Monday, October 24, 2011

kiyo horaha hey khudkashiyo me izafa by sara illiyasi کیوں ہو رہا ہے خودکشیوں میں اضافہ؟


سارہ الیاسی
اگر ہم روزمرہ کے اخبارات کا جائزہ لیں تو ہمیں روزانہ کسی نہ کسی کی خودکشی کی خبر نظر آئے گی۔اس سلسلے میںتازہ موصولہ اطلاعات کے مطابق ہندوستان میں رہنے والے نوجوانوں میں خودکشی کے رجحان میں خطرناک حد تک اضافہ ہوگیا ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق معاشی اورگھریلومسائل کی وجہ سے ملک میں ہرگھنٹے کے دوران 15 نوجوان موت کو گلے لگا رہے ہیں۔ہندوستان کے نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو نے بتایا ہے کہ ہر سال ایک لاکھ 31 ہزار 4 سو نوجوان اپنے ہاتھوں زندگی کا خاتمہ کر رہے ہیں۔بیورو کا کہنا ہے کہ ہر گھنٹے میں مایوس ہو کر 15 نوجوانوں کا موت کو گلے لگانا انتہائی تشویش ناک ہے جبکہ خودکشی کرنے والوں میں ہر 3 میں سے ایک کی عمر 15 سے 29 برس کے درمیان ہوتی ہے۔سماجی ماہرین کا کہنا ہے کہ نوجوانوں میں خودکشی کے واقعات بڑھنے کا سبب عالمگیریت کی وجہ سے پیدا ہونے والی سماجی مسائل، مشترکہ خاندانی نظام کی ٹوٹ پھوٹ، والدین کی عدم توجہ جذباتی سہاروں سے محرومی ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ بڑھتے ہوئے معاشی مسائل بھی عام افراد کو زندگی سے مایوس کر رہے ہیں۔گویا کہ اصل سبب مایوسی ہوا جبکہ اہل علم کے نزدیک اسلام میں مایوسی کوکفر ‘شرک‘ بدعت‘جھوٹ ‘ غیبت اور بے حیائی کی طرح حرام قرار دیا گیاہے۔اس کے باوجود ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں سالانہ دس لاکھ افراد خودکشی کرتے ہیں اور ایک سے دو کروڑ انسان اس کی کوشش کرتے ہیں۔ غریب اور پسماندہ ممالک میں خود کشی کرنے والوں کی شرح نسبتاً زیادہ ہے۔ اگر ہم خود کشی کی وجوہات کا جائزہ لیں تو صرف اور صرف ایک ہی وجہ نظر آتی ہے جسے مایوسی یا Frustration کہا جاتا ہے۔ یہ وہ چیز ہے جس کا شکار تقریباً ہر انسان ہوتا ہے۔ بعض افراد میں یہ مایوسی اتنی شدت تک پہنچ جاتی ہے کہ وہ اپنی زندگی کے خاتمے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس موضوع پر بہت کچھ لکھا جاچکا ہے۔ عام طور پر ان مسائل کے حل کی جو تجاویز دی جاتی ہیں ، وہ اجتماعی سطح پر دی جاتی ہیں جن پر عمل حکومت یا بڑے بڑے ادارے ہی کر سکتے ہیں۔ اس کے برعکس ہماری اس تحریر کا مخاطب وہ لوگ ہوں گے جو کسی نہ کسی قسم کی مایوسی کا شکار ہیں۔ اس تحریر میں ہم یہ جائزہ لینے کی کوشش کریں گے کہ انسانوں میں مایوسی کیوں پیدا ہوتی ہے اور اس کے تدارک کا طریقہ کار کیا ہے؟ کیا اللہ تعالیٰ نے اپنے دین میں ہمیں اس کے متعلق کچھ تعلیمات دی ہیں ؟ ہم کن طریقوں سے اپنے اندر مایوسی کو کم کر سکتے ہیں اور زیادہ سے زیادہ خوشیاں سمیٹ سکتے ہیں؟
