Monday, April 25, 2011

متنازع ویڈیو گیم :میڈل آف آنر


برقیہ چھاپیے
Medal of Honor: Game Controversyسارہ الیاسی
یہ ایک ناقابل تردیدسماجی حقیقت ہے کہ انسان ابتداءہی سے فرصت کے اوقات میں تفریحی سرگرمیوں کا شوقین رہا ہے۔پرانے زمانے میںآؤٹ ڈور یعنی گھر سے باہر تیر اندازی، گھڑ دوڑ، کسرت، شہہ زوری جیسے جسمانی صحت کے کھیلوں کے ساتھ ساتھ ان ڈوریعنی گھر کے اندرشطرنج، ڈرافٹ، لوڈو، بیت بازی، پہیلیاں بوجھنا جیسے ذہانت اور حاضر دماغی والے کھیل بھی کھیلے جاتے تھے۔ آج کے جدید ترقی یافتہ دور میں جہاں انسانی سہولت کے لیے بے شمار ایجادات وجود میں آئی ہیں وہیں کھیلوں نے بھی جدید روپ اختیار کرلیا اور کمپیوٹر کی مفید ایجاد نے ان کھیلوں کو ڈیجٹلائزڈ کرکے گھر گھر پہنچادیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ آج لاکھوں کی تعداد میں ویڈیو گیموں کو ٹی وی اور کنسول سے کمپیوٹر تک ہر سہولت کے مطابق بازار میں بآسانی دستیاب ہیں ۔ان گیموںنے مقبولیت کے ساتھ متنازع حیثیت بھی اختیار کرلی ہے اور یہ بحث بھی جاری ہے کہ کمپیوٹر گیمز کا استعمال تفریح و معلومات اور ذہنی تربیت کرتا ہے یا بچوں میں طبی، نفسیاتی، معاشرتی اور تعلیمی مسائل پھیلارہا ہے جبکہ ایک فوجی بن کرمیدان جنگ میں اترنایا ایک جیٹ جہاز پرواز کرتے ہوئے یا خون آشام بلاؤں کو ختم کرکے دنیا کو بچانابچوں کو ہی نہیں بڑوں کو بھی دلچسپ لگتا ہے۔ جن حالات کسی نے کبھی دیکھا نہیں سنا نہیں ویڈیو گیم کے ذریعہ وہ امیجین کرسکتاہے اور یہ امیجینشن خیالی پلاؤ پکانے سے بہتر ہے۔ سمز گیم کے خالق ول رائٹ کے مطابق گیمرز ایک بالکل نئے طریقے سے سیکھ رہے ہوتے ہیں ۔وہ دنیا کو کی تخلیق کے بارے میں سوچ رہے ہوتے ہیں نہ کہ خاتمہ کے۔یہ سچ ہے ویڈیو گیمز کا اثر ہماری ثقافت پر بھی پڑے گا۔
ایسا ہی ایک یہ ویڈیو گیم ہے’میڈل آف آنر‘(MoH)۔یہ گیم 2002 میں افغانستان میں طالبان کے خلاف سرگرم خصوصی افواج کی کارروائیوں کے بارے میں ہے جو ان دنوں خبروں میں چھایا ہوا ہے۔برطانوی سیکرٹری دفاع کی جانب سے ’میڈل آف آنر‘ نامی ویڈیو گیم پر پابندی کے مطالبے کے باوجود اس گیم کی فروخت شروع ہوگئی ہے۔دراصل رواں برس اگست میں برطانوی سیکرٹری دفاع ڈاکٹر لیئم فاکس نے ان اطلاعات کے بعد اس گیم پر پابندی کا مطالبہ کیا تھا کہ اس گیم میں صارف طالبان کی جانب سے بھی لڑائی میں حصہ لے سکتا ہے۔ڈاکٹر فاکس نے اس کھیل کو’غیر برطانوی‘ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’یہ چونکا دینے والی بات ہے کہ برطانوی فوجیوں کے خلاف طالبان کی کارروائیوں کی دوبارہ منظر کشی کسی کے لیے قابلِ قبول ہو سکتی ہے‘۔