Monday, October 24, 2011

bholey bhaley awam ka kaisey ullu bana rahey hey baba by sara illiyasi بھولے بھالے عوام کا کیسے الو بنا رہے ہیں بابا


سارہ الیاسی
 کیا آپ یقین کرسکتے ہیں کہ کسی کے چہرے کو دیکھ کر یا پڑھ کر اس کے کردار، افکار و دیگر خصوصیات کے متعلق پتہ کی باتیںبتادیناممکن ہے؟ہمارے معاشرے میں دینی مسائل سے ناواقفیت کی بناءپرلوگ کثرت سے نام نہاد عاملوں ،جادوگروں اور بنگالی باباوں کے دام تعویز میں پھنس کر متاع دنیا کےساتھ دولت ایمان بھی لٹا بیٹھتے ہیںجبکہ قرآن وسنت کی روشنی میں جادوٹونہ،علم نجوم اور جفرورمل وغیرہ قطعی ممنوع امور ہیں لیکن اس کے باوجود لوگوں کی ایک بڑی تعداد ان میں مشغول ہے ۔یہ دھوکے باز عام طور پر علم قیافہ کا سہارا لیتے ہوئے مخاطب کو اپنے فریب میں گرفتار کر لیتے ہیں۔ ان تمام معاملات کا قرآن وسنت کی روشنی میں جائزہ لینے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کرتے۔ ان کی ممانعت وقباحت ثابت کرنے کےساتھ ساتھ نجومیوں ،رملوں جفریوں ،کاہنوں اور نام نہاد عاملوں وغیر ہ کی کتابوں ،مقالوں ،اشتہاروں اور دعووں کی روشنی میں ان کی کذب وتضادبیانیاں پیش کرکے انہیں جھوٹا ثابت کیاگیا ہے۔اس سلسلے میںجھوٹے عاملوں کے مکروفریب سے بچنے کی غرض سے علم قیافہ آگاہی حاصل کرنا ضروری ہوجاتا ہے۔ صحیح بخاری میںکتاب الطلاق کے باب’ مسجد میں لعان کرنے کے بیان میںحدیث نمبر : 5309میں آیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ اگر ( لعان کرنے والی خاتون ) اس نے سرخ اور پستہ قد بچہ جنا جےسے وحرہ تو میں سمجھوں گا کہ عورت ہی سچی ہے اور اس کے شوہر نے اس پر جھوٹی تہمت لگائی ہے لیکن اگر کالا ، بڑی آنکھوں والا اور بڑے سرینوں والا بچہ جنا تو میں سمجھوں گا کہ شوہر نے اس کے متعلق سچ کہا تھا۔(عورت جھوٹی ہے ) جب بچہ پیدا ہو تو وہ بری شکل کا تھا ( یعنی اس مرد کی صورت پر جس سے وہ بد نام ہوئی تھی )اس حدیث سے علم قیافہ کا معتبر ہونا پایا جاتا ہے۔ مگر ہم کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بالہام غیبی علم قیا فہ کی وہ بات بتلائی جاتی جو حقیقت میں سچ ہوتی۔ دوسرے لوگ اس علم کی رو سے قطعاً کو ئی حکم نہیں دے سکتے۔ امام شافعی نے بھی علم قیافہ کو معتبر رکھا ہے، پھر بھی یہ علم یقینی نہیں بلکہ ظنی ہے۔ وحرہ یعنی چھپکلی کے مانند ایک زہریلا جانور ، پستہ قد عورت یا اونٹ کی تشبیہ اس سے دیتے ہیں۔دست شناسی اور تخاطر کی طرح قیافہ شناسی بھی ایک علم ہے جس کے بہت سے ماہرین موجود ہے اور اس موضوع پر کئی کتابیں بھی لکھی جاچکی ہیں۔ قیافہ شناسی علم رکھنے والے کو قیافہ شناس کہا جاتا ہے جبکہ نفسیات کی انسائیکلوپیڈیا،2006سید اقبال امروہوی، نگارشات پبلشرز 24 - مزنگ روڈ لاہور، 191 کے مطابق علم قیافہ جسے انگریزی زبان میں Phrenologyکہا جاتا ہے دراصل ایک سائنس کا شعبہ ہے جسکی بنیاد فرانزگال Franz Gall اور سپرڑیم Spurzheim کے ایجاد کردہ عقائد پر ہے ان دونوں سائنسدانوں کا عقیدہ تھا کہ دماغ اور قشر میں بہت سے مراکز ہیں اور ہر مرکز انسان کی کسی خاص قابلیت سے تعلق رکھتا ہے اور اس مرکز کی وسعت پر انسان کی متعلقہ قابلیت کی وسعت کا انحصار ہوتا ہے۔ چونکہ ان عقائد کو علم الاجسام میں شامل کر لیا گیا ہے اس لئے سائنس کے اس شعبہ پر مزید کوئی کام یا تحقیق نہیں ہوئی۔معلوم ہونا چاہئے کہ تصویر کی ضرورت کے اسباب جو آج ہماری زندگی میں داخل ہوگئے ہیں۔ یا کردئے گئے ہیں کیا کل ماضی میں نہ تھے؟ قانونی اور معاشرتی ضروریات یقیناً پہلے بھی ایسی ہی تھیں تو لوگ اپنی یہ ضرورت کس طرح پوری کرتے تھے جبکہ تصویر نہ تھی؟ ہمیں تاریخ بتاتی ہے کہ وہ لوگ ’علم قیافہ اور علم فراست‘ سے اپنی یہ ضروریات پوری کرتے تھے۔ اور تصویر کے مقابلہ میں کہیں عملی طور سے پوری کرتے تھے۔جب سے لوگوں نے اور بالخصوص مسلمانوں نے شرعی حقائق سے اعراض کیا اور تصویر کی برائی کو بڑی برائی کے مقابلہ میں چھوٹی برائی۔اہون ± البلیتین۔ کے طور پر ھنیئاً مریئاً بنالیا تو اللہ تعالیٰ نے علمِ فراست کو ان سے اٹھا لیا ہے۔ درج ذیل واقعہ میں جو صحیح بخاری میںکتاب المغازی، باب قتل حمزہ بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ حدیث نمبر :۴۰۷۲ نیز البدای والنہای جز،۴۔ ص/۱۷میں آیا ہے‘بڑا حیرت انگیز ہے کہ لوگ فطری طور پر کس قدر زیرک ، دانا اور صاحب فراست ہوتے تھے۔حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور کا واقعہ ہے کہ جعفر بن عمرو ضمری اور قبیلہ بنی نوفل کا عبید اللہ بن عدی عروئہ روم کی طرف گئے۔ کہتے ہیں کہ جب ہم شام میں حمص کے علاقے سے گزر رہے تھے تو خیال آیا کہ کیوں نہ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے قاتل وحشی بن حرب سے ملتے چلیں۔ وہ یہیں کہیں رہتاہے۔ اور اس سے شہادت حمزہ رضی اللہ عنہ کا قصہ براہ راست معلوم کریں گے۔ محدثین اور اہل علم کوشش کرتے تھے کہ جوبات انہیں کسی واسطہ سے معلوم ہوئی ہو وہ حتی الامکان اس اصل آدمی سے سنیں اور معلوم کرنے جائیں جو صاحب واقعہ ہو۔وہ نیک اس لیے ہے کہ نیکی پر یقین رکھتا ہے یا صرف اس لیے کہ اس میں برے کام کرنے کی ہمت نہیں ہے؟ یہ سارے بھید ایک قیافہ شناس آسانی سے کھول کر رکھ دے گا۔ قیافہ شناسی پر حال ہی میں مس گریس اے ریس کی ایک کتاب ’سیرت کا مطالعہ چہرے سے‘ شائع ہوئی ہے۔بعض کے نزدیک قیافہ شناسی کے متعلق یہ دعویٰ تو نہیں کیا جاسکتا کہ وہ ایک سائنس ہے اور جو نتیجے اس کی مدد سے نکالے جاتے ہیں وہ بالکل صحیح ہوتے ہیں لیکن اس میں بھی شبہ نہیں کہ قیافہ شناسی ایک نہایت اہم اور نہایت مفید علم ہے اور اس کی مدد سے کسی شخص کے متعلق جو رائے قائم کی جاتی ہے اس پر بڑی حد تک بھروسہ کیا جاسکتا ہے۔ اس علم کے ذریعے سے جو معلومات فراہم کی جاتی ہیں اس کی صحت میں بعض اوقات چند غیرمعمولی رکاوٹوں کی وجہ سے خامی رہ جانے کا امکان ضرور ہے۔ مثلاً ہوسکتا ہے کہ کوئی شخص بیمار ہو یا اسے کوئی مرض پرانی ہو اور وہ خط و خال پر اس طرح اثرانداز ہوکہ چہرے کی بناوٹ کے جو نتیجے نکالے گئے ہیں وہ زیادہ بھروسہ کے قابل نہ رہیں یا کسی نے محنت کے ساتھ اپنے ذہن کی تربیت کرلی ہو جس سے قدرتی رجحانات اور میلانات کی تردید ہونے لگی ہو مثلاً ممکن ہے کہ چھوٹی اور پتلی ٹھوڑی والے انسان کی قوت ارادی کمزور نہ ہو گو بچپن میں وہ یقینا پختہ ارادے کی دولت سے محروم رہا ہوگا۔دراصل قیافہ شناسی زندگی کے مختلف شعبوں میں نہایت مفید اور کارآمد ثابت ہوسکتی ہے۔ والدین‘ استاد اور کارخانوں کے مالک سب اس علم سے فائدہ اٹھاسکتے ہیں قیافہ شناسی ہمیں اسکی وجہ بتاتی ہے کہ بعض چہرے کیوں ہماری نظر کو بے تحاشا اپنی طرف کھینچتے ہیں اور بعض چہروں پر نظر پڑتے ہی ہم کیوں منہ پھیر لیتے ہیں؟ بعض شکلیں ہمیں کیوں اچھی لگتی ہیں انہیں کیوں دیکھتے رہنے کو جی چاہتا ہے اور کیوں ان پر اعتماد اوربھروسہ کرتے ہوئے جھجکتے نہیں اور بعض صورتیں ہمیں کیوں پسند نہیںآتیں اور ہم کیوں ان پر اعتماد نہیں کرتے۔قیافہ شناسی ایسے لوگوں کیلئے تو ناگزیر ہے جنہیں فوری فیصلے کرنے کی ضرورت ہوتی ہے مثلاً نوکری دلانے کے دفتروں کے مشیر حکیم اور تاجر وغیرہ قیافہ شناس بشرطیکہ وہ اس فن کا ماہر ہو‘ ایک نظر میں جو رائے قائم کرلیتا ہے وہ ذہانت کے تمام امتحانوں سے زیادہ صحیح ہوتی ہے۔قیافہ شناسی کے ماہر نہایت صحیح طور پر آپ کی زندگی کے چھوٹے سے چھوٹے واقعات تک بتاسکتے ہیں اور اس بات کے متعلق صحیح پشین گوئی کرسکتے ہیں کہ آپ کا طرز عمل کسی خاص قسم کے حالات میں کیا ہوگا۔ مثلاً اس قسم کے سوالوں کا صحیح جواب دینا ایک قیافہ شناس کیلئے مشکل نہیں ہے کہ کوئی خاص شخص دیانتدار ہے یا نہیں؟ اپنے ماں باپ کا اکلوتا لڑکا ہے یا نہیں؟ اس نے کسی سے محبت کی ہے یا نہیں؟وہ نیک ہے اس لیے ہے کہ نیکی پر یقین رکھتا ہے یا صرف اس لیے کہ اس میں برے کام کرنے کی ہمت نہیں ہے؟ یہ سارے بھید ایک قیافہ شناس آسانی سے کھول کر رکھ دے گا۔ قیافہ شناسی پر گذشتہ دنوں مس گریس اے ریس کی ایک کتاب ’سیرت کا مطالعہ چہرے سے‘ شائع ہوئی ہے ۔مس موصوفہ چالیس سال سے قیافہ شناسی کا مطالعہ اور مشق کررہی ہیں۔ انہوں نے ان تمام اصولوں کا گہرائی کے ساتھ مطالعہ کیا ہے جو اس علم کے بانیوں نے قائم کیے ہیں اور اس کے بعد انہوں نے خود اپنے ذاتی مشاہدات اور تجربات سے اس فن میں کمال حاصل کیا ہے۔ انہوں نے ہزاروں انسانوں کے چہروں سے ان کی سیرت کامطالعہ کیا اور یہ بات ثابت کردی کہ قیافہ شناسی کے علم سے نہایت درست اور کامیابی کے ساتھ کام لیا جاسکتا ہے۔