علم نفسیات میں مایوسی کو خیبت بھی کہا جاتا ہے۔ پاکستان کے ممتاز ماہر نفسیات حمیر ہاشمی جن کی تصنیفات امریکہ اور کینیڈا کی یونیوسٹیوں کے نصاب میں شامل ہیں ، مایوسی کی تعریف کچھ اس طرح کرتے ہیں کہ مایوسی یا خیبت ہم اس احساس کو کہتے ہیں جو ایک شخص اپنی کسی خواہش کی تسکین نہ ہونے کے طور پر محسوس کرتا ہے، مثلاً اگر ایک طالب علم امتحان میں پاس ہونا چاہے لیکن فیل ہو جائے تو وہ خیبت یا مایوسی سے دوچار ہوگا یا اگر کوئی کھلاڑی کھیل کے میدان میں مقابلہ جیتنا چاہے لیکن ہار جائے تو وہ خیبت کا شکار ہوگا جبکہ حقیقت یہ ہے کہ کھیلوں کا بنیادی مقصد جہد مسلسل کا جذبہ قائم رکھنا ہے۔بقول علامہ اقبال:
پلٹنا‘جھپٹنا‘ پلٹ کر جھپٹنا
لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانا
بہر کیف ماہر نفسیات موصوف کی مانیں تواب اگر ہم مذکورہ تعریف میں اپنے آپ کا اور اپنے گرد وپیش کے افراد کا جائزہ لیں تو پتہ چلے گا کہ دنیا کا ہر شخص اپنی زندگی میں مایوسی یا خیبت کا شکار رہا ہے اور جب تک کسی شخص کے سانس میں سانس ہے، وہ خیبت سے دوچار ہوتا رہے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کسی بھی شخص کی تمام خواہشات کی تسکین اس کی مرضی کے عین مطابق ممکن ہی نہیں ہوتی، اس لئے وہ کسی نہ کسی حد تک مایوسی کا شکار رہے گا۔ تاہم کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جن میں یہ احساس زیادہ شدید نہیں ہوتا اور کچھ لوگ ایسے ہیں، جن میں یہ احساس شدید حد تک پایا جاتا ہے۔ کسی کو شک ہو تو وہ حمیر ہاشمی کی نفسیات، ص 772-773کا مطالعہ کر سکتا ہے۔ سادہ الفاظ میں اگر کوئی شخص کسی چیز کی خواہش کرے اورکسی وجہ سے وہ خواہش پوری نہ ہوسکے تو اس کے نتیجے میں اس کے دل ودماغ میں جو تلخ احساس پیدا ہوتا ہے، اسے مایوسی کہتے ہیں۔لہٰذامایوسی کی اقسام کا جائزہ لیں تو پتہ چلے گا کہ اصل میں مایوسی بنیادی طور پر دو طرح کی ہوتی ہے، ایک تو وہ جو ہمارے بس سے باہر ہے اور دوسری وہ جو ہمارے اپنے کنٹرول میں ہوتی ہے۔ ناقابل کنٹرول مایوسی کی مثال ایسے ہے جیسے کوئی شخص یہ چاہتا ہے کہ اس کا بچہ زندہ رہے اور بڑا ہو کر اس کی خدمت کرے۔ کسی وجہ سے اس بچے کی موت واقع ہوجائے اور اس شخص کی یہ خواہش پوری نہ ہوسکے تو یہ ناقابل کنٹرول مایوسی کہلاتی ہے۔ اسی طرح جب ہم فطری حوادث جیسے سیلاب، زلزلہ اور طوفان میں لوگوں کو ہلاک ہوتے دیکھتے ہیں تو اس سے ہمارے دل میں جو غم، دکھ یا مایوسی پیدا ہوتی ہیں وہ ناقابل کنٹرول ہوتی ہے۔ یہ وہ معاملات ہیں جن میں انسان کچھ نہیں کرسکتا۔ اس قسم کی مایوسی کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے اپنے دین میں یہ ہدایت دی ہے کہ انسان کو چاہئے کہ ایسے معاملات میں وہ اللہ کی پناہ پکڑے اور صبر اور نما زکی مدد سے اس مایوسی کو کم کرے۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے : وَاستَعِن ±وا بِالصّ....ِ رَاجِعونَ۔ (البقر? 