۔ مگر اسلامی ادب یہ ہے کہ اٹھاکر اسے صاف کرنے کے بعد کھا لینا ہے۔ اس سے شیطان کو منہ کی کھانی پڑتی ہے ، دوسری جانب اسے کھانے والے کے مزاج میں انکساراور تواضع بھی آتی ہے ، ہوسکتا ہے کہ برکت اسی لقمے میں ہو ، جو نیچے گرگیا۔ اسی لئے آپ نے تعلیم دی کہ کھانا کھانے کے بعد کوئی شخص فوری طور پر اپنا ہاتھ رومال وغیرہ سے نہیں پونچھے بلکہ اپنی انگلیاں اچھی طرح چاٹ لے کیونکہ وہ نہیں جانتا کہ برکت کھانے کے کس حصے میں ہے۔ بخاری ومسلم میںحضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا ہے کہ جب کوئی کھانا کھائے تو اپنی انگلیاں نہیں پونچھے ، یہاں تک کہ ان کو چاٹ لے یا چٹادے۔اسلام کا بتلایا ہوا یہ ادب بھی کتنا لطیف ہے۔ اس کی پیروی سنت پر عمل ہے اور سچ پوچھئے تو کھانا کھانے کے بعد اس کا اپنا ایک الگ لطف اور مزہ ہوتا ہے۔
sarailliyasi@gmail.com+919811254615
+919654778803
120312 kese ruke gi taqreebaat me khane ki badhti hui barbadi by sara iliiyasi