مزاجوں کی تقسیم:سب سے پہلے مزاجوں کی تقسیم پر عبور حاصل کرنا ضروری ہے۔ مزاجوں کی درجہ بندی اور تقسیم سیرت کے مطالعہ میں بڑی مدد دیتی ہے۔ یوں سمجھئے کہ مزاج وہ زمین ہے جہاں انسان پیدا ہوا ہے’مٹی“ میراث اور ’سیرت‘ڈھانچہ یا قلب ہے۔ہر سائنس کی طرح قیافہ شناسی کی بھی چند اصطلاحات ہیں سب سے پہلے ان کو ذہن نشین کرلیجئے۔ مزاج کی تین خاص قسمیں ہیں۔ قیافہ شناس ان کو (1) حرکی (2) حیاتی (3) ذہنی کہتے ہیں۔ ہر اصطلاح سے جسم کی بناوٹ‘ نمایاں خصوصیات‘ ترکیبی اجزا‘ ہڈیاں‘ پٹھے گوشت‘ ذہن اور اعصاب کی وضاحت ہوتی ہے۔
حرکی مزاج:حرکی مزاج والے شخص کی ہڈیاں پٹھے اور رگیں کافی نمایاں ہوتی ہیں اور اس کے ڈھانچے اور شکل صورت سے صاف ظاہر ہوتی ہیں۔ آپ دیکھیں گے کہ اس کی پیشانی‘ ناک‘ رخسار اور جبڑے کی ہڈیاں نمایاں ہیں۔بلوغت کو پہنچ کر ہڈیوں میں کوئی خاص تبدیلی واضح نہیں ہوئی۔ گو اعصاب اور نسیجین بدلتی رہتی ہیں۔ اس مزاج کی خصوصیت جسم‘ چہرہ‘ ہاتھ اور پاﺅں کی لمبائی ہے۔ چہرہ بناوٹ میںکتابی ہوتا ہے۔ ایسا شخص قوی‘ سرگرم‘ مستعد اور صاحب عمل ہوتا ہے۔ اس کے جذبات میں شدت اور حرکات میں آزادی ہوتی ہے اور فراست اور عقلمندی بھی اس میں کافی ہوتی ہے۔پیش پیش چلنے والے کھوج لگانے والے‘ تحقیق و تفتیش کرنے والے‘ فوجی لیڈر‘ یہ سب حرکی مزاج کے لوگ ہوتے ہیں۔ ان لوگوں میں ایک خاص قوت عمل ہوتی ہے جو انہیں چین سے نہیں بیٹھنے دیتی۔ یہ مزاج خاص طور پر عمل‘ فوری فیصلوں اور جس طرح بھی ہوسکے منزل تک پہنچنے والوں کا مزاج ہے۔ حرکی مزاج کا ایک آدمی خاص مقصد اور منصوبے کے تحت عمل پیرا ہوتا ہے۔
حیاتی مزاج:اگر جسم گذار اور موٹا تازہ ہو اور ہڈیاں نہیں بلکہ گوشت نمایاں ہو تو ایسے شخص کا مزاج حیاتی ہے اور جسم گول مٹول ہے اور اس طرح چہرہ‘ گردن اور ٹھوڑی بھی گول ہیں تو یہ موٹاپن قوت حیات‘ لچک اور چونچال پن اور مستقل مزاجی کی نشانی ہے‘ ایسے لوگ خوش طبعی اور زندہ دلی اور اچھی طرح زندگی بسر کرنے کے دلدادہ ہوتے ہیں اور ان میں قبول کرنے کا مادہ اور مطابقت پذیر کی صلاحیت بہت ہوتی ہے۔ جشن‘ دوستی‘ یا رباشی اور زندہ دلی اس مزاج کی اہم ترین خصوصیت ہے۔ اس سیرت کے لوگوں میں آسانی سے تغیر قبول کرنے کی صلاحیت بھی اتنی ہی ہوتی ہے جتنی استواری اور ثابت قدمی ہوتی ہے۔ بعض اوقات جوش وخروش زیادہ اور گہرائی ہوتی ہے۔ دلچسپیوں میں وقت گزارنے کی خواہش‘ کام سے گھبراہٹ بھی اس کے اوصاف ہیں۔ اس طبیعت کے آدمی کو آسانی سے خوش کیا جاسکتا ہے۔ لیکن اتنی ہی آسانی سے اسے آزردہ بھی کیا جاسکتا ہے۔ وہ آن کی آن میں مشتعل اور برانگیختہ ہوجاتا ہے مگر اتنی ہی جلد اس کا غصہ اتر بھی جاتا ہے۔ اس مزاج کے آدمی میں اگر ضبط نفس کی علامات نہ ہوں تو خوش خوری اس پر غلبہ پالے گی۔