2:45-46) ’صبر اور نماز سے مدد چاہو۔ بے شک یہ (اللہ سے) ڈرنے والوں کے علاوہ (دوسرے لوگوں کے لئے )بہت مشکل ہے۔ (اللہ سے ڈرنے والے تو وہ ہیں) جو یہ یقین رکھتے ہیں کہ انہیں اپنے رب سے ملنا ہے اور انہیں اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔‘ اس آیت میں یہ حقیقت بھی بیان کردی گئی ہے کہ یہ آفات کوئی بڑی چیز نہیں ہیں اس لئے کہ ایک دن سب نے ہی اپنے رب سے ملاقات کرنے کے لئے اس دنیا سے جانا ہے۔ اگر انسان حقیقت پسند ہو اور کائنات کی اس بڑی حقیقت کو قبول کرلے تو پھر اسے صبر آ ہی جاتا ہے اور یوں اس کی مایوسی کے زخم مندمل ہو جاتے ہیں کیونکہ چند روزہ زندگی کے بعد ایک لامحدود زندگی اس کے سامنے ہوتی ہے جہاں نہ کوئی دکھ ہو گا اور نہ کوئی غم۔ اگر ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کا جائزہ لیں تو ہمیں یہ معلوم ہوگا کہ آﷺ نے ہر ایسے معاملے میں اللہ کی پناہ پکڑی ہے اور جب بھی آپ کو کسی مشکل کا سامنا کرنا پڑا تو آپ نے نماز کے ذریعے اپنے رب کی طرف رجوع کر کے ذہنی سکون حاصل کیا اور اس مصیبت پر صبر کیا۔ اس کا احساس ہمیں آپ کی دعاوں سے ہوتا ہے۔ دوسری قسم کی مایوسی وہ ہوتی ہے جو انسانی وجوہات سے ہوتی ہے اور اگر انسان چاہے تو اسے کم سے کم حد تک لے جا سکتا ہے۔ اس قسم کی مایوسی کی بہت سی وجوہات ہیں۔ ہم ان میں سے ایک ایک پر بحث کرکے ان کا حل تجویز کرنے کی کوشش کریں گے۔
دنیادارالامتحان ہے، ہر وقت , ہر منزل پرآدمی کو نئے نئے مسائل ومشکلات سے گزرنا پڑتا ہے اور وہی شخص اس میں کامیاب ہے جو ہر طرح کی مشکلات کا پامردی سے مقابلہ کرے‘جس خالق کائنات نے انسان کو پیدا کیا،مہد سے لحد تک اس کی حفاظت ونگرانی کی اس کو سکون و راحت کی نعمت سے سرفراز کیا، جب وہی خدا اپنے بندوں کا مصائب ومشکلات کے ذریعہ امتحان لیتا ہے تو بعض لوگ مشکلات وآزمائش میں صبر کا دامن چھوڑ بیٹھتے ہیں اور جلد بازی اور بے صبری میںمایوسی کا شکار ہوتے ہوئے متاع حیات ہی کو ختم کردیتے ہیںجبکہ وہ موت کے بعد بھی چین وسکون حاصل نہیں کرسکتے۔ کوئی سرپھرا عشق میں ناکامی پر خودکشی جیسے سنگین جرم کا ارتکاب کررہا ہے اور کوئی طالب علم امتحانات میں ناکا می کے باعث مایوس ہوکر خودکشی جیسے سنگین جرم کا ارتکاب کررہاہے جبکہ دین اسلام نے خود کشی کو حرام اور گناہ کبیرہ قرار دیا ہے، خودکشی اللہ تعالی کی رحمت سے مایوسی کفر ہے۔ گویاانسان اپنے جسم و جان کا خود مالک نہیں ہے بلکہ صرف امین ہے، اس لئے اس کو خلاف مرضی خدا استعمال نہیں کرسکتا ، ارشاد الہی کا ترجمہ یوں ہے کہ:اور تم اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو۔ (سورہ البقرة:195)۔