Friday, March 9, 2012

kese ruke gi taqreebaat me khane ki badhti hui barbadi? کیسے رکے گی تقریبات میں کھانے کی بڑھتی ہوئی بربادی؟

سارہ الیاسی
 by sara iliiyasi

دین سے دوری کے سبب تقریبات میں کھانے کی بربادی بڑھتی جا رہی ہے۔ دہلی اےن سی آر اس معاملے میں بھی کافی آگے ہیں۔ یہاں شادی، پارٹی، سیمینار جیسی معاشرتی تقریبات میں 25 فیصد کھانا برباد ہو جاتا ہے۔ کھانے کی بربادی روکنے کیلئے حکومت بھی سنجیدہ ہے۔ رواں سال سے اسکولوں میں بچوں کو پڑھایا جائے گا کہ کھانا ضائع نہیں کرنا چاہئے۔ایک آر ٹی آئی کے جواب میںوزارت امور صارفین نے بتایا کہ کھانے کی بربادی کیسے روکی جائے، اس کیلئے بنائی گئی کمیٹی تمام لوگوں سے رائے لے کر رہنما: خطوط تیار کر رہی ہے۔ آرٹی آئی کارکن سبھاش چندر اگروال نے آر ٹی آئی کے تحت مذکورہ موضوع پر معلومات طلب کی تھیں۔ جواب میں بتایاگیا ہے کہ رواں برس سے اسکولوں میں بھی بچوں کو اس سلسلے میں تعلیم دی جائے گی۔ اےن سی ای آرٹی اور سی بی اےس ای سے اس سلسلے میں بات کی گئی تھی۔ تیسری اور پانچویں جماعت تک علم ماحولیات ای وی ایس کے نصاب میں اور چھٹی سے دسویں جماعت تک کے سائنس مضامین کے کامن تھیم میں ’فوڈ‘ کو بھی شامل کر دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ11 ویں اور 12 ویں جماعت میں ہیلتھ اینڈفزیکل ایجوکیشن میں کھانے کی بربادی کے بارے میں بھی پڑھایا جائے گا۔ اس کے ساتھ ہی تمام ریاستوں کی حکومتوں نے بھی اسے سلےبس میں شامل کرنے کی حامی بھری ہے۔ حالانکہ میزورم، دمن دیو اور ناگر حویلی انتظامیہ نے کہا ہے کہ بچوں کو اس سلسلے میں بیدار کیا جائے گا لیکن اس مرتبہ سلےبس میں اسے شامل کرنا مشکل ہے لہذا آئندہ سال سے اسے شامل کیا جائے گا۔
اس سلسلے میںحال ہی میںانڈین انسٹی ٹیوٹ آف پبلک ایڈمنسٹریشن نے کھانے کی بربادی پر دہلی، غازی آباد، فرید آباد اور گڑگاوں میں سروے کیا تھاجس کی رپورٹ میں کہا گیاہے کہ کھانے کی بربادی ایک شہری عادت ہے جوشہروں میں جاری دیگر طرز زندگی کی طرح بتدریج دیہی علاقوں میں بھی پھیلتی جا رہی ہے۔ شادی میں نمائش اور تصنع کو فرغ ملاہے، اس وجہ سے کھانے کی بربادی بھی اضافہ ہوا ہے۔ سروے میں 93.4 فیصد لوگوں نے کہا کہ سوشل گےدرنگ میں کھانا برباد ہوتا ہے۔ 72.6 فیصد لوگوں نے کہا کہ سب سے زیادہ کھانااور وقت برباد ہوتا ہے ‘ خصوصا اس صورت میں جب ڈشیںزیادہ ہوتی ہیں۔لوگ انواع و اقسام کے کھانوں کی بھڑ میں سمجھ نہیں پاتے کہ کیا کھائیں اور کیا چھوڑیں۔ سروے میں67.9 فیصد شرکاءنے اعتراف کیا کہ لوگ زیادہ کھانا اپنی پلیٹوں میںلے تو لیتے ہیں لیکن اتنا کھا نہیں پاتے جب کہ پلیٹ کا بچا ہوا کھانے کا رواج نہیں ہے اور اسے توہین سمجھا جاتا ہے جس وجہ سے غذا کی بربادی ہوتی ہے۔ 67.3 فیصد نے کہا کہ لوگ اس کے تئیں لاپروا ہوجاتے ہیں ‘ اس لئے انہیں فرق نہیں پڑتا کہ کھانا برباد ہو رہا ہے۔ 83.2 فیصد لوگوں کا خیال ہے کہ تصنع اور فیشن کے چکر میں زیادہ کھانا برباد ہو رہا ہے۔ رپورٹ کے مطابق جس طرح کھانا پیش کیا جاتا ہے وہ بھی بربادی کی وجہ ہے جبکہ 75 فیصد لوگوں نے کہا کہ بفے سسٹم کی وجہ سے کھانازیادہ برباد ہوتا ہے۔ 44.1 فیصد لوگوں نے کہا کہ جہاں کنبہ کے اراکین کھانا بناتے ہیں اور پیش کرتے ہیںتو وہاں کھانا برباد نہیں ہوتا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ درمیانی زمرے کی تقریبات میں کھانے کے دوران 10سے12 ڈشیں ہوتی ہیں جبکہ اعلی طبقہ کے مینو میں 100سے150تک اشیاءکھانے کیلئے پیش کی جاتی ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ قانون بنا کر اسے نہیں روکا جا سکتا کیونکہ اس سے بدعنوانی بڑھے گی بلکہ لوگوں کو بیدار کرکے اور مذہب کی بنیاد پر کنٹرول کر کے ہی کھانے کی بربادی روکی جا سکتی ہے۔ کھانے کی بربادی کیسے روکی جائے اس کیلئے وزارت نے مئی 2011 میں ایک کمیٹی بنائی تھی۔ پہلے یہ دو ماہ کیلئے ہی بنی تھی لیکن اب اس کی مدت بڑھا دی گئی ہے۔ فی الحال اس کی مدت میں رواں مہینے کے آخر تک توسیع کی گئی ہے۔واضح رہے کہ مسلم شریف میں سیدنا جابر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ جب تم میںسے کسی کا لقمہ گر جائے تو چاہئے کہ وہ اسے اٹھاکر گندگی دور کرکے کھالے اور شیطان کیلئے اسے نہ چھوڑے اور اپنا ہاتھ رومال سے نہیں پونچھے یہاں تک کہ اپنی انگلیاں چاٹ لے کیونکہ وہ نہیں جانتا کہ برکت کھانے کے کس حصہ میں ہے۔لہٰذا سمجھنا چاہئے کہ اسباب خوردونوش اور کھانے پینے کے سامان قدرت کے بیش بہا عطایا ہیں، ان کی قیمت واہمیت ان سے پوچھ لیجیے‘ جو محروم ہیں۔ اگر کسی کے پاس نعمتیں میسر ہیں تو وہ اس کی تنگی سے ناواقف ہے جس سے وہ بے خبر ہے۔ سب کی بات بھی چھوڑ دیجیے ، زندگی میں کبھی کبھار ایک دانہ اور ایک قطرہ آب بھی اپنی اہمیت جتاتا ہے۔ سامان خورد ونوش کی اہمیت تو ایک عام انسان کو بھی معلوم ہے چہ جائیکہ بات خاص مسلمان کی ہو۔ جو اللہ و رسول کا فرمانبردار ہوتا ہے اور جس کی ہر ادا اسلامی سانچے میں ڈھلی ہوتی ہے۔ وہ اپنے مالک ورازق کی دی ہوئی نعمت کا قدرداں ہوتا ہے اور شکرگزاربھی۔ آخر کیوںنہیں؟ جبکہ’ لئن شکرتم لازیدنکم‘ اگر تم شکرگذاری کروگے تو ہم مزید کریںگے۔پھر دانہ تو اسی کو ملتا ہے جو اس کی قدر کرتا ہے۔گھر میں ڈھیرسارے غلے اور اناج ہوں یاپھر دسترخوان پر لگے نوع بہ نوع ماکولات ومشروبات یاپھر کوئی محدود ومقررغذا۔ قدر تو ہونی ہی چاہئے۔ زیادہ ہونے کا یہ مطلب قطعاً نہیں کہ اس کو برباد کیا جائے اور شیطان کو موقع دیاجائے۔ جو انسان کا ازلی دشمن اسی کی تلاش میں رہتا ہے جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سکھایا ہے کہ کھانا کھاتے وقت اگر کوئی لقمہ کسی کے ہاتھ سے گر جائے توگندہ اورخراب سمجھ کر اسے چھوڑ نہیں دے بلکہ اٹھاکر صاف کرے اور پھر کھاجائے مگر شیطان کیلئے نہیں چھوڑے جس کیلئے انسان ہرآن خود پریشان ہے۔ آخر شیطان لعین کیلئے اس کو کیوں چھوڑ دے وہ تو ہرجگہ برباد کرنے اور کرانے کیلئے ہی پہنچتا ہے۔ پھر موقع پاتے ہی یہ کرگزرتا ہے۔مسلم شریف میں حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ سے ہی مروی ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ شیطان تم میں سے ہر کسی کے ہرکام کے وقت یہاں تک کہ کھانے کے وقت بھی پہنچ جاتا ہے ۔ اس لئے وہ کھانا کھاتے وقت کچھ نہ کچھ تو برباد کرے گا ہی۔ وہ چاہے گا ہی کہ دانہ اور کھانا برباد ہو ، جو گرے وہ نہ اٹھے اور انسان اسے چھوڑ دے۔ مگر اسلامی ادب یہ ہے کہ اٹھاکر اسے صاف کرنے کے بعد کھا لینا ہے۔ اس سے شیطان کو منہ کی کھانی پڑتی ہے ، دوسری جانب اسے کھانے والے کے مزاج میں انکساراور تواضع بھی آتی ہے ، ہوسکتا ہے کہ برکت اسی لقمے میں ہو ، جو نیچے گرگیا۔ اسی لئے آپ نے تعلیم دی کہ کھانا کھانے کے بعد کوئی شخص فوری طور پر اپنا ہاتھ رومال وغیرہ سے نہیں پونچھے بلکہ اپنی انگلیاں اچھی طرح چاٹ لے کیونکہ وہ نہیں جانتا کہ برکت کھانے کے کس حصے میں ہے۔ بخاری ومسلم میںحضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا ہے کہ جب کوئی کھانا کھائے تو اپنی انگلیاں نہیں پونچھے ، یہاں تک کہ ان کو چاٹ لے یا چٹادے۔اسلام کا بتلایا ہوا یہ ادب بھی کتنا لطیف ہے۔ اس کی پیروی سنت پر عمل ہے اور سچ پوچھئے تو کھانا کھانے کے بعد اس کا اپنا ایک الگ لطف اور مزہ ہوتا ہے۔
sarailliyasi@gmail.com+919811254615
+919654778803
120312 kese ruke gi taqreebaat me khane ki badhti hui barbadi by sara iliiyasi

No comments:

Post a Comment