اس سلسلے میں’آئینہ عملیات‘ کے مصنف مولانا قاری صوفی محمد عزیز الرحمٰن پانی پتی کے ذریعے بیان کردہ علامات کا ذکر ضروری ہوگا جس میں موصوف نے بتایا ہے کہ علم قیافہ کے ذریعے کس طرح حالات معلوم کئے جاسکتے ہیں۔ان کے بقول اس علم کی مدد سے ظاہری شکل و صورت دیکھ کر ایک انسان کے متعلق صحیح رائے قائم کرنے میں بڑی مدد ملتی ہے۔انھوں نے مردوں کے تعلق سے کچھ علامات درج کی ہیں جن کے بموجب:
سر کے بال:سیاہ ملائم ہوں‘ دولت مند ہو۔باریک ہوں‘ حسین نیک مزاج ہو۔سخت تر ہوں‘تنگ دست اور بہادر ہو۔سرخی مائل بیٹھے ہوئے تومفلس و پریشان روزگار ہوگا۔
کاسہ سر:لمبائی ہو تو اقبال و ناز بسر کرے۔متوسط ہونا دولت مندی کے آثار ہیں۔زیادہ تر بڑا ہونا مفلسی و پریشانی کا نمونہ ہے۔
پیشانی:بلند‘خوش نصیبی اور دولت مندی کی علامت ہے۔تنگ اور پست ‘کوتاہی عمر اور بد بختی کی علامت ہے۔ہموار پست و بلند‘رنج ومحنت کی علامت ہے‘ عمر سختی میں گذرے‘جبکہ پیشانی پر تل بخت آوری کی علامت ہے۔
خط پیشانی: اگر ایک خط ہے‘ شقیقہ سے شقیقہ تک یعنی ایک کنپٹی سے دوسری کنپٹی تک تو علامت دولت و مال کی ہے ورنہ خسران مال ہے۔دو خط سلطنت اور درازی عمر کی علامت ہے۔تین خط وزارت و شہریاری کی علامت ہے۔ چار وپانچ خط بے دولتی اور درویشی کی علامت ہے۔اگر کوئی خط نہ ہوتو ترک دنیا کی علامت ہے۔
ابرو یعنی بھنویں: دونوں باریک خوب صورت کمان کی طرح ہونا دولت و سلطنت کی علامت ہے۔ ملی ہوئی بھنویں چوری کی علامت ہے۔ ابرو کے بال نہ ہونا یا کم ہونا غربت کا سبب ہے۔ابرو کے بالوں کا سخت ہونا بد بختی کے آثار ہیں‘ غربت کا سبب ہے۔
آنکھ: اگر سفید یا سیاہ ہوں اور سرخ ڈورے اس میں پڑے رہتے ہیں تو اقبال مندی و خوشحالی وشاہد پرستی کی علامت ہے‘ عورتوں کو اس سے بہت فائدہ پہنچے۔ اگر مثل شیروں کے خشم آلود ہو یعنی غصہ بھری ہوئی تو شجاعت و تہور کی علامت ہے۔اگر مثل دیدہ مرغاںہو یعنی مرغ جیسی آنکھ‘ جیسا کہ مرغ کن انکھیوں سے دیکھتا ہے تو بے شرمی اور با حیائی کی علامت ہے۔اگرآنکھیں بلی کی طرح نیلی اور سبز ہوں توبد خلقی بے مروتی کی علامت ہے۔ مثل چکور کے آنکھوں کاہونا چالاکی اور بے وفائی کے آثار ہیں۔
پلک آنکھ: پلکوں کے بال کم ہونازندگی میں عیش و عشرت سے بسر ہونے کی علامت ہے۔سخت زیادہ ہونا مفلسی و شورہ بختی کی علامت ہے۔
ناک: بلند اور بڑی ناک علامت دولت مندی اور سعادت کی ہے۔خوبصورت مثل منقار طوطی و خرطوم پہن ہونے سے ذی عقل پرہیز گار صاحب اقتدار ہو یعنی طوطے کی چونچ جیسی ٹیڑھی اور پھسلی ہوئی ۔ جو درازی و کوتہی بلند پستی باریکی و فربہی میں میانہ و خوش اندام و خوشنما ہو تو علامت نیکی کی ہے۔بہت بلند و باریک و پشتہ دار علامت سبک ساری کی ہے ۔موٹی چھوٹی پست ہونا علامت کوتاہ عقلی‘کم عقلی و پریشان روزگاری کی ہے۔