نیز سور? النساءمیں ارشاد ہے:وَلَا تَقتلواَنفسکم.... ترجمہ: اور اپنے آپ کو قتل نہ کرو،بیشک اللہ تم پر نہایت مہربان ہے” اور جو ظلم و زیادتی کی بنیاد پر اس کا ارتکاب کربیٹھے تو عنقریب ہم اسے جہنم میں ڈال دیں گے اور یہ کام اللہ پر آسان ہے(سورة النساء: 29/30) اگر کوئی مصیبت پہنچ جائے تو ہم اپنی زندگی کا خاتمہ کرکے اس مصیبت سے نجات توحاصل نہیں کرسکتے،حضرت ﷺنے ارشاد فرمایا کہ خودکشی کرنے والے لوگوں کودوزخ میں اسی طرح کا عذاب دیا جائےگا جس طرح اس نے اپنے آپ کو قتل کیا ہو گا۔صحیح بخاری،صحیح مسلم میں سیدنا ابو ہرہ رہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ ترجمہ:حضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جس کسی نے پہاڑ سے گر کر خودکشی کرلی وہ جہنم کی آگ میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اسی طرح گرتا رہے گا۔ جس کسی نے زہر پی کر خودکشی کرلی تو زہر اس کے ہاتھ میں ہوگا اور جہنم کی آگ میں وہ ہمیشہ ہمیشہ زہر پیتا رہے گا اور جس نے لوہے کے ہتھیار سے خودکشی کرلی تو وہ ہتھیار اس کے ہاتھ میں ہوگا جس سے وہ جہنم کی آگ میں مسلسل اپنا پیٹ چاک کرتا رہے گا ۔(صحیح بخاری شریف، باب شرب السم ‘حدیث نمبر:5778-صحیح مسلم شریف ،حدیث نمبر:313) صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں حدیث پاک ہے‘ترجمہ:حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے ،آپ نے فرمایا کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اگر کسی کو تکلیف پہنچے تو وہ ہرگز موت کی تمنا نہ کرے۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہہ سکتا ہے کہ اے اللہ! مجھے اس وقت تک زندہ رکھ جب تک میرے لئے زندگی بہتر اور خیر کی ہو اور اگر میرے لئے موت بہتر ہو تو مجھے موت دیدے۔(صحیح بخاری ‘حدیث نمبر:5671)جو لوگ عارضی اور وقتی مصیبتوں سے بچنے کے لئے خود کشی کرتے ہیں، اس سے بڑی مصیبتیں ان کی منتظر رہتی ہیں۔ مصائب ومشکلات سے تنگ آ کر یا امتحانات میں ناکا م ہونے کی بنا پر خود کشی نہ کی جائے بلکہ اس بات کا یقین رکھیں کہ زندگی اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے۔ مصیبت آج ہے کل ٹل جائے گی ،آج ناکام ہوئے کل کامیاب ہوجائینگے،ہمیں حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے اسوہ حسنہ کے مطابق کامل توکل اور قناعت اختیار کرنا چاہئے۔انسان کسی بھی مصیبت پر دکھی نہ ہو بلکہ جو بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے فیصلہ ہو ، اسے دل و جان سے قبول کرلے،اللہ تعالیٰ نے جس قدر عطا فرمایا ہے اسی پر خوش رہے،اس سے زیادہ کی کوشش اگر چہ انسان ضرورکرتا ہے لیکن جو بھی اسے مل جائے اسے اپنے رب کی اعلیٰ ترین نعمت سمجھتے ہوئے خوش رہے اور جو اسے نہیں ملا ، اس پر غمگین نہ ہو ںبلکہ ہمیشہ اللہ کی رحمت سے امید رکھتے ہوئے اپنی کوششوں کو جاری رکھے، انشاءاللہ فتح ونصرت مقدر بنے گی۔
 sarailliyasi@gmail.com+919811254615ا

191011 kiyo horaha hey khudkashiyo me izafa by sara illiyasi

No comments:

Post a Comment