پابندی کے مطالبے پر گیم بنانے والی کمپنی الیکٹرونکس آرٹس نے کہا تھا کہ وہ اس گیم کو حقیقت کے قریب تر بنانا چاہتے ہیں تاہم بعد ازاں اکتوبر کے آغاز میں انہوں نے طالبان کے لفظ کو حزبِ مخالف سے بدل دیا تھا۔اس تبدیلی کے باوجود یہ گیم اب بھی فوجی اڈوں پر فروخت نہیں کیا جا سکے گا تاہم فوجی اسے باہر سے خرید کر فوجی اڈوں میں لا کر کھیل سکیں گے۔گیمنگ ویب سائٹ یوروگیمر کے لیے کام کرنے والے صحافی جان منکلے نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کے خیال میں الیکٹرونکس آرٹس کی جانب سے اپنے صارفین کو طالبان کی جانب سے گیم میں حصہ لینے کی اجازت دینا ایک تشہیری حربہ تھا۔ان کا کہنا تھا کہ ’وہ یعنی الیکٹرونکس آرٹس جانتے تھے کہ یہ متنازع ہوگا لیکن انہیں توجہ حاصل کرنے کے لیے سب کچھ کرنا تھا اور خصوصاً اس وقت جب ان کا مقابلہ کال آف ڈیوٹی: ماڈرن وارفیئر جیسے دنیا کے سب سے بڑے برانڈ سے ہو‘۔
واضح رہے کہ محض ’میڈل آف آنر‘ پر ہی موقوف نہیں بلکہ اس سے قبل تمام ویڈیو گیم تنقید کا نشانہ بنے ہیں۔ان گیموں پر سب سے زیادہ تنقید یہ ہے کہ اس کے ذریعہ نوجوانوں میں حد سے زیادہ تشدد کو فروغ دیا جارہا ہے، اس تنقید پر کئی اہم اداروں مثلاً ہارورڈ میڈیکل سینٹر فار مینٹل ہیلتھ ، جرنل آف ایڈولسینٹ ہیلتھ اور برٹش میڈیکل جرنل نے بھی ویڈیو گیمز کے استعمال سے پیدا ہونے والی پر تشدد سرگرمیوں کے درمیان لنک ظاہر کیا ہے۔ ان کے مطابق حالیہ تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ زیادہ تر گیموں میں دکھائے جانے والے تشدد کو بچے اور نوجوان اسکول یا گھر سے باہر اسی طرح نقل کرنے کی کوشش ہی نہیں کرتے بلکہ ان کے رویوں میں ماردھاڑ کے شامل ہونے حتی کہ گالی گلوچ اور سگریٹ نوشی تک کی لت وہ گیمز سے سیکھتے ہیں۔ان اسٹڈیز سے پتہ چلتا ہے کہ جارحیت اور تشدد پر مبنی ویڈیو گیمز پرتشدد رویے اور مجرمانہ سوچ اور محسوسات، اسکولوں اور کھیل کے میدانوں میں لڑائی جھگڑا، بڑھتے ہوئے جسمانی طاقت کے استعمال کا رجحان اور بہتر سماجی رویوں کی کمی میں گہرا تعلق ہے، پرتشدد گیمز ٹی وی اور فلموں میں دکھائے جانے والے پرتشدد مناظرات سے زیادہ خطرناک ہوتے ہیں کیوں کے اس میں ہونے والی پرتشدد کاروائیوں میں بچہ خود بھی انوالو ہوتاہے۔ ان گیموں میں جنسی بداخلاقی کے پہلو بھی کسی حد تک نمایاں رکھے جاتے ہیں جبکہ بعض گیوںسے بچہ معصوم راہ گیروں، پولیس کو بے دردی سے مارنا سیکھتے ہیں اور اس کے لئے مختلف ہتھیاروں چاقو یا خنجر، بندوقوں اور آتشی اسلحہ، تلواروں اور بیس بال بیٹ کا استعمال کرتے ہیں گیم کھیلنے والا خود کو مجرم کی جگہ تصور کرتے ہوئے کھیلتا ہے۔
منگل, 19 اکتوبر 2010 16:06 

No comments:

Post a Comment