سوراخ ناک:بڑے ہونا بے حیا ہونے کی علامت ہے۔ تنگ ہوناذی عقل اور باحیا ہونے کا نمونہ ہے۔
کان اور کانوں کی لو: اگر لمبے ہوں نیک طینت باثروت یعنی دولت مند رہے‘ عمر دراز ہو۔ اگر درازی و کوتاہی و لاغری و پنہادری یعنی بیٹھی ہوئی بحد اعتدال ہو‘علامت نیکی اور اخلاقی پسندیدگی کی ہے۔نر گوش اگر کنپٹی سے جدا ہوں تو علامت خوشحالی کی ہے۔ اگر ملے ہوئے مگر باریک ہوں علامت خوشحالی کی ہے۔اگر کان پر بال ہوں تو علامت محنت اور رنج کی ہے۔
چہرہ:کتابی آفتابی چہرہ ہونا خوش نصیبی اور اقبال مندی کی دلیل ہے۔ مثل موش یعنی چوہا او رآہو یعنی ہرن ہونا بد بختی و گدا گری کا ثبوت ہے۔ پر گوشت یعنی خوبصورت ہونا نیک مرد یا اولاد ہونے کے آثار ہیں۔پلنگ یعنی چیتا کا چہرہ ہونے سے صاحب ثروت و حشمت ہونے کا ثبوت ہے۔
زبان: سرخ زبان علامت دولت و مال کی ہے۔ سفید زبان علامت نکبت و فلاکت ہے۔
لب: لب سرخ لب علامت سعادت اور دولت کی ہے ۔لب ہاے سیاہ علامت نکبت و مفلسی و بے دولتی ہے۔
 دانت: باریک دانت مثل انار کے دانے کے علامت دولت و سعادت ہے ۔سفےد دانت علامت دولت و مال ہے ےا فقیر و ترک دنیا کی ہے ۔
آواز: بلند اواز ہونا جاہ و جلال کا ثبوت ہے ۔آواز میں بادل کی سی گرج ہونا نیک مردی کے آثار ہیں ۔مثل طاوس یعنی مور کے ہونا دولت مندی و ناموری کا نشان ہے۔
ڈاڑھی: سیاہ ملائم ہونا دولت مندی و ناموری کا نشان ہے۔ سرخی مائل ہونا بے رحمی وغصہ کی علامت ہے۔
شگاف دہن:چوڑا اور کشادہ منہ ہونا ناقص العقل وپریشان حالی کی علامت ہے۔متوسط کشادگی ہونا اوسط حالت میں ہونے کی دلیل ہے۔تنگ دہن ہونا عمر عیش و طرب میں بسر ہونے کی نشانی ہے۔
ٹھوڑی:مدور یعنی گول ٹھوڑی ہوناعقل مند واہل فن ہونے کی علامت ہے۔کوتاہ ہونا عیبی کا نشان ہے ۔ ٹھوڑی کا خالی ہونابد خصالی کی علامت ہے ۔بلند ہونا دولت مندی کی دلیل ہے۔
گردن:لمبی ہونے سے شوریدہ بختی و ذلیل ہونے کی علامت ہے۔متوسط ہونا اوسط درجے میں بسر ہونے کی دلیل ہے۔کوتاہ ہونا حرمزدگی کی نشانی ہے۔ بہت بڑی ہونا چوری کی علامت ہے۔
خط گلو:ایک خط ہونا عمر طبعی کی دلیل ہے۔دوخط نیک بخت و عقل مند ہونے کی دلیل ہے۔تین خط سے صاحب ثروت مگر پرشکوہ ہونے کا نشان ہے۔
پیٹھ:خورومیانہ علامت دولت و سلطنت کی ہے۔حد اعتدال سے درازی علامت نکبت یعنی بے وقوفی ہے۔
بازو:دراز بازو علامت دانائی و ہوشمندی ہے۔متوسط بازو علامت سعادت و دولت ہے۔
ہاتھ:اگرداہنا ہاتھ بائیں ہاتھ سے بڑا ہوتوعلامت تہور و شجاعت کی ہے۔اگر بایاں ہاتھ داہنے ہاتھ سے بڑا ہوتو علامت بے چینی اور بددلی کی ہے۔
کہنی:شیر کی سی کہنی جو پر گوشت اور خوش اندام ہو دولت کی علامت ہے۔خشک و باریک بندر کی سی کہنی کے مثل علامت نکبت و فلاکت ہے۔
انگلیاں:اگر چھنگلیا اپنی برابر والی سے بڑی ہو تو اس بات کی علامت ہے کہ یہ شخص مرتبے میں اپنے باپ سے بھی بڑھ جائے گا۔واضح رہے کہ انگلیاں انسان کو روزمرہ کے کام کاج میں ہی مدد فراہم نہیں کرتیں بلکہ وہ پرکشش شخصیت کا ایک اہم حصہ بھی ہیں۔ ایک حالیہ سائنسی مطالعے سے ظاہر ہوا ہے کہ مرد کی چوتھی انگلی کی لمبائی یہ تعین کرنے میں مدد دیتی ہے کہ اس کی شخصیت خواتین کے لئے کتنی جاذب نظر ہے۔اس سوال کا جواب حقیقی جواب دے سکتی ہیں بے دھیانی میں آپ کی جانب اٹھنے والی آنکھیں۔ اچھا نظر آنا اور بالخصوص صنف مخالف کی نظروں کو بھانا ہر انسان کی ایک فطری خواہش ہے اور یہی وہ خواہش ہے جس کے دم سے کاسمیٹکس کی صنعت کھربوں ڈالر کی انڈسٹری بن چکی ہے۔حسن دو طرح کا ہوتا ہے ایک وہ جو منہ پر پانی کا چھینٹا مارتے ہی دھل جاتا ہے اور دوسرا وہ جو زیور اور زیبائش کا محتاج نہیں ہوتا اور عمر بھر قائم رہتاہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ حسن کا تعلق رنگت سے ہے نہ کہ ناک نقشے سے‘بلکہ حسن تناسب کا نام ہے۔ الگ سے اچھی دکھائی نہ دینے والی چیز اگر چند دوسری چیزوں کے ساتھ تناسب سے رکھی ہوتو آنکھوں کو لبھانے لگتی ہیں۔کچھ عرصہ پہلے دنیا کی حسین ترین شخصیات کی تصویروں کو جب کمپیوٹر کے ذریعے پرکھا گیا تو پتہ چلا کہ ان کے چہرے کی ساخت، آنکھ، ناک، کان اور دہن میں تناسب موجود تھا اور جس کا تناسب جتنا بہتر تھا، وہ چہرہ اتنا ہی حسین اور پرکشش تھا۔کیا آپ دوسروں کے لئے پرکشش اور جاذب نظر ہیں ؟ یہ جاننے کے لئے آپ کو آئینہ دیکھنے کی ضرورت ہے اور نہ ہی کسی سے پوچھنے کی جاجت۔ اس سوال کا جواب موجود ہے آپ کی اپنی انگلیوں کے پاس۔ جس طرح ایک دست شناس ہاتھ کی لکیریں دیکھ کر آپ کے مستقبل کی پیش گوئی کرسکتا ہے۔اسی طرح اپنے ہاتھ کی چوتھی انگلی پر نظر ڈال کر آپ یہ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ آپ کی شخصیت دوسروں کے لئے کتنی پرکشش اور جاذب نظر ہے۔حال ہی میں یونیورسٹی آف جنیوا میں کی جانے والے ایک سائنسی مطالعے سے ظاہر ہوا ہے کہ مرد کے ہاتھ کی چوتھی انگلی اگردوسری انگلی کے مقابلے میں جس نسبت سے بڑی ہوگی تو اس کا چہرہ صنف مخالف کے لئے اتنا ہی پرکشش ہوگا۔چوتھی انگلی کو انگوٹھی کی انگلی بھی کہا جاتا ہے جبکہ دوسری انگلی بالعموم شہادت کی انگلی کہلاتی ہے۔ڈاکٹر کیملی فرڈینزی کی سربراہی میں ہونے والی اس تحقیق کے دوران 49 رضاکار مردوں کی چوتھی اور دوسری انگلیوں کی لمبائی کی پیمائش کی گئی اور ان میں پایا جانے والا تناسب ریکارڈ کیا گیا۔اس کے بعد ان مردوں کی تصویریں مختلف خواتین کے سامنے رکھی گئیں اور ان سے کہا گیا کہ وہ مردانہ وجاہت اور کشش کے لحاظ سے تصویروں کی درجہ بندی کریں۔جب اس درجہ بندی کا موازنہ چوتھی انگلی کی لمبائی سے کیا گیا تو ماہرین کو پتا چلا کہ جن مردوں کی چوتھی انگلی ، دوسری انگلی کی نسبت زیادہ لمبی تھی، خواتین نے انہی کو پرکشش قرار دیاتھا۔ دلچسپ بات یہ ہے انگلی کی لمبائی کا تناسب جتنا زیادہ تھا، وہ چہرہ خواتین کے لئے اتنا ہی زیادہ پرکشش تھا جبکہ خواتین کو انگلیوں کی ساخت کے بارے میں کچھ نہیں بتایا گیا تھا۔تحقیق کے دوران خواتین کو ایک سوال نامہ مکمل کرنے کے لئے کہا گیا جس میں ایک یہ سوال بھی موجود تھا کہ ان تصویروں میں سے وہ کس مرد کو اپنا جیون ساتھی چننا پسند کریں گی۔ انہوں نے جن تصویروں کا انتخاب کیا، وہ انہی مردوں کی تھیں جن کی چوتھی انگلی نمایاں طور پر لمبی تھی۔ جب کہ خواتین کو مردوں کی مالی حیثیت وغیرہ کے بارے میں بھی بتایا گیا تھا۔ڈاکٹر فیردنزی کا کہنا ہے کہ ہمیں اپنی تحقیق سے یہ پتہ چلا ہے کہ خواتین نے لمبی چوتھی انگشت کے مردوں کو اس لئے بھی پسند کیا کیونکہ ان میں مردانہ وجاہت بھی زیادہ تھی۔اس سے قبل ایک اور سائنسی مطالعے سے یہ ظاہر ہوچکا ہے کہ مردوں کی چوتھی انگلی کی لمبائی جتنی زیادہ ہوتی ہے ، ان میں جنسی ہارمونز کی مقدار بھی اتنی ہی زیادہ ہوتی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ہارمونز کی مقدار مردوں کی شخصیت پر اثرانداز ہوتی ہے اور زیادہ ہارمونز انہیں زیادہ پرکشش بناتے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے انگلیوں کی لمبائی سے متعلق ایک اور تحقیق سے یہ معلوم ہوا تھا کہ اسٹاک ایکس چینج اور دیگر کاروباری اداروں کی کامیاب شخصیات کی چوتھی انگلی کی لمبائی غیر معمولی طورپر زیادہ تھی۔ڈاکٹر فیرونزی کا یہ بھی کہنا تھا کہ صرف انگلیوں کی ساخت اور لمبائی سے ہی جنسی ہارمونز کی مقدار کا تعین نہیں ہوتابلکہ پسینے کی مخصوص بو اور آوا ز سے بھی اس کی جانچ کی جاسکتی ہے لیکن یہ وہ چیزیں ہیں عمر بڑھنے اور بلوغت کے بعد مرد میں ظاہر ہوتی ہیں جبکہ انگلیاں ماں کی کوکھ سے ہی بچے کے ساتھ آتی ہیں۔
پیٹ:پر گوشت جس کو ہندی میں توند کہتے ہیں‘ علامت نعمت و دولت ہے۔پیٹ کا بڑا اور بے گوشت ہونا علامت نکبت و فلاکت مفلسی و محتاجی کی ہے۔
ناف:عمیق خوش گوشت علامت دولت و مال ہے۔
ران:ران پر گوشت مثل ران آہوعلامت دولت و ثروت ہے۔گھوڑے کی ران کے مانند ہونا علامت دہقانی اور کشادہ روزی کی ہے۔شیر کی ران کی مانند ہوناعلامت دولت و مال کی ہے۔بہت بڑی اور کم گوشت و بد نما ہونا ران کا نردلی کی دلیل ہے۔
پنڈلی:پنڈلی پر گوشت اور خوش اندام ہونا علامت دولت ہے۔پنڈلی قوی ہونا مثل جاسوس کی پنڈلی کے علامت خوبصورت عورت ملنے کی ہے۔
پاوں:پاوں کا خوش اندام و پر گوشت ہوناعلامت سعادت و دولت ہے۔کم گوشت اور تلوے کا گہرا ہوناعلامت سعادت و دولت ہے۔تلوے کا پر گوشت ہوناکہ تلوا زمین پر لگے‘علامت بدچلنی ہے۔
sarailliyasi@gmail.com+919811254615

230811 bholey bhaley awam ka kaisey ullu bana rahey hey baba by sara illiyasi

No comments:

Post a Comment